تحریر : عندلیب عباس تاریخ اشاعت     24-10-2021

وبا جو ہنوز لاعلاج ہے

''منجمد‘ مفلوج‘ خراب‘ دھندلا‘ ساکت‘‘ نہیں ہم موسم یا کار کے انجن کی بات نہیں کررہے یہ جسم اور ذہن کی فعالیت کا ذکر ہے۔ اگرچہ کورونا ویکسین نے زندگی کو لاحق خطرہ کم کردیا لیکن کہاں ہے وہ ویکسین جو اس سے بھی خطرناک وباکا علاج کرے؟ یہ وبا ذہنی مرض ہے ۔ اگر انسانی ذہن ڈیڑھ سال تک مسلسل خوف‘ غیر یقینی پن‘ تکلیف‘ اذیت‘ دبائو‘ گھبراہٹ‘ غم‘ تشویش‘ دکھ ‘ قنو طیت کی گرفت میں رہے تو تصور کریں کہ یہ کس قدر گھائل ‘ متاثر اور بیمار ہوچکا ہوگا۔ لیکن متاثرہ ذہن کا علاج کرنے کیلئے وہ ہنگامی کوششیں کیوں دکھائی نہیں دے رہیں جو کورونا سے نمٹنے کیلئے دکھائی گئیں ؟اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہنی مریض آپ کو کھانستا دکھائی نہیں دیتا‘اس کی سونگھنے اور چکھنے کی حس ختم نہیں ہوجاتی‘اس کے جسم کا درجہ حرارت بڑھنا شروع نہیں ہو جاتا۔ خاموش اور غیر مرئی نفسیاتی عارضہ ذہن پر حملہ کرتا اور انسانوں کی زندگی تلف کردیتا ہے ۔ عین ممکن ہے کہ حیاتیاتی طور پر مریض زندہ ہی مانا جائے لیکن وہ چلتی پھرتی لاش ہوگا۔ عالمی وباسے پہلے کم و بیش ایک بلین افراد مختلف قسم کے ذہنی امراض میں مبتلا تھے ۔ 2018ء کے عالمی اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے 284ملین افراد گھبراہٹ ‘ 264ملین افراد ذہنی دبائو اور 71ملین منشیات کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نفسیاتی اختلال ‘ 46ملین دیوانگی‘ 20ملین شیزوفرینیا اور 16ملین کھانے پینے کی بے اعتدالی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں اعدادوشمار‘ جن کا بہت کم حوالہ دیا جاتا ہے ‘ کے مطابق 50ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں گھبراہٹ اور پریشانی سر فہرست ہیں ۔ذہنی امراض سے جیسی ناگہانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے اس کی پہلے کبھی مثال نہیں ملتی :
1۔ چونکا دینے والا برق رفتار پھیلائو: کورونا وائرس نے ذہنی امراض کے پھیلائو میں چونکا دینے والا اضافہ کیا ۔ ایک گلوبل ریسرچ فرم ‘ آئی پی ایس او ایس نے پاکستان مینٹل ہیلتھ کولیشن کے ساتھ مل کر حالیہ دنوں ایک تحقیقاتی جائزہ لیا ۔ اس جائزے سے پتہ چلا کہ 60فیصد پاکستانی درمیانی درجے سے لے کر بلند درجے کے ذہنی مسائل کا شکار ہیں ۔ دس میں سے آٹھ افراد میں کورونا وبا کے دوران ذہنی امراض کی زیادہ علامات دکھائی دیں۔ اب تک کورونا نے 220ملین پاکستانیوں میں سے کم و بیش 1.2ملین کو جسمانی طور پر متاثر کیا ہے۔ یہ تعداد ملک کی کل آبادی کا پانچ فیصد ہے ‘ لیکن اس کی وجہ سے ذہنی طور پر بیمارہونے والوں کی تعداد 60فیصد ہے ۔ گویا 220میں سے 120ملین افراد متاثر ہوئے ہیں۔
2۔ ذہنی مرض دیگر بیماریوں کو بھی بڑھا دیتا ہے: ذہن جسم کو کنٹرول کرتا ہے۔ صحت کی بحالی کیلئے قوتِ ارادی سب سے مؤثر دوا ہے اور قوت ِارادی کیلئے قوی اور صحت مند دماغ ضروری ہے ۔ پریشانی اور دیگر نفسیاتی مسائل ذہن کی استعداد کو کمزور کردیتے ہیں ۔ قوتِ ارادی کمزور پڑنے سے طبی علاج کی اثرپذیری کم اور بیماری بڑھ جاتی ہے ۔ دل کا دورہ‘ شوگر اور حتیٰ کہ کینسر کا علاج بھی غیر موثر ثابت ہوتا ہے اگر ذہن ان سے لڑنے کیلئے تیار نہ ہو۔
3۔ ذہنی بیماری پیدا واری صلاحیت تباہ کردیتی ہے : ذہنی طور پر ایک منتشر شخص فکری اعتبار سے غیر فعال ہوتا ہے ۔ وہ قوتِ ارادی اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔ ہم نے بہت سے افراد کو دیکھا ہے جو جسمانی طور پر حاضر لیکن ذہنی طور پر غائب ہوتے ہیں ۔ اُن کا جسم تو وہیں ہوتا ہے لیکن سوچ کہیں اور بھٹک رہی ہوتی ہے ۔ ایک پریشان ذہن توجہ‘ فہم ‘ تفہیم اور عمل سے عاری ہوتا ہے ۔ ان کی کارکردگی بہت پست ہوتی ہے ۔ ایسے لوگ عام نوعیت کے سادہ سے کام بھی نہیں کرپاتے ۔ وہ اپنے باس اور ساتھیوں کی ہدایات پر عمل کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ دی گئی ڈیڈلائن پر کام نہیں کرسکتے ۔ اُن سے مسلسل غلطیوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور اُن کا کیا گیا کام ناقص ہوتا ہے ۔ ایک مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ ذہنی طور منتشر شخص 37فیصد غائب دماغ ہوتا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ اگروہ گھبراہٹ اور پریشانی کا شکار بھی ہو تو اس کی غیر فعالیت کا تناسب 50 فیصد سے بھی بڑھ جائے گا۔
4۔ ذہنی عارضہ خاندان اور تعلقات کو متاثر کرتا ہے : شاید ذہنی مسائل کا سب سے بڑا اثر ذاتی تعلقات پر پڑتا ہے ۔ اس کی ز د میں سب سے پہلے ازدواجی زندگی آتی ہے ۔ اگر بیوی یا شوہر میں کسی کو ذہنی عارضہ لاحق ہو تو وہ بمشکل ہی اس کا اعتراف کرتے ہیں۔یہ صورتحال جذباتی تنائو اور بعض اوقات گھریلو تشدد کا بھی باعث بنتی ہے ۔ اس کی وجہ سے پورا خاندان‘ خاص طور پر بچے متاثر ہوتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ وہ ناقص تعلیمی کارکردگی دکھائیں یا احساسِ کمتری میں مبتلا ہوجائیں ۔ اس سے اُن کی صلاحیتیں تباہ ہوجائیں گی اور اُن کا مستقبل متاثر ہوگا۔ وہ سکون کی تلاش میں اوائلِ نوجوانی میں ہی منشیات کا شکار ہوسکتے ہیں۔ تشدد‘ مارپیٹ‘ توہین آمیز سلوک‘ طلاق اور خود کشی ذہنی امراض کا انتہائی نتیجہ ہیں ۔
5۔ ذہنی صحت کا سماجی توازن پر اثر: جو معاشرہ ذہنی مسائل کا اعتراف توہین سمجھے ‘ وہ لازمی طور پر انہیں مخفی رکھنے اور نظر اندازکرنے کی روش اپناتا ہے ۔ پاکستان میں امیر لوگ اسے نظر انداز کردیتے ہیں جبکہ غریب انہیں جن بھوت اور جادو کا اثر سمجھتے ہیں ۔ ذرا تصور کریں کہ اگر 220 ملین میں سے 120 ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہوں تو اس کا معاشرے پر کیسا اثر پڑے گا۔ حالیہ نور مقدم کیس ایک مثال ہے کہ کس طرح دولت مندافراد ایسے مسائل کو چھپاتے ہیں جو مذکورہ کیس میں خوفناک جرم اور موت کا باعث بن گئے ۔ نچلے طبقے میں جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں جس کی ایک مثال مینار پاکستان کا واقعہ ہے ۔ا س کے تباہ کن اثرات تمام معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں ۔
جس دوران دنیا ذہنی مسائل کو قابل ِتوجہ سمجھتی ہے ‘ پاکستان کو بھی انہیں ایک حقیقت سمجھ کر تسلیم کرنا چاہیے ۔ اگر 220 میں سے 120 ملین افراد ذہنی مسائل کا شکار ہوں تو پاکستان ترقی کے طے کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکتاکیونکہ متاثرہ افراد اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام نہیں کرپاتے ۔ اس وباکے مجموعی اثرات سے نمٹنے کیلئے سہ جہتی طرز عمل درکار ہے:
1۔ عمل بالائی سطح سے شروع ہو: اس ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے بالائی سطح سے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ کسی حکومت نے اب تک اس بحران کی سنگینی پر بات تک نہیں کی ۔وزارتِ صحت نے آج تک اسے اپنی ترجیحات کی فہرست میں شامل تک نہیں کیا ۔ خوش قسمتی سے موجودہ حکومت نے اسے کچھ اہمیت دی ہے ۔ صدر سے لے کر وزیراعظم اور وزیر صحت ‘ سب اس پر اقدامات اٹھانے کیلئے زور دے رہے ہیں ۔ ذہنی صحت کو وزارتِ صحت کی '' صحت کی تعریف ‘‘میں شامل کرلیا گیا۔
2۔ ذہنی امراض سماجی توہین نہیں: نفسیاتی مسائل کو شرمناک چیز سمجھا جاتا ہے ۔ یہ غیر فطری ہے ۔ اس طرز فکر کے نتیجے میں ذہنی مسائل کے اعتراف سے گریز کیا اور انہیں چھپایا جاتا ہے ۔ ان کا شکار ہونے والا شخص ڈرتاہے کہ اُس پر تشدد ہوگا۔ خاندان پریشان اور شرمندہ ہوتا ہے ۔ معاشرہ ایسے افراد سے نفرت کرتا ہے ۔ ان مسائل کا حل یہ ہے کہ ان پر کھلے ذہن سے ‘ منطق اور ا ستدلال سے بات کی جائے ۔ چونکہ ہر مرض کا تعلق ذہنی صحت سے ہوتا ہے ‘ اس لیے ہر کلینک میں اس پر مواد ہونا چاہیے ۔
3۔ آگاہی اور روک تھام: ہمیں ذہنی امراض کے علاج کیلئے انداز ِفکر تبدیل کرنا ہوگا ۔ لوگوں کو سکھانا چاہیے کہ ذہنی صحت کو برقرار رکھنا زندگی کا لازمی حصہ ہے ۔ سوشل میڈیا اور ہیلپ لائنز عوامی آگاہی کے شاندار پلیٹ فورم ہیں۔ اہم شخصیات سے رابطہ کرنا ‘ ان سے بات کرنا اور انہیں وائرل کرنا بڑی عمر کے لوگوں کو بہت اچھا لگے گا۔ کارٹون اینی میشن بچوں کوآگاہی فراہم کریں گے ۔
دس اکتوبر کو گرین ربن دماغی صحت کے عالمی دن کی علامت کے طور پر منایا گیا۔ سال کے باقی تمام دن ہر فورم پر کام کرنے اور اس کیلئے وقت نکالنے کی ضرورت ہے ۔ وقت آگیا ہے جب ذہنی صحت کی فعالیت کو متعارف کرایا جائے۔ اس عارضے کی ابھی تک کوئی ویکسین نہیں ‘ دماغ کا کوئی ٹرانسپلانٹ نہیں ہوتا‘ سوچ کے عمل کوبیرونی علاج سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس کیلئے ایک ہمہ گیرکوشش کی ضرورت ہے جس کیلئے ہر قسم کی شرم‘ ہچکچاہٹ‘ رکاوٹ ‘ عار اور توہین کو جھٹک دیا جائے ۔ آئیے ان ذہنی رکاوٹوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے ان مسائل پر بات کریں ۔ انسانوں کی حقیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کیلئے ذہنی سکون اور دماغی صحت ضروری ہے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved