پاکستان کی معیشت گرتی چلی جارہی ہے۔ قرضوں اور اخراجات میں توازن ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتا چلا جارہا ہے۔ حالت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اگر ہم قرضوں کا ایک دھیلا ادا نہ کریں تو بھی ملکی اخراجات پورے نہیں کیے جاسکتے۔ صرف وفاق میں ریٹائرڈ سرکاری ملازموں کی پنشنیں اور موجود سرکاری ملازموں کی تنخواہیں، دفاع کے اخراجات، سرکاری شعبے کی کمپنیوں کے نقصانات اور نام نہاد ترقیاتی بجٹ جمع کریں تو ہمارے پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ ہماری سڑکوں، پلوں اور سرکاری عمارتوں کو ہرسال مرمت اور دیکھ بھال کی ضرورت بھی اتنی زیادہ ہوچکی ہے کہ ترقیاتی منصوبوں کیلئے جو رقم بجٹ میں مختص دکھائی جاتی ہے، عملی طور پر اس دیکھ بھال پر ہی خرچ ہوجاتی ہے۔ ہمارے معاشی نظام میں کرپشن اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ضرورت سے کہیں کم دستیاب وسائل میں سے مفروضہ کرپشن صفر کردی جائے تو بھی یہ ناکافی ہیں۔ ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہمیں ہر سال قرض اٹھانا پڑتا ہے اور قرض اتارنے کیلئے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ پھر اس کے سود در سود کی ادائیگی کرتے ہوئے ہم ایسی دلدل میں دھنستے جارہے ہیں جس میں سے نکلنے کی کوئی ترکیب نظر نہیں آتی۔ یکے بعد دیگرے ہم سیاسی جماعتوں کو آزما چکے، نتیجہ ہمیشہ ایک ہی نکلا کہ جانے والوں نے آنے والوں کے راستے میں کانٹے بو دیے۔
معیشت اور گورننس کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پاکستان کی موجودہ انتظامی مشینری کے ساتھ جیسی معیشت چل سکتی ہے، ویسی بے ڈھب چل ہی رہی ہے۔ دنیا بھر کا تجربہ ہے کہ اگر معیشت کو درست کرنا ہے تو اس سے پہلے انتظامی مشینری کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ ایسے بیوروکریٹ ریاستی اداروں میں لانے ہوں گے جنہیں زمینی حقائق اور معاشی مشکلات کا درست ادراک ہو۔ پاکستان بننے سے آج تک ہم نے انگریز کے دیئے ہوئے سرکاری نظام کو اپنی اپنی ضرورت کے مطابق بگاڑا تو ضرور مگر ملکی اور معاشی ضروریات کے مطابق اسے ڈھالا نہیں۔ اس بے تکی چھیڑ چھاڑ کا حاصل حصول یہ ہے کہ اب اس نظام میں اتنی بھی سکت نہیں رہی کہ سڑک پر احتجاج کرتے ہوئے درجن بھر افراد سے ہی نمٹ سکے‘ بجلی چوری کو روک سکے یا ڈھنگ سے ایک سڑک بھی بنا سکے۔ دوسری طرف طاقت کے استعمال میں یہ اتنا بے خوف ہے کہ کراچی میں چار سو بندے مار کر بھی ایک پولیس والا پولیس کی حفاظت میں ہی رہتا ہے۔ ساہیوال میں بچوں کے سامنے ماں باپ کو گولیوں سے بھون دینے والے بھی نظام کی بھول بھلیوں میں بچ نکلنے کا راستہ نکال لیتے ہیں۔ اس نظام کو درست کرنے کے دعوے ہم نے ہر سیاسی جماعت کے قائدین کے دہن ہائے مبارک سے ہزاروں بار سنے‘ مگر ہمارے قائدین بھی اتنے نالائق ہیں کہ جب اقتدار میں آتے ہیں تو انہیں یہی نظام دنیا کا بہترین نظام دِکھنے لگتا ہے۔
معیشت اور گورننس ایک سیاسی نظام کی ضمنی پیداوار کہلاتے ہیں۔ اگر سیاست میں خرابی درآئے تو یہ ممکن نہیں کہ معیشت اور گورننس اس سے محفوظ رہیں۔ ویسے تو یہ دنیا بھر میں ہوا ہے کہ سیاسی قیادت کا معیار نچلے ترین درجے کو چھو رہا ہے مگر ہمارا حال اس سے بھی کچھ سوا ہے۔ ہمارے لیڈر غریب ترین کی بات کرتے ہیں اور دنیا کے امیر ترین لوگوں کی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔ جیسے پاکستان میں بڑے لوگ امیر سے امیر تر ہوتے جاتے ہیں بالکل ویسے ہی یہاں سیاسی قوت آئین کی منشا کے خلاف چند ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ اس وقت پاکستان میں عملی طور پر کوئی بلدیاتی ادارہ کام نہیں کررہا۔ میں یہ بات اس کے باوجود کررہا ہوں کہ سپریم کورٹ نے پنجاب میں بلدیاتی ادارے بحال کروائے ہیں۔ پاکستان جیسے بائیس کروڑ آبادی کی تقدیر سینیٹ اور اسمبلیوں کے گیارہ سو ستر افراد کے ہاتھوں میں ہے‘ اور ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ افراد کیسے منتخب ہوتے ہیں اور آئندہ بھی کیسے منتخب ہوں گے۔ اور اگر ان افراد کو ہلانے جلانے والی دیدہ و نادیدہ ڈوریوں کو دیکھیں تو وہ محض پانچ چھ افراد کے ہاتھ میں ہیں۔
اب ذرا نظر ڈالیے ہمارے رہبروں کے پسندیدہ ملک برطانیہ عظمیٰ پر۔ اس ملک میں مجموعی طور پر تئیس ہزار لوگ الیکشن جیت کر مقامی کونسلر سے لے کر وزیراعظم تک کی نشستیں پُر کرتے ہیں۔ برطانیہ کی موجودہ آبادی کو ان منتخب نمائندوں کی تعداد پر تقسیم کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہر تین ہزار پانچ سو پچاس لوگوں پر ایک منتخب نمائندہ ریاستی اداروں میں کام کررہا ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کے سیاسی نظام پر بھی نظر ڈال لیں۔ اس ملک میں پانچ لاکھ انیس ہزار چھ سو بیاسی منتخب نمائندے ریاستی اداروں میں نیچے سے اوپر تک لوگوں کی رہبری کررہے ہیں۔ امریکہ میں منتخب نمائندے اور آبادی کا تناسب نکالا جائے تو ہر چھ سو اکتالیس لوگ ایک نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔ پاکستان کی بائیس کروڑ آبادی کو منتخب نمائندوں کی تعداد تقسیم کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک لاکھ اٹھاسی ہزار لوگوں کے لیے صرف ایک منتخب آدمی ہے۔ یہ اعدادوشمار دیکھ کر آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ سیاسی قوت کا ارتکاز کسے کہتے ہیں اور جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے۔ جس طرح پیسے کا چند ہاتھوں میں جمع ہونا بُرا ہے بالکل اسی طرح سیاسی قوت کا چند ہاتھوں میں مرتکز ہونا قوم کی تباہی ہے۔ پیسے کا ارتکاز اگر معیشت کی قابل نفرت شکل ہے تو طاقت کا ارتکاز جمہوریت کی غلیظ ترین شکل ہے۔
دنیا کے جن ملکوں میں سیاسی قوت نیچے تک تقسیم ہوتی ہے وہاں سیاسی استحکام بھی رہتا ہے۔ چونکہ پاکستان کی چند ہاتھوں میں مرتکز جمہوریت کی وجہ سے ہر وہ شخص جو سیاسی عزائم رکھتا ہے اس کے سامنے سوائے صوبائی اسمبلی یا قومی اسمبلی جیسے بڑے حلقوں میں کام کرنے کے کوئی چارہ نہیں رہتا‘ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ پاکستان کا ہر متحرک سیاسی کارکن کبھی بنام مذہب توڑ پھوڑ پر اتر آتا ہے تو کبھی بنام وطن بدمعاشی کرنے لگتا ہے۔ ظاہر ہے اگر ملک کو سیاسی طور پر منظم کرنا ہے تو اس کے لیے طاقتور بلدیاتی نظام کی ضرورت ہے تاکہ ریاستی نظام میں نئے لوگوں کی گنجائش پیدا ہو۔ اگر کوئی موجودہ سیاستدانوں سے نظام میں کسی بہتری کی توقع لگائے بیٹھا ہے تو اس پر ہنسنے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ کچھ کرنا چاہتے تو اب تک کر چکے ہوتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روبہ زوال معیشت، گورننس اور سیاست کو درست کیسے کیا جائے۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسلسل زوال کی وجہ سے اب ہمارا قومی وجود خطرے میں پڑ رہا ہے۔ یہ بالکل جنگ کی سی صورتحال ہے۔ اس سے نکلنے کیلئے ہمیں وہی کرنا ہوگا جو دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانیہ کے مدبروں نے کیا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم چیمبرلین نے استعفا دے دیا تھا اور چرچل کو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر وزیراعظم چن لیا تھا۔ چرچل کے بدترین مخالف قائد حزب اختلاف کلیمنٹ ایٹلی نے ڈپٹی وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا تھا اور چیمبرلین بھی چرچل کے نائب کی حیثیت میں کام کرنے لگا تھا۔ ہمارے سیاستدان بھی اگر دل بڑا کرکے کچھ عرصے کیلئے کسی کو چرچل جیسی حیثیت دے دیں تو شاید اس ملک کا بھلا ہوجائے۔ عوام تو ہر طرح کی قربانی اس ملک کے لیے دیتے ہی آئے ہیں اب ذرا ہمارے لیڈر بھی اپنی اپنی انا کی قربانی دے ڈالیں تو کچھ عرصے بعد یہ ملک دوبارہ اس قابل ہوجائے گا کہ ان کے بچے اسے پھر سے برباد کر سکیں۔