تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     25-10-2021

آپریشن ماکنگ برڈ

ٹڈّی دَل اور Covid-19 کی طرح پاکستان میں یہ وبا ذرا لیٹ پہنچی۔ اس لئے اپنی بات بعد میں کرلیں گے‘ آئیے دنیا کی سیر کریں‘ رپورٹ شدہ کیسز پر نظر ڈالتے ہوئے۔ اس راستے میں چند بڑے سٹیشن یوں آتے ہیں:
پہلا سٹیشن: یہ مصر کا دارالحکومت قاہرہ ہے جہاں عدالت میں رینلڈز کو سزا سنائی جا رہی ہے۔ ملزم ملک سے بھاگا ہوا مفرور ہے اور اُس کا مقدمہ Trial in Absentia کے زمرے میں آتا ہے۔ رینلڈز انگریزی زبان کے مشہور میگزین قاہرہ ٹوڈے میں رپورٹر کی حیثیت سے ملازمت کرتا تھا۔ مصر کی انٹیلی جنس ایجنسیز کو کچھ مشکوک کارروائیوں میں اُس کی شرکت یا شراکت کا شک گزرا تو اُسے واچ لسٹ پر ڈالا گیا۔ رینلڈز سوئز کنال سے کشتی کے ذریعے بھاگا‘ سوڈان پہنچا اور پھر وہاں سے یو ایس اے کو نکل گیا۔ رینلڈز کی غیرحاضری میں اُسے مصری حکومت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی۔
دوسرا سٹیشن: بالٹی مور کی ایک خوش خصال‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ مہم جو خاتون کا نام مارگریٹ ہیریسن تھا۔ 1920ء میں وہ بالٹی مور کے اخبار ''دی سن‘‘ کی رپورٹر کی حیثیت سے اُس وقت کے سوویت یونین گئیں۔ سوویت انٹیلی جنس اداروں کو خبر ملی کہ جرنلزم مارگریٹ ہیریسن کا صرف کور ہے‘ درحقیقت اس کور میں وہ امریکی ملٹری انٹیلی جنس کیلئے سوویت یونین میں جاسوسی کر رہی ہے۔ ایسے ہی ایک آپریشن کے دوران ماسکو میں پرائم سپائی ماسٹر نے اُسے رنگے ہاتھوں موقع پر ہی گرفتار کر لیا۔
تیسرا سٹیشن: فرینکفرٹ سے ایک بہت بڑا اخبار ڈیلی Allgemeine Zeitung کے نام سے نکلتا تھا۔ اس اخبار کے سابق ایڈیٹر مسٹر ایلفو کوٹی نے تہلکہ خیز انکشافات کئے۔ ایلفو کوٹی کہتے ہیں: جب مجھے بھرتی کیا گیا تب میں جرنلزم کی فیلڈ میں نیا نیا تھا۔ مجھے بتایا گیا کہ میں نے سٹوریز لکھنی ہیں۔ یہ کہانیاں لکھنے کیلئے بتایا گیا‘ آپ کو مواد تیار ملے گا‘ آپ نے اُس مواد سے کہانی تیار کرنی ہے‘ لیکن اُس کہانی کے واقعات کی تصدیق کے جھنجٹ میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اُن نے مزید بتایا کہ امریکہ کی انٹیلی جنس ایجنسی اور جرمن فیڈرل انٹیلی جنس ایجنسی کس طرح سے جرمن میڈیا کو سٹوری بنا کر اُس کے ذریعے پروپیگنڈا کرنے اور اپنے مقصد کیلئے‘ اپنی مرضی کی رائے عامہ کی تشکیل کیلئے استعمال کرتی ہیں۔ مسٹر ایلفوکوٹی نے ایک ایسی ہی جعلی کہانی کی تفصیل کا ذکر کیا کہ کس طرح لیبیا کے سابق راہ نما کرنل معمر القذافی کے متعلق فرضی طور پر تیار کی گئی۔ اس میں لکھا گیا کہ کرنل قذافی صاحب نے 1993ء میں بعض یورپی کمپنیوں کی مدد اور شراکت سے ایک زہریلی گیس بنانے والی فیکٹری لگائی۔ اسی سٹوری کے تسلسل میں لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بج گئی مگر نہ زہریلی گیس والی فیکٹری برآمد ہوئی اور نہ اُن یورپی کمپنیوں کو سزا ملی جن کا حوالہ اس سٹوری میں آتا تھا۔
چوتھا سٹیشن: یہ 1996ء ہے‘ یوایس اے سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس کا اجلاس چل رہا ہے۔ سینیٹ سلیکٹ کمیٹی کے اس اجلاس کی صدارت سینیٹر فرینک چرچ کررہے تھے۔ اس کمیٹی نے جب امریکی غیرملکی اور فوجی آپریشنز کی تحقیقات کی تو یہ حیران کن بات سامنے آئی کہ 50 سے زائد امریکی صحافیوں نے سرد جنگ کے دور میں سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ایجنٹ کے طور پر ان آپریشنز کیلئے کا م کیا تھا۔ جب ان تحقیقات پر سوال اُٹھنے لگے تو کمیٹی کے سربراہ نے یہ تبصرہ کیا ''میں کہوں گا‘ ہاں یہ ٹھیک ہے۔ ملکی زندگیوں اور قومی مفادات کے تحفظ کیلئے اس قسم کا کام کیا جانا چاہئے۔‘‘
اوپر جن واقعات کا ذکر آیا ہے‘ اُن کا کوئی براہ راست تعلق پاکستان سے نہیں لیکن پاکستان کے حوالے سے اُس کے پیدائشی دشمن پڑوسی کی ریاستی پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بھارت کی ڈکلیئرڈ پالیسی پاکستان کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں عدم استحکام پیدا کیا جائے۔ اس کھلی جارحانہ پالیسی کا ثبوت پاکستان کے پاس سرونگ انڈین نیول کمانڈر کلبھوشن سدھیر یادیو کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ ریاست پاکستان کے حوالے سے جو کارروائیاں دشمن دار پڑوسی کرتا ہے‘ ان کا حساب کتاب چکانے کیلئے فعال اور انتہائی کارآمد ریاستی ادارے موجود ہیں۔
یہ بھی طے شدہ ہے کہ دنیا کے تمام کامیاب ممالک میں قومی معاملات پہ ایک قومی بیانیہ (narrative) موجود ہوتا ہے۔ قومی بیانیہ قوم میں اپنے ملک‘ قوم اور سلطنت کے مستقبل کے بارے میں امید جگانے اور بڑھانے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ کئی حوالوں سے پاکستان دنیا کے کئی ملکوں سے آگے ہے‘ اچھا ہے‘ پُرسکون ہے اور سستا بھی۔ کئی دوسرے حوالوں سے پاکستان دنیا کے کئی ملکوں سے پیچھے ہے۔ پیچھے رہ جانے کی وجوہ پر نہ جائیں تو بھی ایک حقیقت سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کہ اس کے ذمہ دار وہی لوگ قرار پائیں گے جن کے پاس 74 سال سے پاکستان اور پاکستان کی مینجمنٹ پر قبضہ موجود رہا ہے۔
آزادانہ نہ سہی‘ اگر ہم کسی حد تک منصفانہ یا پھر صرف اور صرف حقیقت پسندانہ تجزیہ کریں تو عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کے حصے میں 74 میں سے موجودہ تین سال ہی آتے ہیں۔ بعض سٹوری رائٹرز خواتین و حضرات ان تین سالوں کو قیامت خیز بنا کر پیش کرتے چلے آئے ہیں۔ اُن کی ہمدردیاں‘ اُن کے تعلقات‘ اگر ہم اس پر نہ جائیں تو بھی چند بڑی حقیقتوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی حقیقت یہ کہ پچھلے چھ عشروں سے پاکستان کی معیشت قرض کی مے کے علاوہ کوئی اور مستقل بندوبست نہیں رکھتی تھی۔ قرض کے بارے میں تو ہم سب اچھی طرح سے جانتے ہیں‘ وہی جو شاعر نے بہت پہلے بتا رکھا ہے؎
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
یہ رنگِ فاقہ مستی ہمیں پچھلے 74 سال سے رنگتا چلا آیا ہے‘ جس کے دو رنگ کُھل کر سامنے آگئے۔ ایک رنگ وہ ہے جہاں خاندانی اقتدار‘ اس کے نتیجے میں فلورملز‘ شوگرملز‘ بڑے کمرشل لینڈ فارمز‘ پولٹری سینٹرز‘ ملک پلانٹس‘ ایگ انڈسٹری‘ سب کچھ سیاسی خانوادوں کے پاس چلا گیا ہے۔ یہی خاندان کبھی 22 ہوا کرتے تھے‘ جن میں سے اکثر غیر سیاسی تھے۔ اب یہ 12 رہ گئے ہیں۔ سارے کے سارے 100 فیصد سیاسی۔ مرغی‘ انڈے‘ آلو‘ ٹماٹر‘ آٹا‘ چینی‘ سب کا ریٹ یہ خود نکالتے ہیں‘ منافع بھی یہی کماتے ہیں اور پھر غریبوں کے حق میں مہنگائی کے نوحے پڑھنے کیلئے سپانسرڈ مظاہرے اور تقریریں بھی یہی کرواتے ہیں۔ کسی زمانے میں ایک شہر کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں رات کو مارنے والے صبح جنازے کی سب سے پہلی صف میں کھڑے ہوکر مقتول کے وارثوں کے غم میں سب سے پہلے شریک ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی میت کے اوپر کئی تنظیموں نے اپنے اپنے جھنڈے ڈالے اور کہا کہ یہ ہمارا شہید ہے۔ ایسا ہوتا دیکھ کر ہی شاعر پکار اُٹھا تھا؎
خوں بہا مانگ رہا ہوں تو یہ حق ہے میرا
شہر کے ہر نئے مقتول کا میں بھائی ہوں
1945ء کے امریکی میڈیا میں کمیونزم کی مخالفت کیلئے رپورٹرز کو باقاعدہ بھرتی کروایا گیا۔ یہ ''آپریشن ماکنگ برڈ‘‘ کہلایا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved