بریگیڈیئر محمود اپنے دوست جنرل ملک کو پہلے ہی خبردار کر چکے تھے کہ وہ جنرل ضیا کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ وہ انہیں بھٹو کا حامی اور اپنا مخالف تصور کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اکیلے سات کور کمانڈرز کی رائے کے برعکس رائے دی تھی کہ فوج کو مارشل لا نہیں لگانا چاہیے‘ لہٰذا سمجھداری کا تقاضا یہی ہے کہ وہ استعفا دے کر گھر چلے جائیں۔ بریگیڈیئر محمود کا کہنا تھا: کیا وہ ضیا جیسی طبع کے آدمی پر اعتبار کر سکتے ہیں جس نے بھٹو کا ہی تختہ الٹ دیا جس نے انہیں آرمی چیف بنایا تھا؟ ان تمام باتوں کے جواب میں جنرل ملک نے ایک ہی بات کی کہ ان کے لیے یہ مشکل ہے کہ وہ ایک دفعہ جنرل ضیا پر بھروسا نہ کریں یا انہیں ٹیسٹ نہ کریں۔ یوں جنرل ملک اپنی نئی پوسٹ پر چلے گئے اور انہوں نے نئی فارمیشن کی کمان سنبھال لی۔ کچھ عرصہ بعد بریگیڈیئر محمود کراچی گئے تو واپسی پر وہ کوئٹہ چلے گئے اور ایک رات انہوں نے جنرل ملک کے پاس گزاری۔ ایک دفعہ پھر بریگیڈیئر محمود نے اپنے دوست کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ فوج کو چھوڑ دیں۔ اس پر جنرل ملک نے بریگیڈیئر محمود کو جواب دیا کہ پچھلے دنوں جنرل ضیا نے کوئٹہ کا دورہ کیا تھا اور ایک دفعہ پھر انہیں یہی یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مطلب تھا کہ جنرل ملک نے سات کور کمانڈرز کے فیصلے کے برعکس جو رائے دی تھی اسے رکاوٹ نہیں بننے دیا جائے گا۔ جنرل ملک کے بقول انہیں اب جنرل ضیا کی اس یقین دہانی پر پورا اعتماد تھا۔
اسی اثنا میں جنرل ملک کو جنرل ضیا نے کوئٹہ سے سکھر تبدیل کر دیا‘ جہاں انہیں اس علاقے کا مارشل لا ایڈمنسٹریٹر لگا دیا گیا۔ انہی دنوں سابق وزیر اعظم بھٹو کا ٹرائل بھی ختم ہونے والا تھا۔ بریگیڈیئر محمود چار دن تک سپریم کورٹ میں چلنے والے اس مقدمے کی سماعت دیکھنے اور سننے جاتے رہے جب وزیر اعظم بھٹو نے عدالت میں ان تمام الزامات کے خلاف اپنا طویل موقف پیش کیا تھا۔ اس دوران بریگیڈیئر محمود جسٹس نسیم حسن شاہ سے بھی ان کے چیمبر میں جا کر ملے۔ بریگیڈیئر صاحب پر واضح تھا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ مارشل لا حکام سے خوف زدہ اور ان کے خلاف فیصلہ دینے سے کترا رہے ہیں اور ان کی خواہشات کے برعکس وہ کوئی فیصلہ نہیں دیں گے جس کا فائدہ بھٹو کو ہو‘ اس کے باوجود بریگیڈیئر محمود کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ بھٹو کو سزا ہو سکتی ہے‘ پھانسی تو بہت دور کی بات تھی۔ اس دوران جب بریگیڈیئر محمود کو پتہ چلا کہ جنرل ضیا نے میجر جنرل ملک کو سکھر ٹرانسفر کر دیا ہے تو وہ کچھ ان کمفرٹ ایبل تھے۔ اپنے چند خدشات جنرل ملک سے ڈسکس کرنے کے لیے بریگیڈیئر محمود نے ایک دن سکھر جانے کا فیصلہ کیا جہاں جنرل ملک تعینات تھے۔
بریگیڈیئر محمود نے بڑی تفصیلات کے ساتھ جنرل ملک کو سپریم کورٹ کی پوری کارروائی کا جائزہ پیش کیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ کے ساتھ ہونے والی ملاقات کا بھی بتایا اور اپنی رائے دی کہ وہ وہی فیصلہ دیں گے جو جنرل ضیا چاہتے ہیں۔ بریگیڈیئر محمود نے ایک دفعہ پھر اپنے دوست کو زور دے کر کہا کہ اب بھی موقع ہے کہ وہ آرمی چھوڑ دیں‘ وہ جس کام کے لیے انتظار میں بیٹھے ہیں وہ کبھی نہیں ہو گا‘ جنرل ضیا انہیں میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کی پروموشن نہیں دیں گے‘ بہتر ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ لے لیں اور عزت‘ احترام کے ساتھ گھر چلے جائیں‘ لیکن بریگیڈیئر محمود کے تمام تر تجزیوں اور مشوروں کے باوجود جنرل ملک کو جنرل ضیا پر اعتماد تھا‘ یا شاید جنرل ملک کے اندر موجود پروموشن کی امید انہیں آرمی نہیں چھوڑنے دے رہی تھی کہ اگر ان کا چیف یہ تسلی دے چکا تھا کہ وہ ان کی پروموشن کرے گا تو پھر انہیں اس وعدے پر اعتبار کرنا چاہیے۔ بھلا جنرل ضیا کو جنرل ملک سے ڈرنے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ ان سے جھوٹے وعدے کرتے؟
بریگیڈیئر محمود جنرل ملک کو جنرل ضیا کے کردار اور اپروچ کے خلاف جتنا قائل کرنے کی کوشش کرتے اور انہیں راستہ دکھاتے کہ وہ اس چکر میں نہ پڑیں‘ جنرل ملک اتنا ہی اندر سے قائل تھے کہ جنرل ضیا نے ان سے پکا وعدہ کر رکھا ہے اور وہ یہ پورا کریں گے‘ لیکن بریگیڈیئر محمود کی جنرل ضیا کے بارے رائے کچھ اور تھی اور پتہ نہیں کیوں اپنی ہی برادری کا ہونے کے باوجود بریگیڈیئر محمود کو جنرل ضیا پسند نہیں تھے‘ حالانکہ جنرل ضیا نے ایک دفعہ بریگیڈیئر محمود سے ہاتھ ملاتے وقت انہیں بریگیڈیئر صاحب کہنے کے بجائے میاں صاحب کہہ کر مخاطب کیا تھا تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ وہ ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں‘ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود بریگیڈیئر محمود جنرل ضیا کے بارے اپنے دل میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کر سکے تھے۔
وہی ہوا جس کا خدشہ بریگیڈیئر محمود کے ذہن میں کلبلا رہا تھا کہ جسٹس نسیم حسن شاہ سٹینڈ نہیں لیں گے۔ انہوں نے بھی باقی تین ججوں کا ساتھ دیا اور یوں بھٹو کو پھانسی دینے کا فیصلہ آیا۔ اس کے برعکس تین ججوں نے ہمت کی اور بھٹو کو بے گناہ قرار دیا۔ جنرل ضیا نے بھٹو کو جہاں پھانسی دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا تو وہیں انہوں نے جنرل ملک کو بھی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہوا تھا کیونکہ انہوں نے بھٹو حکومت کو برطرف کرنے اور مارشل لاء لگانے کے خلاف رائے دی تھی‘ اور بھٹو کو جنرل ضیا کی اجازت کے بغیر مل کر آئے تھے۔ جنرل ضیا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جنرل ملک کو اپنے انداز میں سزا دیں گے جو جنرل ملک ساری عمر یاد رکھیں گے۔
بھٹو کی آخری رسومات بریگیڈیئر (بعد میں جنرل) زاہد علی اکبر کے ذمے لگ چکی تھیں‘ لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ جنرل ضیا نے میجر جنرل ملک کو جان بوجھ کر سکھر پوسٹ کیا تھا اور ان کے ذمے لگایا گیا کہ وہی بھٹو کی آخری رسومات کی نگرانی کریں گے۔ یوں وہ بھٹو جس نے جنرل ضیا کو بائی پاس کر کے جنرل ملک کو وزیر اعظم ہاؤس بلا کر رائے لینے کی کوشش کی تھی کہ وہ جنرل ضیا کو برطرف کرنے کا سوچ رہے ہیں‘ دو سال بعد انہی کو جنرل ضیا نے بھٹو کی لاش کو قبرستان تک لے جانے کی ذمہ داری سونپ دی تھی۔ یہ جنرل ضیا کا بدلہ لینے کا اپنا انداز تھا۔ جہاں انہوں نے اس وزیر اعظم کو پھانسی لگایا تھا جس نے ساتویں نمبر سے اٹھا کر انہیں آرمی چیف لگایا‘ وہیں انہوں نے بھٹو کے حامی جنرل ملک کو بھٹو کی آخری رسومات کا فریضہ بھی سونپ دیا تھا۔
بھٹو کے جسدِ خاکی کو قبرستان تک پہنچانے کے بعد جنرل ضیا نے جنرل ملک کو دوبارہ راولپنڈی تعینات کر دیا۔ ایک دن جنرل ملک کی جنرل ضیا سے ملاقات ہوئی۔ پروموشن ابھی تک نہیں ہوئی تھی۔ جنرل ضیا نے کہا: جنرل صاحب اب میرے ذہن میں آپ کے لیے ایک اور کام ہے۔ جب جنرل ضیا نے جنرل ملک کے ساتھ اپنا آئیڈیا شیئر کیا تو جنرل عبداللہ خان ملک نے ایک لمحے کے لیے سوچا‘ انہیں بریگیڈیئر محمود کی باتیں یاد آئیں‘ اپنے سامنے بیٹھے جنرل ضیا کو غور سے دیکھا اور سیدھا انکار کر دیا۔ جنرل ملک کو جو انکار تین سال پہلے کرنا چاہیے تھا وہ اب کررہے تھے۔ (جاری)