ہندوستان میں برطانوی راج کے خلاف مزاحمت کے کئی مورچے تھے۔ ان مورچوں میں ایک اہم مورچہ تعلیم کا تھا۔ بہت سے قومی رہنماؤں نے مزاحمت کے لئے تعلیمی اداروں کا انتخاب کیا۔ یہ ایک جانا بوجھا فیصلہ تھا کیونکہ ان رہنماؤں کو معلوم تھا کہ جس طرح سامراجی طاقتیں تعلیم کو اپنی بالا دستی کے حصول کے لئے استعمال کر سکتی ہیں‘ اسی طرح تعلیم کے ذریعے مزاحمت بھی کی جا سکتی ہے۔ 1857 کی جنگِ آزادی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت تھی جس میں ہندوستان میں بسنے والے مختلف گروہوں کے افراد نے مل کر مسلح جدوجہد کی‘ لیکن مرکزی قیادت کی عدم موجودگی، غیر تربیت یافتہ جنگجوئوں اور پرانے اسلحے کے ساتھ یہ جنگ جیتنا ممکن نہ تھا۔ اس جنگ میں ناکامی کے بعد مقامی لوگوں کو جابرانہ ہتھکنڈوں کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے لوگوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی‘ بہت سے لوگ جیلوں میں ڈال دیے گئے اور خطرناک باغیوں کو کالا پانی بھیج دیا گیا۔ یہ دراصل انڈیمان کے جزیرے تھے جو چاروں طرف سے پانی سے گھرے ہوئے تھے اور وہاں سے فرار ہونا ناممکن تھا۔
جنگِ آزادی میں ناکامی کے بعد حریت پسندوں کے حوصلے وقتی طور پر پست ہو گئے تھے لیکن آزادی کی آگ ان کے سینوں میں دہک رہی تھی۔ تب انہوں نے مزاحمت کے لئے ایک اور راہ اختیار کی جن کا مرکز تعلیمی ادارے تھے۔ اس کی اولین مثال دارالعلوم دیوبند ہے، جسے مولانا قاسم نانوتوی اور ان کے ساتھیوں نے 1866 میں قائم کیا‘ جس کا بڑا مقصد مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی تعلیم بھی تھا۔
1905 میں ہندوستان کے وائسرائے لارڈ کرزن نے بنگال کی تقسیم کا اعلان کر دیا۔ بنگال کی یہ تقسیم لوگوں کی امنگوں کے خلاف تھی۔ تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی لوگ ننگے پاؤں گھروں سے نکل آئے اور سڑکوں پر احتجاج کرنے لگے۔ بنگال کے گلی کوچوں میں اس تقسیم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہونے لگی۔ مزاحمت کے طریقوں میں ایک موثر طریقہ تعلیم ہے۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ بنگال کے نوجوانوں کو ایسی تعلیم سے آراستہ کیا جائے جس میں مقامی شناخت بھی ہو، عملیت کا عنصر بھی اور وہ سیاسی شعور سے بھی بہرہ ور ہوں۔ یوں کلکتہ میں بنگال نیشنل کالج کا قیام 1906 میں عمل میں آیا۔ کالج کی قیادت کے لیے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو اس منصب کے اہل ہو۔ تب ان کی نگاہ انتخاب ایک ایسے شخص پر پڑی جو علم و ادب میں ممتاز تھا اور جس کے دل میں وطن کی آزادی کا الاؤ بھڑک رہا تھا۔ اس کا نام آروبندو گھوش تھا اور وہ اس وقت مہاراجہ برودا کی ریاست میں ملازمت کر رہا تھا۔ اس کی تنخواہ پانچ سو سٹرلنگ پاؤنڈ تھی۔ آروبندو گھوش میں ایسی کیا بات تھی کہ اسے اتنے بڑے معاوضے پر مہاراجہ نے ریاست برودہ میں رکھا تھا۔ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے ہمیں آروبندو گھوش کے بارے میں جاننا ہو گا۔
آروبندو گھوش‘ جو بعد میں ہندوستان کے منظرنامے پر ایک نمایاں کردار کی صورت میں ابھرا‘ مغربی بنگال کے ضلع ہوگلی کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کے والد اسسٹنٹ سرجن تھے اور یہ ایک خوشحال گھرانا تھا۔ والد کی خواہش تھی کہ ان کے بچے جدید ترین مغربی تعلیم حاصل کریں۔ اس کے لئے انہیں دارجلنگ سکول میں داخل کرایا گیا جہاں وہ Loretto House میں تھے‘ لیکن والد کا خواب تھا کہ ان کے بچے انڈین سول سروس (ICS) کا امتحان پاس کریں۔ 1879 میں اروبند اور اس کے بھائیوں کو انگلینڈ کے شہر مانچسٹر بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے گرامر سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد کیمبرج یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ آئی سی ایس کے امتحان میں 200 کامیاب امیدواروں میں آروبندو گھوش کا گیارہواں نمبر تھا‘ لیکن اروبند کا دل تو کہیں اور اٹکا ہوا تھا۔ وہ کیمبرج میں طالب علمی کے دور سے ہیوہ بنگال میں تاج برطانیہ کے خلاف سرگرم لوگوں سے رابطے میں تھا۔
کیمبرج میں اس نے امتیازی پوزیشن سے امتحان پاس کیا تھا۔ ان دنوں مہاراجہ برودہ انگلستان کے دورے پر آئے تو ایک ملاقات میں وہ آروبندو سے بہت متاثر ہوئے اور اسے اپنی ریاست میں ملازمت کی پیشکش کی۔ آروبندو کو اسی موقع کی تلاش تھی۔ وہ ہندوستان واپس جا کر آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ لینا چاہتا تھا۔ یہ 1887 کی بات ہے‘ جب آروبندو ہندوستان واپس آیا اور ریاست برودہ کے ساتھ وابستہ ہو گیا۔ جزوقتی طور پر برودہ کالج میں فرانسیسی بھی پڑھاتا تھا۔ آروبندو انگریزی، لاطینی، فرانسیسی، بنگالی، سنسکرت زبانیں جانتا تھا۔
وہ ایک استاد، ایک شاعر اور ایک فلسفی تھا اور چاہتا تھا کہ وطن کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالے۔ وہ مختلف رسالوں میں اپنے خیالات کے اظہار کیلئے مضامین لکھنے لگا۔ انہی دنوں‘ یعنی 1906 میں اسے بنگال نیشنل کالج کا پرنسپل بننے کی پیشکش کی گئی۔ پرنسپل کا معاوضہ 10 سٹرلنگ پائونڈ تھا۔ کہاں برودا میں 500 سٹرلنگ پاؤنڈ اور کہاں صرف 10 پاؤنڈ‘ لیکن اروبند نے 500 پاؤنڈز کی ملازمت چھوڑ کر 10 پاؤنڈ کی ملازمت قبول کر لی کیونکہ یہاں اسے بنگال کے نوجوانوں سے براہ راست مخاطب ہونے کا موقع مل رہا تھا۔ وہ مغربی تعلیم سے آشنا تھا اور جانتا تھا کہ بنگال کے نوجوانوں کو ایک ایسی تعلیم کی ضرورت ہے جو ان میں سیاسی شعور پیدا کر سکے اور وہ ہندوستان کی آزادی میں فعال کردار ادا کر سکیں۔
بنگال نیشنل کالج اس خواب سے جڑا ہوا تھا جو اس وقت کے حریت پسندوں نے دیکھا تھا۔ آزادی ان کی منزل تھی۔ انہوں نے بدیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور ایک ایسی قومی تعلیم کی تحریک شروع کی تھی جس کے تحت بہت سے نیشنل سکولز کھولے جائیں جہاں طلبا کو مادری زبان میں تعلیم دی جائے‘ انہیں اپنی اقدار سے روشناس کرایا جائے، انہیں عملی تعلیم کا تجربہ دیا جائے، انہیں آزادی کی اہمیت بتائی جائے اور انہیں سیاسی شعور سے آشنا کیا جائے۔ ادھر لارڈ کرزن کی پوری کوشش تھی کہ بنگالی نوجوانوں کو سیاست سے علیحدہ رکھا جائے۔ آروبندو گھوش کے انقلابی خیالات سے بنگالی نوجوانوں کو بچانا ضروری تھا۔ تب حکومت وقت کی طرف سے آروبندو کے خلاف ''بندے ماترم‘‘ رسالے کے حوالے سے ایک کیس بنا کر اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر آروبندو کو نیشنل کالج سے استعفا دینا پڑا‘ لیکن اس کیس میں باعزت بری ہونے کے بعد وہ پھر نیشنل کالج سے وابستہ ہو گیا‘ اور اسی جوش و جذبے سے کام کرنے لگا‘ لیکن 1908 میں علی بم کیس میں اسے گرفتار کر لیا گیا‘ جس پر اسے نیشنل کالج سے نہ چاہتے ہوئے بھی علیحدہ ہونا پڑا۔ یہ کیس ایک سال تک چلتا رہا اور پھر عدم ثبوت کی بنا پر اسے رہا کر دیا گیا۔ آروبندو کا بھرپور سیاسی سرگرمیوں کا دور 1906 سے 1910 تک محیط ہے۔ پھر آروبندو روحانی سکون کی تلاش میں پانڈے میں مقیم ہو گیا‘ جہاں اس نے ایک آشرم قائم کیا۔ بنگال نیشنل کالج سے فارغ التحصیل طلبا سیاسی شعور سے مالامال تھے اور انہوں نے آزادی کی تحریک میں مؤثر کردار ادا کیا۔ آج بھی نیشنل کالج جادیو پور Jadavpur University کی شکل میں موجود ہے‘ جہاں 1922 میں آروبندو بھون کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا گیا۔ جب بھی تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں بنگال نیشنل کالج اور آروبندو گھوش کا نا م نمایاں ہو گا۔