تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     26-10-2021

Absolutely Not

میرے دوست قاضی خالد احمد لعل شہباز قلندر کی دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اُن پاکستانیوں میں سے ہیں کہ جو دنیا کے کسی کونے میں بھی چلے جائیں شب و روز وطنِ عزیز کی خبر رکھتے ہیں
آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں
قاضی صاحب نے مجھے امریکہ سے سی این این کی رپورٹ کا ایک کلپ بھیجا ہے جس میں تین مختلف ذرائع سے بتایا گیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے امریکی کانگریس کو بتایا ہے کہ پاکستان اور امریکہ باقاعدہ طور پر ایک ایسا معاہدہ کرنے کے قریب ہیں جس پر دستخط ہونے کے بعد امریکہ ماضی کی طرح پاکستان کی فضائی حدود استعمال کر سکے گا۔ رپورٹ تو میں چند گھنٹے پہلے دیکھ چکا تھا؛ تاہم قاضی صاحب نے ایک نازک سا سوال داغ دیا ہے۔
اُن کا کہنا یہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایک امریکی صحافی نے وزیر اعظم عمران خان کا انٹرویو لیتے ہوئے اُن سے پوچھا تھا کہ کیا پاکستان امریکہ کو افغانستان میں فوجی آپریشن کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی ا جازت دے گا؟ اس سوال کا عمران خان نے دوٹوک جواب دیا تھا Absolutely Not۔ میرے دوست کا سوال یہ ہے کہ تازہ ترین امریکی رپورٹ کے مطابق عمران خان کی بات مانیں یا جوبائیڈن کی؟ میں اس اہم سوال کا جواب تو بعد میں دوں گا پہلے ''بالکل نہیں‘‘ کے پس منظر پر ایک نظر ڈال لیں۔ جناب عمران خان ماضی میں افغانستان پر براستہ پاکستان ہونے والے حملوں کے شدید ناقد رہے ہیں۔ اب بحیثیت وزیراعظم انہوں نے پالیسی بیان د یتے ہوئے کہا کہ پاکستان افغانستان کے خلاف اپنی فضائی حدود کو کبھی استعمال نہیں ہونے دے گا۔
جناب وزیراعظم کے اس بیان کی بہت دھوم مچی۔ خان صاحب کی کابینہ کے وزراء اور تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے Absolutely Not کو ٹاپ ٹرینڈ بنا دیا۔ وزراء کا کہنا تھا کہ جب کوئی جرأت مند حکمران برسراقتدار ہوتا ہے تو وہ سپر پاور کو علی الاعلان انکار کر دیتا ہے۔ اب سی این این کی رپورٹ کے مطابق جوبائیڈن نے امریکی کانگریس کو جو رپورٹ دی ہے اس کے مطابق امریکہ اور پاکستان ایک معاہدہ کرنے والے ہیں جس کے مطابق پاکستان امریکہ کو افغانستان میں فوجی آپریشن اور انٹیلی جنس کارروائی کے لیے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گا۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق اس کے بدلے میں پاکستان نے انسدادِ دہشت گردی کے لیے امداد کی فراہمی اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں امریکی تعاون طلب کیا ہے۔
اگرچہ امریکہ کو وسط ایشیائی ریاستوں کی طرف سے فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت مل سکتی ہے مگر امریکہ ان ریاستوں کے آپشن کو روسی اثرونفوذ کی بنا پر استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ اسی طرح مشرقِ وسطیٰ میں قطر وغیرہ کے امریکی اڈوں کے ذریعے افغانستان پر نظر رکھنا اور حسب ضرورت وہاں ڈرون حملے کرنا خاصا دشوار کام ہے۔ امریکہ کے نزدیک افغانستان میں ریموٹ کنٹرول کارروائی کے لیے پاکستان ہی بہترین آپشن ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے معاہدے کے لیے پہلے پاکستان نے دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ رہا قاضی صاحب کا سوال کہ عمران خان صاحب کی بات مانیں یا بائیڈن کی؟ یہ سوال نازک ضرور ہے مگر مشکل نہیں۔ قارئین ذرا سا غور کریں گے تو انہیں اس کا جواب مل جائے گا۔ البتہ پاکستانی تاریخ و سیاست کا ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں اتنا جانتا ہوں کہ پاکستانی سیاست دانوں کے منظرعام پر بیانات کچھ اور مگر پس پردہ کارروائیاں کچھ اور ہوتی ہیں۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے ایسے کسی معاہدے کی تصدیق سے انکار کیا ہے ؛تاہم مشاورت کے عمل کا اقرار کرلیا ہے۔
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
اس کنفیوژن کا سبب یہ ہے کہ ہمارے ہاں فردِ واحد یا کچھ مؤثر قوتیں فیصلہ کر لیتی ہیں اور بعد میں منتخب ایوانوں سے انگوٹھا لگوانے کی رسم پوری کی جاتی ہے۔ اگر پاکستان کے کچھ مفادات یا کچھ مجبوریاں ایسی ہیں کہ جن کی بنا پر امریکی مطالبات کو تسلیم کرنا ضروری ہے تو جناب وزیراعظم عوام اور ایوانوں کو اعتماد میں لے کر بتائیں کہ پاکستان کو کون سے تزویراتی‘ سیاسی اور معاشی مسائل درپیش ہیں جن کی بنا پر ہمیں امریکہ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا پڑے گا۔دوسری طرف پاکستان کو یہ دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کے ساتھ کسی خفیہ یا علانیہ معاہدے کی صورت میں طالبان کا کیا ردعمل ہوگا۔ اس وقت پاکستان طالبان حکومت کا سب سے بڑا معاون ہے۔ چند روز پہلے ہمارے وزیر خارجہ اور ڈی جی آئی ایس آئی افغانستان کے دورے پر گئے ہوئے تھے جہاں انہوں نے طالبان قیادت کو معاشی و سفارتی تعاون کی یقین دہانی کرائی تھی۔ کیا پاکستان بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہونے کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟
ایک سابق آرمی چیف اپنے وقت کا سب سے زیادہ باخبر شخص ہوتا ہے۔ اس وقت میرے سامنے جنرل مرزا اسلم بیگ کی سوانح حیات ''اقتدار کی مجبوریاں‘‘ کھلی پڑی ہے۔ جنرل صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر230 پر لکھتے ہیں ''امریکہ نے مشرف کے سامنے امریکہ کی حمایت کے لیے سات شرائط رکھیں اور اسے ڈرا دھمکا کر ساتوں شرائط منوا لیں۔ مشرف نے افغانستان کے خلاف جنگ میں بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا جبکہ اتنا بڑا فیصلہ کرنے کے لیے سوچنا اور غور کرنا ضروری تھا لیکن وہ مغلوب ہو گئے اور گھٹنے ٹیک دیے۔ فیصلہ کرنے کے بعد مشرف نے ملک کے سیاست دانوں‘ ٹیکنوکریٹس‘ بیوروکریٹس اور میڈیا والوں کو چالیس پچاس کے گروپوں میں بلانا شروع کیا اور انہیں اپنی دانشمندی کے اسباب بتائے کہ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا ہے۔ اسی طرح تیسرے گروپ میں مجھے بھی بلایا‘‘۔
''23 ستمبر کا دن تھا اور تقریباً تین گھنٹوں تک مشرف اپنی منطق بیان کرتے رہے۔ میں تنگ آگیا تو عرض کی... آپ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ بدترین فیصلہ ہے جس کی کوئی منطق ہے نہ جواز اور نہ کسی قانون کے تحت اسے درست کہا جا سکتا ہے۔ اس فیصلہ کے نتائج پاکستان کی سلامتی کے لیے مہلک ثابت ہوں گے۔ ایک برادر اسلامی ملک کے خلاف غیروں کے ساتھ مل کر جنگ میں شامل ہو جانا بے غیرتی ہے‘‘۔
جنرل صاحب اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 231 پر لکھتے ہیں ''یہ سوچ غلط ہے کہ طالبان ہاریں گے۔ طالبان جیتیں گے... یہ ایک طویل جنگ ہو گی۔ امریکہ افغانستان پر قبضے کے بعد ہماری طرف پلٹے گا اور اُن علاقوں کو ہدف بنائے گا جو طالبان کا سپورٹ بیس رہے ہیں۔ اس طرح جنگ ہم پر پلٹ دی جائے گی‘‘۔ ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ کی ستمبر 2001ء میں کی گئی پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی ہے۔
پاکستان کا ہر ہوشمند آدمی یہ بات سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امن و سلامتی اور خوش حالی افغانستان کے حالات سے جڑی ہوئی ہے۔ بحیثیت قوم اس وقت ہم ایک بڑے امتحان سے دوچار ہیں۔ ایک طرف مہنگائی کے ہاتھوں لوگ سخت پریشان ہیں۔ آئی ایم ایف نہایت ہولناک شرائط ہم سے منوانا چاہتا ہے۔ ان شرائط کو مان لینے کے بعد پاکستان میں عام آدمی کے لیے سروائیو کرنا نہایت مشکل ہوگا۔ فیٹف نے سب کچھ مان لینے کے باوجود ہمیں ابھی تک گرے لسٹ میں رکھا ہوا ہے۔ اس پیچیدہ صورتِ حال کا صرف اور صرف ایک حل ہے اور وہ ہے فیصلے سے پہلے مشاورت۔ اجتماعی فیصلہ مضبوط بھی ہوتا ہے اور اُس میں برکت بھی ہوتی ہے۔
جہاں تک خان صاحب کے نعرئہ مستانہ Absolutely Not کا تعلق ہے تو وہ اس پر ڈٹے رہیں گے یا حسب روایت یوٹرن لے لیں گے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved