شدید گرمی میں گرمی کا رونا روئیے تو کیسا لگتا ہے؟ گرمی تو اُتنی ہی رہتی ہے، مگر اُس کی feel بڑھ جاتی ہے۔ انگریزی کا یہ لفظ ہم نے دانستہ استعمال کیا ہے کیونکہ لوگ کسی بھی بات کو مروج زبان میں زیادہ آسانی سے سمجھتے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کے بارے میں زیادہ بولنے سے وہ مسئلہ زیادہ شدت سے محسوس ہوتا ہے اور اِس سے سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اب مہنگائی سمیت تمام بنیادی مسائل ہی کو لیجیے۔ ہماری زندگی مسائل کا انبار ہے۔ کون سی پریشانی ہے جس نے ہمیں ڈھونڈ نہیں لیا اور ہمارا جینا دوبھر کرنے پر نہیں تلی ہوئی۔ صحت و تعلیم کی ابتر کیفیت، اشیائے خور و نوش سمیت تمام بنیادی اشیائے ضرورت کے روز افزوں دام، افلاس، بے روزگاری، اخلاقی گراوٹ، ثقافتی تنزل، معاشرتی انحطاط، سیاسی خرابیاں، معاشی الجھنیں ... ؎
کب تک رگوں میں اپنی اذیت سموئیے
کس کس کو یاد کیجیے، کس کس کو روئیے
ایک زمانہ تھا کہ شادی کی تقریبات مل بیٹھنے اور غم غلط کرنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ غم غلط کرنے کا کچھ اور مطلب نہ نکالیے۔ ہم ہنسنے ہنسانے کی بات کر رہے ہیں! خاندان کے لوگ شادی کی تقریبات میں مل بیٹھتے تو دنیا بھر کی باتیں ہوتی تھیں، حالات کے بارے میں لطیف سی رائے زنی کے ذریعے دل کا بوجھ اتارنے کی سبیل نکالی جاتی تھی۔ ہمارے ہاں آج بھی دیہی معاشرے میں شادی کی تقریبات پورے خاندان کے لیے مل بیٹھنے کا ذریعہ ہیں۔ تھوڑی بہت الجھنیں بھی ہوتی ہیں مگر مجموعی طور پر خوشی کا ماحول ہوتا ہے جس میں سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے ہوتے ہیں۔ حالات نے کم و بیش ہر انسان کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے۔ ایسے میں اگر خاندان کے لوگوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور کچھ بتیانے کا موقع ملے تو حتمی طور پر مقصود صرف یہ ہونا چاہیے کہ سب کے دلوں کی کلیاں کھلتی جائیں۔ فضول گِلے شکوے کرنے سے کہیں بہتر ہے حالات کے بارے میں ہلکے پھلکے انداز سے گفتگو کی جائے اور ذہن پر کوئی اضافی بوجھ لے کر گھر جانے کے بجائے صرف انبساط و مسرت کی کیفیت سے سرشار ہوکر رخصت ہوا جائے۔ ہم نے اپنے عہدِ شباب میں یعنی 1980ء سے 1990ء کی درمیانی مدت میں یہ بھی دیکھا کہ جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُس گھر میں کم و بیش ایک ماہ تک میلے کا سماں رہتا تھا۔ ایک ہفتہ تو کپڑوں کی خریداری میں لگتا تھا۔ پھر ملبوسات کی تیاری کا مرحلہ آتا تھا۔ اِس دوران دوپٹوں پر گوٹا کناری لگانے کی باری آتی تھی۔ اس کام میں بھی ایک ہفتہ کھپ جاتا تھا۔ مایوں کی تقریب کا وقت آنے تک بیس بائیس دن کاہلا گلا ہوچکا ہوتا تھا۔ تب تک پکوان سنٹر متعارف نہیں ہوئے تھے۔ شادی کی ہر تقریب کا کھانا گلی محلوں ہی میں پکایا جاتا تھا۔ چاول کی بوریاں منگوائی جاتی تھیں اور گلی کی لڑکیاں روزانہ جمع ہوکر چاول چُنتی تھیں۔ محض مل بیٹھنے اور کچھ دیر خوشی خوشی بَتیانے کے لیے چُنے ہوئے چاول کئی بار چُننے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی! سوال چاول چُننے یا دوپٹوں میں گوٹا کناری لگانے کا نہیں تھا بلکہ مل بیٹھ کر گپ شپ لگانے اور حالات کی الجھنوں کے پیدا کردہ تناؤ کا گراف نیچے لانے کا تھا۔ شادی کی تقریبات اِس مقصد کے حصول میں خاصا بنیادی کردار ادا کرتی تھیں۔
انہی زمانوں میں ''فنکشن‘‘ کا بھی رواج پڑا۔ مایوں یا مہندی کی تقریب والے دن رات گئے گانا بجانا بھی ہوتا تھا۔ سیدھا سا معاملہ تھا۔ بڑے سپیکرز کے ساتھ میوزک سسٹم آن کیجیے، آڈیو کیسٹ لگائیے اور شروع ہو جائیے۔ تسلیم شدہ فنکار بلانے کا یارا کہاں تھا؟ اِس صورت میں تو خرچہ کئی گنا ہو جاتا تھا۔ گلی یا علاقے کے لڑکے ہی گانوں پر ناچ کر داد سمیٹا کرتے تھے۔ نئی نسل کی صلاحیتیں بھی کُھل کر سامنے آجاتی تھیں اور دلوں کے بیچ فاصلے بھی گھٹ جاتے تھے۔ جو لوگ کسی کی خوشی میں خوش ہوں اور گائیں یا ناچیں اُنہیں کون بھول سکتا ہے؟ خوشی اِسی چیز کا تو نام ہے کہ کسی کی خوشی میں خوش ہوکر ماحول کو زیادہ سے زیادہ تابناک بنائیں۔ اب عمومی معاشرتی روش یہ ہے کہ خوشی کی تقریب میں مل بیٹھنے والے بھی حالات ہی کا رونا روتے رہتے ہیں۔ کوئی مہنگائی کی دُہائی دے رہا ہوتا ہے اور کوئی اولاد کی نافرمانی کی۔ کیا خوشی کے موقع پر نالہ و شیون منطقی ہیں؟ کیا لازم ہے کہ ہم ہر موقع پر صرف گِلے شکوے کریں، آہ و فریاد ہی کا ماحول ساتھ لیے پھریں؟
ابھی کل کی بات ہے۔ شادی کی ایک منفرد تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ مایوں وغیرہ میں جانے کی اب عمر نہیں رہی مگر خاندان کے ایک بچے کا معاملہ تھا تو جانا پڑا۔ تقریب کے بعد گانے بجانے کا مرحلہ تھا، فرمائش ہوئی کہ ٹھہر جائیے تو ہم نے اہلِ خانہ کے ساتھ مزید دو تین گھنٹے وہیں گزارے۔ ساز و آواز کی محفل رات تین بجے ختم ہوئی۔ قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ لڑکی کے والد خود ایک زمانے سے گانے کے شوقین اور عادی رہے ہیں اِس لیے محفل کی نظامت بھی اُنہوں نے کی اور خود گاکر محفل کا آغاز کیا! راشد علی صاحب نے اپنا گانا ختم کرکے تالیوں کی گونج میں وقاص کو گانے کی دعوت دی جو خیر سے اُن کے داماد ہیں! یہ تو گویا گھر ہی کا معاملہ ہوگیا! خیر وقاص نے بھی اچھا گایا اور داد سمیٹی۔ ہمارا تجسّس بڑھا کہ اب گھر کے خزانے سے آواز کا کون سا ہیرا برآمد ہوتا ہے۔ ہمارے تو وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اب ہمارے خاندان کی باری تھی! شادی ہمارے فرسٹ کزن اختر صاحب کے بیٹے احد کی ہو رہی ہے۔ راشد صاحب نے میوزیکل سسٹم کی ٹیوننگ کرتے ہوئے اپنے تازہ داماد احد ہی کو مدعو کرلیا۔ احد نے ''تیرے نام‘‘ گایا اور خاصی داد اپنے نام کی۔ یہ ہنستی گاتی محفل جب اپنے اختتامی مرحلے میں داخل ہوئی تو متعدد فلمی گیتوں کے مکھڑوں پر مشتمل آئٹم گانے کے لیے راشد علی صاحب نے اپنے بیٹے دانش اور بہو کو سٹیج پر مدعو کیا۔ یہ گویانہلے پہ دہلا تھا۔ ہم نے تو سوچا ہی نہ تھا کہ ناظمِ محفل کی بہو بھی محفل کو سُروں سے شرابور کرے گی۔ اِس جوڑے نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ اس جملے کو منفی نہ لیا جائے‘ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اِن کی مشترکہ گائیکی نے محفل کی رونق میں رہ جانے والی تھوڑی بہت کمی پوری کردی۔ کسی نے ہم سے پوچھا: دُلہن نے کیوں پرفارم نہیں کیا؟ ہم نے عرض کیا کہ لڑکے کے لیے تو یہ حالت مسرت میں گانے کے آخری آخری لمحات تھے! دلہن کے گانے کا وقت ابھی نہیں آیا، جب وہ گائے گی تو سُننے والا صرف دُلہا ہوگا! اور ہاں! وہ ساز بھی تو اِس محفل میں نہ تھے جن پر دلہنیں پرفارم کیا کرتی ہیں۔ دُلہا تو جیسے تیسے گاکر دل بہلا لیتے ہیں‘ دلہنیں صرف بینڈ بجانے کی ماہر ہوتی ہیں! محفل گھر کی تھی مگر اِس کے حاضرین میں باہر والے بھی تھے۔ اپنی خوشی میں سب کو شریک کرنا اور سب کی خوشی میں خوش ہونا زندگی کے بنیادی مقاصد میں سے ہے۔ ایسے میں زندہ دلی ہی وہ وصف ہے جو انسان کو دوسروں سے جُدا ہی نہیں، بلند بھی کرتا ہے ؎
زندگی زندہ دِلی کا ہے نام
مردہ دل خاک جیا کرتے ہیں
ہم مسائل کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں‘ پریشانیاں ہیں کہ جان نہیں چھوڑتیں‘ دل و دماغ تناؤ کے شکنجے میں رہتے ہیں۔ ایسے میں ہر وہ انسان لائقِ تحسین ہے جو زندہ دلی کی علامت بن کر مسائل اور حوصلہ شکن حالات کے سامنے ڈٹا رہے۔ راشد صاحب سے ہم آخر میں خاص طور پر ملے اور زندگی سے بھرپور محفل سجانے پر اُنہیں مبارکباد دی اور شکریہ بھی ادا کیا ؎
ہونٹوں پہ کھلنے والے تبسم کا شکریہ
راشد علی کے حُسنِ ترنّم کا شکریہ