تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     26-10-2021

سرخیاں، متن اور اوکاڑہ سے مسعوداحمد

اپوزیشن جس شاخ پر بیٹھی ہے
اسی کو کاٹ رہی ہے: عثمان بزدار
وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن جس شاخ پر بیٹھی ہے، اُسی کو کاٹ رہی ہے‘‘ جبکہ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ پیڑ سے نیچے اُتر کر یہ کام کیا جائے، اور اگر پیڑ پر بیٹھے رہنا ہی ضروری ہو تو اُس شاخ سے اُتر کر کسی اور شاخ پر بیٹھ جائے، اوّل تو شاخوں پر چڑھ کر بیٹھنا ویسے بھی کوئی کام نہیں، اس لئے ہم کبھی شاخوں پر نہیں بیٹھے حالانکہ پرندوں کو دیکھ کر جی چاہتا ہے لیکن چونکہ پیڑ پر چڑھ کر کام نہیں کیا جا سکتا اس لئے یہ آرزو آج تک پوری نہیں ہو سکی۔ آپ اگلے روز لاہور سے ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
پریشان حال عوام کرکٹ میچوں سے
بہلائے نہیں جا سکتے: پروفیسر ساجد میر
جمعیت اہلحدیث پاکستان کے مرکزی رہنما سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا ہے کہ ''پریشان حال عوام کرکٹ میچوں سے نہیں بہلائے جا سکتے‘‘ کیونکہ ایک ہی کھیل کو دیکھ دیکھ کر وہ بور ہو چکے ہیں، اس لئے حکومت کو دوسرے کھیلوں پر بھی توجہ دینی چاہئے مثلاً ہاکی، جس کے ہم کبھی چیمپئن ہوا کرتے تھے، اُسے از سر نو زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے جس کے علاوہ سکواش کے بھی ہم کبھی چیمپئن ہوا کرتے تھے، اس کی طرف بھرپور توجہ کی جانی ضروری ہے کیونکہ عوام کو ورائٹی کی بے حد ضرورت ہے حتیٰ کہ اِن ڈور گیمز بھی کئی ایسی ہے جن کی حق تلفی ہو رہی ہے مثلاً لُڈو کے میچ کرائے جا سکتے ہیں، حتیٰ کہ سنوکر اور کیرم کے میچز بھی بہت دلچسپی سے دیکھے جائیں گے۔ آپ اگلے روز جمعیت کے مرکزی دفتر لاہور میں ایک تنظیمی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
محدود وسائل والے طبقے کو مراعات
دی جائیں گی: فرخ حبیب
وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب نے کہا ہے کہ ''محدود وسائل والے طبقات کو مراعات دی جائیں گی‘‘ کیونکہ لامحدود وسائل والے طبقوں کو اس قدر مراعات دے چکے ہیں کہ اب وہ نکونک ہو گئے ہیں اور انہوں نے ہم سے مطالبہ کیا ہے کہ خدا کے لئے اب یہ سلسلہ بند کر دیں کیونکہ ہم مراعات کی اس ریل پیل کے مزید متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے اب ہم اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ اگر کچھ مراعات باقی رہ گئی ہیں تو انہیں محدود وسائل والے طبقوں کو دے دیا جائے، اوّل تو وہ اپنے محدود وسائل ہی کے اتنے عادی ہو گئے ہیں کہ شاید وہ بھی ہاتھ کھڑے کر دیں کہ سکون میں مداخلت نہ کی جائے۔ آپ اگلے روز ڈی ٹائپ کالونی فیصل آباد میں آسا سنگھ پارک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
پنجاب حکومت کو گرانے کے بعد وفاقی
حکومت کو گرانا آسان ہوگا: شازیہ مری
سابق رکن قومی اسمبلی اور پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ ''پنجاب حکومت کو گرانے کے بعد وفاقی حکومت کو گرانا آسان ہوگا‘‘ لیکن چونکہ پنجاب حکومت کو گرانا مشکل بلکہ ناممکن نظر آ رہا ہے اس لئے کہیں اور طبع آزمائی کر لی جائے تاکہ پنجاب حکومت کوآسانی سے گرایا جا سکے اور اگر دونوں کو نہ گرایا جا سکے تو صبر کا گھونٹ بھر لیا جائے اور تحریکوں کے ذریعے خواہ مخواہ وقت ضائع نہ کیا جائے اور ہمیں وہ کام کرنے دیا جائے جو ہمیں آتا ہے اور جو ہم کیا کرتے ہیں، اگرچہ وہ رُکا نہیں ہے اور جاری و ساری ہے لیکن پھر بھی وہ یکسوئی سے کرنے والا کام ہے اور اب حساب برابر کرنے کے لئے اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے بات چیت کر رہی تھیں۔
حکومت سیاسی شہادت کے لئے
کوشاں ہے: ایمل ولی خان
عوامی نیشنل پارٹی خیبرپختونخوا کے صدر ایمل ولی خان نے کہا ہے کہ ''حکومت سیاسی شہادت کے لئے کوشاں ہے‘‘ اور ہم سب کو آگے بڑھ کر اس کی مدد کرنی چاہئے کہ اس کام میں مدد دینا بجائے خود بہت بڑی سعادت ہے جبکہ میں یہ بھی کہوں گا کہ زندگی میں ایسے سنہری مواقع بار بار نہیں آتے جبکہ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ حکومت رخصت ہو جائے گی اور اس طرح اپوزیشن کا وہ خواب بھی شرمندئہ تعبیر ہو جائے گا جس کے لئے وہ ایک عرصے سے سڑکوں پر ماری ماری پھر رہی ہے۔ آپ اگلے روز یونین کونسل مامد ناڑئی میں مختلف جگہوں پر خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں اوکاڑہ سے مسعود احمد کا تازہ کلام:
کثافت دُھل گئی تو آسماں نیلا نکل آیا
ستاروں کا جہاں کچھ اور چمکیلا نکل آیا
مسرت، شادمانی پر خزاں کا رنگ غالب ہے
مرا چہرہ خوشی سے اور بھی پیلا نکل آیا
ہمارے دل کو عادت تھی ہمیشہ موم ہونے کی
تمہارے دل سے مل کر یہ بھی پتھریلا نکل آیا
یہ اسبابِ سفر پھر کس طرح سے باندھ کر رکھتے
ارادہ کَس کے باندھا بھی تو وہ ڈھیلا نکل آیا
٭......٭......٭
پھر ماضی کے پیچھے چھپ کر حال کھڑا تھا
مستقبل کے آگے ایک سوال کھڑا تھا
اگلے سال کے آگے جھانک کے دیکھا بھی تو
اس سے آگے پھر وہ پچھلا سال کھڑا تھا
اس پستی کے نیچے ایک بلندی بھی تھی
اُس چوٹی کے اوپر اک پاتال کھڑا تھا
گھیرا ڈال کے بیٹھے گدھ کچھ سوچ رہے تھے
دُور سڑک پر زخمی ایک نڈھال پڑا تھا
مستقبل کیا ہم شطرنج کے مُہروں کا ہے
وقت بساط پہ چل کر اپنی چال کھڑا تھا
آج کا مطلع
جہاں تُو ہے وہاں ہونا ہے مجھ کو
نجانے پھر کہاں ہونا ہے مجھ کو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved