تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     27-10-2021

میچ کس ماحول میں دیکھنا چاہیے تھا

اِتنے عرصے بعد خوشی کا ایک دن ملا۔ سارے دکھ درد ایک طرف کو ہو گئے بس کھلاڑیوں کی پرفارمنس ہی سامنے رہی۔ اور کیا پرفارمنس تھی۔ مجھ جیسے کرکٹ سے نابلد انسان کا دل بھی خوشی سے جھوم اٹھا۔ لیکن کیا اچھا ہوتا کہ گزرے ہوئے دن لوٹ آتے، پرانے وقتوں کا سماں ہوتا‘ ایک ایسی جگہ پہ جہاں خدمت گزار آگے پیچھے ہو رہے ہوتے، مردوخواتین بیٹھے ہوتے اور ایک عالمِ سرمستی میں میچ دیکھا جاتا۔ عالمِ مستی دوبالا نہ ہو جاتا؟
یہی ہمارا رونا ہے، کام کچھ ٹھیک ہو نہیں رہا، حکمرانی کیسی ہونی چاہئے، کس معیار کی ہونی چاہئے، اِس کا الف ب بھی آپ کو اب تک سمجھ نہیں آیا۔ یہ صرف ایک وزیر اعظم کی بات نہیں ہو رہی، اشارہ میرا اپنے معاشرے کی طرف ہے‘ یعنی ہم سے حالتِ اجتماعی میں کوئی ٹھیک سے کام نہیں ہو رہا۔ معاشرے کی شکل بگاڑ کے رکھ دی ہے۔ قوموں کی پیچھے کی صفوں میں ہم کھڑے ہیں۔ کشکول لئے‘ ہر ایک کے سامنے رکھتے ہیں۔ ایسی حالت میں جب ہر اطراف بگاڑ ہے تو شغل میلے کے دروازے بند نہ کئے جاتے۔ کچھ رومن قیصروں سے سیکھ لیتے۔ جب سلطنتِ روما میں حالات خراب ہوتے تو قیصرِ وقت بڑی بڑی کھیلوں کا اہتمام کرتے۔ عوام اُن میں لگ جاتے۔ ساتھ ہی گندم کی قیمت کو نیچے لانے کا اہتمام ہوتا۔ گندم مل رہی ہو اور سٹیڈیم میں کھیل بھی جاری ہوں تو غمِ دنیا مٹتا نہیں کم تو ہو جاتا ہے۔
ہم سیانوں کی ایجاد پتا نہیں کہاں ہوئی ہے۔ ایک طرف بگاڑ اور دوسری طرف شغل میلے کے تمام دروازے بند۔ ایسے میں یا تو کوئی افضل قوم پیدا ہوتی۔ دنیا کہتی‘ کیا کمال کے لوگ ہیں۔ لیکن قرض پہ جینے والی قوم، لٹکائے ہوئے چہرے اور اوپر سے دعوے پارسائی کے اور باتیں وعظ و نصیحت کی۔ پر ہم گناہگاروں کی کون سنے۔ فیصلہ ساز دو چیزوں میں مگن ہیں، ہر جائز و ناجائز طریقے سے پیسہ بنانا اور ہم غریبوں کو لیکچر دینا۔
سچ پوچھئے ہم جیسوں کی تو آخرت، یعنی اس دنیا میں آخرت، خراب ہو رہی ہے۔ ہم نصیحت سن چکے اور دوسروں کو جتنی نصیحت کرنی تھی کر چکے۔ جو تیر چلانے تھے چلا چکے۔ اب دعا فقط اِتنی ہے کہ صحت ٹھیک رہے، ڈاکٹروں کے پاس جانا نہ پڑے، دو وقت کا کھانا میسر ہو اور کھا سکیں۔ یہ اِس لئے کہہ رہا ہوں کہ ایسے بدنصیبوں کی کمی نہیں جو دسترخوان تو سجا سکیں لیکن صحت کی بنا پہ دو وقت کا کھانا کھا نہ سکیں اور شامیں کچھ آرام اور سکون کی گزریں۔ ہم جیسے گناہگاروں کا یہ پرابلم ہے کہ شام کو ٹی وی ڈرامے دیکھنے سے تو ہم رہے۔ یہ اپنے اپنے حصے کی بات ہے۔ جنہوں نے پاجامہ پہن کے پاکستانی اور ترکی ڈرامے دیکھنے ہیں وہ ایسا کریں اور اِسی میں خوش رہیں۔ ساری عمر اور تو بیکار کی باتیں بہت کیں لیکن ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے شوق سے محروم رہے۔ یہ بھی نہیں کہ ہماری کوئی اِتنی وسیع آرزوئیں ہیں۔ بس سکون کی شام ہو، ساتھ میز پہ جو طبیعت چاہے وہ اشیائے استعمال میسر ہوں اور پرانے وقتوں کی موسیقی ہو۔ موسیقی ایسی جو دل جلوں کیلئے ہو، بربادیٔ دل کی جس میں باتیں ہوں۔ گانے والے بھی پرانے ہوں۔ مثال کے طور پہ لتا منگیشکر کے بعد کے گانے ہم نہیں سنتے۔ کم عمری کی لتا کی آواز ہمارے تباہ دل کو بھاتی ہے۔
بس ہم ہوں اور ہماری تنہائی۔ اِس ضمن میں ایک اعترافِ جرم کرنا پڑتا ہے۔ اپنی شاموں میں مردوں کی محفل کا کبھی خیال نہیں آتا۔ مغرب کی اذان ہوتی نہیں اور ہم تیاریِ شب میں لگ جاتے ہیں۔ یعنی کچھ نہانا دھونا، کچھ اُجلا لباس پہننا۔ آئینے میں ایک نظر دیکھنا یہ اندازہ لگانے کیلئے کہ گزرے ہوئے کل کی نسبت عمر کی لکیریں زیادہ تو نہیں ہو گئیں۔ پھر اپنے کونے میں بیٹھ جانا اور کچھ موسیقی لگا لینا۔ یہ ہرگز نہیں کہ راہِ جاناں ہماری طرف کو آتے ہیں لیکن اِس کے باوجود صبح کی باتیں وہیں رہنے دیتے ہیں۔ صبح کی باتوں سے شامیں خراب نہیں کرتے۔
گاؤں کے اِس لئے ہو لئے کہ شہروں میں جا کے کون سی توپیں چلانی ہیں۔ 1977ء کے پہلے کا پاکستان ہوتا تو ہماری پسند کی جگہوں کے دروازے بند نہ ہوتے۔ وہاں چلے جاتے، کچھ وقت گزار کے اپنی تنہائی کو واپس لوٹ آتے۔ دعوت کبھی آتی ہے تو مردوں کی محفل ہوتی ہے اور وہی گھِسی پٹی باتیں کہ ڈی جی صاحب کا نوٹی فکیشن کب جاری ہونا ہے۔ جاری ہو یا نہ ہو ہماری صحت پہ کیا اثر ؟حکومت بحران میں ہے یا نہیں ہماری عمر گزر گئی بحرانوں کو گنتے۔ پاکستان کو کبھی سکون پاتے نہیں دیکھا۔ بحرانوں میں ہی اِس ملک کی تاریخ گزری ہے۔ ایسی باتوں سے اب بے نیاز ہو چکے۔
یہ نہیں کہ پاکستا ن میں اور کچھ نہیں ہوتا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہماری حالت ایران جیسی ہے نہ سعودی عرب جیسی۔ محدود ہماری سوشل آزادیاں ضرور ہیں لیکن اِتنی نہیں جتنی اِن دو عالمِ اسلام کے سپوتوں کی۔ بہرحال جو کچھ بھی پاکستان میں ہوتا ہے پس پردہ ہوتا ہے۔ جن کا رزق کشادہ ہے یا جن کے نئے نئے باپ مرے ہوں وہ محفلیں جمائیں تو اونچی دیواروں کے پیچھے اُنہیں ایسا کرنا پڑتا ہے۔ دروازوں پہ مسلح پہرے دار کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب ایسا نہیں کرنا پڑتا تھا۔ بارونق ہوٹل کھلے ہوتے۔ صاحبِ استطاعت ہی وہاں جاتے۔ لیکن کم استطاعت والوں کے لیے بھی جداگانہ راہیں کھلی تھیں۔ اب بھی ایسا ہی ہے لیکن جسے آپ عیاشی یا راحت کہہ سکتے ہیں وہ شاہ خرچی کی زمرے میں آ چکی ہے۔ گہری جیبوں والوں کو تو فرق نہیں پڑتا لیکن اِس تفریق کے مارے معاشرے میں کم وسائل رکھنے والے مارے گئے ہیں۔ اِس صورت حال سے ایک صحت مند معاشرہ جنم لیتا تو اور بات تھی‘ لیکن پابند معاشرے نے ایک بیمار ذہنیت پیدا کی ہے۔ ہر طرف نفسا نفسی دیکھی جا سکتی ہے۔ شام کی محفلوں میں بھی بیٹھیں، گو ہم زیادہ نہیں بیٹھتے، تو گفتگو پلاٹوں اور فائلوں کی ہو رہی ہو گی‘ یا گفتگو حکومتی بحرانوں کی طرف مڑ جائے گی۔
کیا ٹھپے ہم پہ لگ چکے ہیں۔ اِن سے ہماری جان چھوٹ نہیں رہی۔ جو پابندیاں لگ گئیں اُنہیں ہٹا دینے کی کسی میں ہمت نہیں۔ جو آتا ہے پارسائی کی نصیحتیں سنانے لگتا ہے۔ شہر کے شہر تباہ ہو رہے ہیں۔ زرخیز زمینیں ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے قبضے میں آ رہی ہیں۔ ہر اطراف سیمنٹ اور سریے کے جنگل کھڑے ہو رہے ہیں۔ کسی کو کوئی پروا نہیں۔ آبادی بڑھانے میں ہمارا کتنا کمال ہے ۔ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ آبادی پہ کنٹرول کا سنجیدہ پروگرام یہاں کوئی نہیں۔ اِس ضمن میں کوئی بات بھی نہیں ہوتی اِس ڈر سے کہ جنہوں نے نصیحت کا ٹھیکہ سنبھالا ہوا ہے برا نہ منا جائیں۔ پر ایسی ثقیل اور سنجیدہ گفتگو کا کیا فائدہ۔ ہماری زندگیوں میں بگاڑ ہر اطراف بڑھا ہے۔ ہمارے باقی ماندہ دنوں میں اِس بگاڑ نے ٹھیک نہیں ہونا۔ خواہشات اب محدود ہو چکی ہیں۔ دو چیزوں سے ہی اب سروکار رہ گیا ہے، صحت اور ایسی شامیں جن میں دل کی بربادیوں کا کچھ مداوا ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved