تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     26-10-2021

خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو

قوم عجیب خلجان میں مبتلا ہے۔ مہنگائی کا گراف ہے کہ بلند سے بلند تر رہنے پر تُلا ہوا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بڑھے ہیں تو ہر چیز کے دام یوں بڑھ رہے ہیں کہ کہیں رکنے کا نام نہیں لے رہے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ کسی کو اگر کوئی چیز ذرا سی مہنگی ملتی ہے تو وہ اپنی طرف سے معاملے کو کچھ زیادہ ہی بڑھاکر وصولی شروع کردیتا ہے، گویا ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبّت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں
تمام اشیائے صرف کی قیمتیں بے قابو ہوچکی ہیں۔ عام آدمی کی قوتِ خرید تو برف جیسی ہوگئی ہے کہ پگھلتی ہی جارہی ہے۔ جو لوگ تھوڑی بہت بچت ممکن بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ بھی اُسے ٹھکانے لگانے میں عافیت جانتے ہیں کہ روپے کی قدر میں رونما ہونے والی یومیہ گراوٹ کے باعث رقم کو زیادہ دیر جیب یا گھر میں رکھنا صرف خسارے کا سودا ہے۔ معاشی سرگم میں مدھم کے سُر یعنی قلیل ترین آمدن والے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ اُن کا حال بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔ عام آدمی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا ؎
نظر میں اُلجھنیں، دل میں ہے عالم بے قراری کا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا سکوں پانے کہاں جائیں
قوم منتظر ہے کہ حکومت معاملات کو سمجھنے اور درست کرنے پر متوجہ ہو تو کچھ بات بنے۔ ابھی تک تو اس بات کے آثار نہیں کہ حکومت کچھ سمجھنا اور بہتر بنانا چاہتی ہے۔ کیوں؟ وہ بالغ نظری ہے نہ ثابت قدمی‘ جو ایسے معاملات میں درکار ہوا کرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے ایوان ہائے اقتدار میں پہلی بار انٹری پانے والوں کو اب تک ٹھیک سے اندازہ نہیں ہوسکا ہے کہ حکومتی مشینری کام کس طرح کرتی ہے۔ ریاستی نظم کے اپنے اصول اور طریق ہائے کار ہیں۔ اہلِ سیاست میں بھی وہی اس کوچے میں کچھ کر پاتے ہیں جو مختلف سطحوں پر کام کرتے ہوئے بلند ترین سطح تک پہنچے ہوں یا پھر انہوں نے ایوان ہائے اقتدار میں کچھ وقت گزارا ہو۔ ایسی صورت میں بیورو کریسی کے طریق ہائے کار اور نچلے درجے کے ملازمین سے معاملت کا تھوڑا بہت ہنر آہی جاتا ہے۔ تحریک انصاف کی سب سے بڑی خامی اور کمزوری یہی ہے ۔جن جماعتوں کو ملک کا نظم و نسق سنبھالنے کے تین‘ تین، چار‘ چار مواقع ملے وہ بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کا حال بُرا ہے۔ ایک طرف اندرونی شکست و ریخت ہے اور دوسری طرف بیرونی الجھنیں‘ ایسے میں نوآموز کیا کر سکتے ہیں؟ اور پھر ملک بھی وہ جو گوناگوں مسائل میں گِھرا ہوا ہے۔ بُرے حالات مگر مچھوں کی طرح منہ کھولے ہوئے منتظر ہیں کہ کب جھپٹنے کا موقع ملے اور شکار کو لے اُڑیں۔ ایسی حالت میں ملنے والا ملک کون چلا سکتا ہے؟
دوسری طرف اپوزیشن اب تک حقیقی معنوں میں یا مطلوبہ حد تک متحد نہیں ہو پائی۔ ہو بھی کیسے کہ یہ تو بہت حد تک بھان متی کا کنبہ ہے‘ یا پھر چُوں چُوں کا مربہ کہیے۔ اپوزیشن جماعتیں ایک پیج پر کیا خاک آئیں گی، یہ تو اپنے اپنے پیج پر بھی ٹِکنے کا نام نہیں لے رہیں! اِن کا باہمی افتراق و انتشار دیکھ دیکھ کر عوام کی مایوسی بڑھتی جاتی ہے کہ ؎
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ کشتۂ تیغِ ستم نکلے!
ایسے دل خراش و حوصلہ شکن ماحول میں عوام اس بات کے منتظر ہیں کہ حکومت کسی بھی حوالے سے کوئی ایک آدھ اچھی خبر بھی دے دے اور حکومت کا یہ حال ہے کہ وہ عوام کے مسائل سے بے خبر دکھائی دیتی ہے۔ جو کچھ دبئی میں پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا وہ ستم بالائے ستم سے کم نہ تھا۔ مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگوں کو فواد چودھری نے بے وقت کی ''نوید‘‘ سُنائی کہ وزیر اعظم عمران خان بھارت میں نریندر مودی سے زیادہ مقبول ہیں اور اگر دہلی میں جلسہ کریں تو مودی کو سُننے والوں سے کہیں زیادہ لوگ اُنہیں سُننے کے لیے جمع ہو جائیں۔ کون کہاں کتنا مقبول یا غیرمقبول ہے، قوم اچھی طرح جانتی ہے۔ جو کچھ قوم کو معلوم ہے وہ نہ بتایا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ مہنگائی کی لہر پر قابو پانے کے لیے کیا سوچا جارہا ہے، کون سے اقدامات کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت کو اُن کی پریشانیوں اور مسائل کا احساس کہاں تک ہے۔ وزیر اطلاعات نے جو کچھ کہا ہے وہ نہ تو عوام کے مطلب کا ہے نہ اُن کے کسی کام کا۔ بقول اکبرؔ الٰہ آبادی ؎
اُن سے بی بی نے فقط سکول ہی کی بات کی
یہ نہ بتلایا کہاں رکھی ہے روٹی رات کی
جہاں تک بھارت میں وزیراعظم عمران خان کی مقبولیت کی بات ہے تو یہ کچھ زیادہ حیرت انگیز نہیں کیونکہ ہمارے ہاں بہت کوشش کے باوجود اب تک حکومت پٹرولیم مصنوعات کے نرخ بھارت کی سطح تک نہیں لے جاسکی۔ وہاں عوام قیامت خیز مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ہمارے ہاں مہنگائی کے حوالے سے شور برپا ہے تو اِس کا سبب یہ ہے کہ ابھی کچھ سکت باقی ہے۔ بھارت میں تو عوام کا حال اِتنا بُرا ہے کہ اب ان میں شور مچانے کی سکت بھی نہیں رہی۔ کورونا کی وبا نے دنیا بھر میں تباہی مچائی ہے۔ دبئی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ بڑی معیشتوں کو بھی کورونا کی وبا کے ہاتھوں دھچکا لگا۔ بالکل درست! مگر حقیقت یہ ہے کہ عوام کا درد محسوس کرنے والی حکومتوں نے کورونا کی وبا کے دوران پیدا ہونے والی معاشی الجھنوں کا سامنا کرنے کے معاملے میں عوام کی مدد کی۔ یہ سب پہلے سے کی جانے والی تیاریوں یعنی بیک اَپ کا کمال تھا۔ ہمارے ہاں اِس حوالے سے کچھ سوچا ہی نہیں گیا۔ یہاں تو بالکل سامنے کے معاملات کے لیے بھی کچھ کرنا مشکل ہوتا ہے، بیک اَپ کی بات تو رہنے ہی دیجیے۔ کم ترین آمدن والے گھرانوں کو تھوڑی سی مالی امداد دے کر سمجھ لیا گیا کہ حق ادا ہوگیا۔ ہمارے ہاں لوگ ایک دوسرے کی اِتنی امداد تو ویسے ہی کردیتے ہیں۔
وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ گندم اور گنّے کی شاندار پیداوار ہوئی ہے۔ ایسا تو کئی بار ہوا ہے۔ گنّے کی ریکارڈ پیداوار کی صورت میں بھی اہلِ پاکستان کو چینی سستی نہیں ملتی۔ گندم کی شاندار پیداوار پر بھی آٹا مہنگا ملتا ہے۔ جب کوئی نظام کام ہی نہیں کر رہا تو کسی بھی فصل کی پیداوار زیادہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومتی مشینری نے مہنگائی کے معاملے میں ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ ہر شعبے میں مافیا کا عمل دخل کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اشیائے خور و نوش سمیت روزمرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں حکومت کی برائے نام دلچسپی بھی نہیں رہی۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے۔ کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ اب نیت کے اِخلاص کی ضرورت ہے۔ اُستادِ محترم رئیسؔ امروہوی نے خوب کہا تھا ؎
تمہیں شکستہ دلوں کا خیال ہی تو نہیں
خیال ہو تو کرم کے ہزار ہا پہلو
تمام حکومتی شخصیات کو اس بات کا شدت سے احساس ہونا چاہیے کہ مہنگائی کی تازہ ترین لہر نے نچلے طبقے کو کچل کر رکھ دیا ہے۔ اِس طبقے کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ پست ترین سطح پر اجرت پانے والوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ ع
کسی نے حال بھی پوچھا تو آنکھ بھر آئی
اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے،وزیراعظم اور اُن کی ٹیم کو مہنگائی کی لہر پر قابو پانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس حوالے سے معاملات زیادہ امید افزا نہ ہوں تو کوئی بات نہیں مگر کمر توڑ مہنگائی کی چکی میں پسنے والوں کی ڈھارس بندھانے کی غرض سے تھوڑی بہت راحت کا اہتمام کرنے میں کچھ قباحت نہیں۔ محض تماشا دیکھتے رہنے سے کچھ نہ ہوگا۔ لوگ مخلصانہ اقدامات کا انتظار کر رہے ہیں۔ حکومت چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے۔ سوال صرف چاہنے کا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved