دی اکانومسٹ جریدے کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے چوتھے مہنگے ترین ملک میں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے ارجنٹائن ہے جہاں مہنگائی کی شرح تقریباً 51 فیصد ہے۔ دوسرا ملک ترکی ہے جہاں مہنگائی کی شرح 19 فیصد سے زیادہ ہے۔ تقریباً 10 فیصد مہنگائی کے ساتھ برازیل تیسرا ملک ہے اور پاکستان چوتھا ملک ہے جہاں مہنگائی کی شرح 9 فیصد ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اعدادوشمار پچھلے ماہ کے ہیں۔ پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً پندرہ روپے کا مزید اضافہ اکتوبر کے مہینے میں ہوا ہے جس کے معاشی اثرات آنا ابھی باقی ہیں۔ جس طرح عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں آنے والے دن بھی کوئی اچھی خبر لاتے دکھائی نہیں دے رہے لیکن مہنگائی میں اضافے کا سارا ملبہ پٹرولیم مصنوعات پر ڈال کرحکومت اپنی کمزور معاشی پالیسیوں پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ پٹرولیم مصنوعات صرف ایک وجہ ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ مہنگائی کی بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے۔ جس کی ذمہ داری پاکستانی معاشی ٹیم پر ڈالے جانے کی ضرورت ہے۔ صرف موجودہ درآمدات کی بنیاد پر ڈالر کی قیمت 174روپے تک نہیں پہنچ سکتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ ڈالر کی قیمت بڑھانے کا معاہدہ کر چکی ہے۔ اس دعوے کو زیادہ تقویت اس وقت ملتی ہے جب حکومت ڈالر کو نیچے لانے کے لیے اقدامات کرنے کی بجائے قیمت کے بڑھنے کے حق میں دلائل دینا شروع کر دے۔ گورنر سٹیٹ بینک رضا باقر صاحب کا اس حوالے سے حالیہ بیان سرخیوں میں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کا اوور سیز پاکستانیوں کو بہت فائدہ ہو رہا ہے۔ جس پر شدید عوامی ردعمل دیکھنے میں آیا اور گورنر سٹیٹ بینک کے استعفیٰ کا مطالبہ بھی کیا جانے لگا۔ پاکستان میں حکومتی سطح پر غلطی تسلیم کرنے‘ اس پر شرمندہ ہونے اور معافی مانگنے کا رواج نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج پاکستانی عوام اور کاروباری حضرات اضطراب کا شکار ہیں اور حکومت سے کسی مثبت تبدیلی کی امید بھی نہیں کی جارہی۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گورنر سٹیٹ بینک کی توجہ بیان بازی کی طرف زیادہ ہے۔ کارکردگی کی صورتحال یہ ہے کہ ایک ہفتے میں سٹیٹ بینک کے ذخائر ایک ارب 64 کروڑ ڈالرز سے کم ہو گئے ہیں۔ سٹیٹ بینک ترجمان کے مطابق ایک ارب ڈالر مالیت کے پاکستان انٹرنیشنل سکوک کی ادائیگی کی گئی ہے جس سے ڈالر ذخائر تقریباً انیس ارب ڈالرز سے کم ہو کر تقریباً ساڑھے سترہ ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ جس سے روپے کی قدر مزید کم ہونے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب سٹیٹ بینک کو علم تھا کہ ایک ارب ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے تو وقت پر اتنی مالیت کے ڈالرز کو ذخائر بیلنس رکھنے کے لیے منیج کیوں نہیں کیا گیا۔ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جلد ہی اس کمی کو پورا کر لیا جائے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے ذریعے حکومت ڈالر مافیا کو فائدہ پہنچانا چاہتی ہو؟ یاد رہے کہ ماضی میں اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ حکومت نے تین ارب 50 کروڑ ڈالرز کے بانڈز جاری کرنے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔اس عمل کو جلد از جلد مکمل کیے جانے کی ضرورت ہے تا کہ روپے کی قیمت مزید گرنے سے بچائی جا سکے۔
وزرا کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت کا تعین مارکیٹ خود کر رہی ہے لیکن میری رائے اس پر مختلف ہے۔ حکومت نے کبھی بھی ڈالر کو آزاد نہیں چھوڑا۔ جب ڈالر 169 روپے سے 153 تک واپس آیا تھا اس وقت بھی یہی دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ سٹیٹ بینک مداخلت نہیں کرتا۔ بعدازاں حکومت نے خود اعتراف کیا کہ مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر یہ کامیابی حاصل کی گئی۔ اس کے علاوہ تقریبا ًپچھلے چار مہینوں میں سٹیٹ بینک نے تقریباً 1 ارب 20 کروڑ ڈالرز مارکیٹ میں ڈالے ہیں۔ سرکار سے گزارش ہے کہ حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں تا کہ عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہو سکے اور مارکیٹ میں ڈالر کے حوالے سے بے یقینی کی صورتحال ختم ہو سکے۔ اس حوالے سے سابق حکومتی ترجمان برائے معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم سے کا ماننا ہے کہ ڈالر کی غیر یقینی صورتحال مارکیٹ کو مزید خراب کر رہی ہے۔ ایکسپورٹر بیرون ملک سے ڈالر نہیں منگوا رہا۔ وہ اس انتظار میں ہے کہ ڈالر کی قیمت جب بڑھنا رک جائے تب ڈالر منگوائے جائیں تا کہ زیادہ منافع کمایا جا سکے۔ دوسری طرف امپورٹر مارکیٹ سے زیادہ ڈالرز خرید کر بیرون ملک ادائیگی کرنے کو ترجیح دے رہا ہے تاکہ مستقبل میں ڈالر بڑھنے کا کم سے کم نقصان ہو۔اس وجہ سے ڈالر کی رسد میں کمی اور طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک مصنوعی خلا نہ صرف پیدا ہو رہا ہے بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جسے روکا جانا ناگزیر ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف سے ڈالر کی قیمت بڑھانے کے حوالے سے کیے گئے معاہدے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے مصر سے ایک مرتبہ معاہدہ کیا تھا کہ ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرنے کے لیے وہ اپنے مرکزی بینک سے ڈالرز مارکیٹ میں ڈال سکتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط رکھی گئی تھی کہ تین ماہ بعد ڈالرز واپس جمع کروانے ہوں گے۔ ممکن ہے کہ آئی ایم ایف نے اس طرح کا کوئی معاہدہ حکومت پاکستان کے ساتھ بھی کر رکھا ہو‘ لیکن اس حوالے سے کچھ بھی یقین سے کہنا ممکن نہیں ۔
حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ کیا ڈیل کر رہی ہے ‘اس حوالے سے مکمل اطلاعات میڈیا تک نہیں پہنچ رہیں لیکن وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات میں نئے زرعی ٹیکسز لگانے پر آمادگی کا اظہار کر چکی ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے۔ ملکی آمدن کا تقریباً 70فیصد زراعت سے وابستہ ہے۔ سب سے بڑی برآمدات ٹیکسٹائل ہے جو براہ راست کپاس کے ساتھ منسلک ہے۔ایک طرف ٹیکسٹائل کو سبسڈی دی جا رہی ہے اور دوسری طرف نیا بوجھ ڈالا جا رہا ہے۔ شاید حکومت کنفیوز ہے اور کارآمد حکمت عملی بنانے سے قاصر ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی پھل اور سبزیاں کم قیمت ہونے کے باعث آسانی سے بیرون ملک بیچ دی جاتی ہیں۔نئے معاہدے سے برآمدات کے متاثر ہونے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ میں نے پچھلے کالموں میں ذکر کیا تھا کہ حکومت کسان کے لیے زندگی مزید تنگ کرنے جا رہی ہے جس سے نہ صرف کسان پریشان ہو گا بلکہ اس کا اثر عام پاکستانی پر بھی پڑے گا۔ اب آئی ایم ایف کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی تیاری ہے۔ جس سے کھانے پینے کی اشیا مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ ممکن ہے آنے والے دنوں میں پاکستان مہنگائی کے حوالے سے برازیل اور ترکی کو پیچھے چھوڑ کر چوتھے نمبر سے دوسرے نمبر پر آ جائے۔سرکار ابھی بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف اقدامات کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ دی اکانومسٹ کی رپورٹ کے بعد احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی بجائے دی اکانومسٹ سے ہی پوچھا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہ اعدادوشمار کس طرح جاری کیے‘ جبکہ ماضی میں یہ جریدہ حکومت کے حق میں اعدادوشمار جاری کرتا رہا تب اس کی کریڈیبلٹی پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔اسی طرح آئی ایم ایف پر تنقید کر کے توپوں کا رخ موڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سرکار کو دی اکانومسٹ اور آئی ایم ایف کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ ہماری کمزوریوں کی نشاندہی کر رہے ہیں اور آئی ایم ایف مسائل کا حل بھی تجویز کر رہا ہے۔ اب یہ حکمرانوں پر منحصر ہے کہ انہوں نے اس سے فائدہ اٹھانا ہے یا عوام کو مہنگائی کی چکی میں پسنے کے لیے چھوڑ دینا ہے۔