بھارت اور پاکستان کے مابین کرکٹ میچ کسی معرکے سے کم نہیں ہوتا۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں ٹیمیں کرکٹ کے میدان میں نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں آمنے سامنے آئی ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کئی دن پہلے سے میچ دیکھنے کی تیاری شروع کردیتے ہیں۔ نئے ٹی وی خریدے جاتے ہیں‘ بڑی سکرینیں لگائی جاتی ہیں، دوست احباب کو مل کر میچ دیکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ خصوصی پکوان تیار ہوتے ہیں، بہت سے ریسٹورنٹس فری میچ نشر کرتے ہیں، بچے منہ پر پرچم پینٹ کراتے ہیں‘ ٹوپیاں، سیٹیاں اور باجے وغیرہ خاص طور پر ساتھ رکھے جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے عوام بھی جوش و خروش سے میچ دیکھتے ہیں؛ تاہم لاہور میں میچ دیکھنے کی بات ہی کچھ اور ہے۔ سارا شہر سڑکوں پر امڈ آتا ہے کھابے چلتے ہیں‘ عوام میچ دیکھتے ہیں‘ نعرے بازی کرتے ہیں اور اگر جیت جائیں تو جشن بھی خوب مناتے ہیں۔ میں بہت حیران تھی یہ شہر کتنا الگ اور کتنا پیارا ہے۔ اب کافی عرصے سے لاہور میں میچ نہیں دیکھا‘ امید ہے کہ جلد ہی کراچی اور لاہور میں بھی میچ دیکھوں گی۔
بھارت اور پاکستان کا ٹاکرا دنیا بھر میں دیکھا جاتا ہے۔ یہ ایک کھیل نہیں رہتا‘ کروڑوں بلکہ اربوں افراد کے جذبات کا معاملہ بن جاتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے کروڑوں شائقین کی نظریں سکرین پر ہوتی ہیں اور وہ میچ کو زندگی‘ موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب چیمپئنز ٹرافی کے میچ میں بھارت کو شکست ہوئی تھی تو ایک روتے ہوئے بھارتی بچے کی وڈیو وائرل ہوئی تھی جو بھارت کی ہار پر بہت زیادہ رو رہا تھا۔ مجھے اس پر اتنا پیار اور ترس آیا کہ میں نے اس کیلئے ٹویٹ کیا کہ بیٹا یہ کھیل ہے‘ مت رو اور خوش رہو۔
پاکستان اور بھارت کے میچ بالخصوص کرکٹ میچ کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے، ہار جائیں تو لوگ بہت غمگین ہوجاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ لوگ ٹی وی توڑ دیتے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی میڈیا اور بھارتی عوام بہت زیادہ جذباتی ہیں۔ بھارتی میڈیا میچ کو جنگ بناکر پیش کرتا ہے۔ بار بار ایسے شو کیے جاتے اور ایسے کمرشلز بنائے جاتے ہیں جن میں عوام کے جذبات کو اُکسایا اور بھڑکایا جاتاہے، مقصد محض پاکستان کو نیچا دکھانا ہوتاہے۔اس کے برعکس پاکستان کے عوام اور میڈیا ایسا نہیں کرتے‘ اگرچہ ہار کا غم اور غصہ انہیں بھی ہوتا ہے لیکن وہ اس میں اپنے ہوش نہیں کھوتے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ بھارت میں پاک بھارت میچ کے دوران بھارتی شائقین نے اپنی یقینی شکست دیکھتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کو گالیاں دینا شروع کر دی تھیں، انہیں بوتلیں ماری تھیں اور پھر سٹیڈیم میں ہی آگ لگا دی تھی۔ بھارتیوں کے میچ ہارنے پر مشتعل ہو جانے کی بڑی وجہ ان کا میڈیا ہے جو پاک بھارت میچ کو جنگ میں تبدیل کردیتا ہے‘ وہ جان بوجھ کر عوام کو اشتعال دلاتا ہے، اس سے ان کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور خوب اشتہار ملتے ہیں۔ اپنے پروگرامز میں بڑے بڑے بول بولنا ان کے لیے معمولی بات ہے مگر اللہ کو غرور پسند نہیں ہے۔ اس بار ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے ''موقع موقع‘‘ گاکر پاکستان کو تنگ کرنے کی کوشش کی؛ تاہم پاکستانی میڈیا اُس طرح ہیجان نہیں پھیلاتا۔ عوام بھی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے جذبات کو قابو رکھیں۔ اب جب ٹی ٹونٹی میں پاکستان اور بھارت کے مدمقابل ہونے کی بات آئی تو بھارت نے پھر وہی سب کچھ شروع کردیا جو وہ ہر بار کرتا آیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے تو یہ تک کہنا شروع کردیا تھاکہ پاکستان ورلڈ کپ میں کبھی بھارت کو ہرا ہی نہیں سکتا۔پاکستانی عوام پہلے ہی نیوزی لینڈ کے ساتھ کھیلی جانے والی سیریز کے منسوخ ہو جانے کی وجہ سے دکھی تھے‘ انہوں نے بھارتی مہم کو نظرانداز کرنا ہی بہتر جانا۔میچ سے پہلے اس کی بہت زیادہ ہائپ بنا دی گئی تھی، اسے ورلڈ کپ کے فائنل سے بھی بڑا میچ قرار دیا جا رہا تھا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستانی ٹیم اس قدر پلاننگ ساتھ میدان میں اترے گی کہ پانسہ ہی پلٹ دے گی۔
میں اتوار کو گھر کے کاموں میں مصروف تھی‘ اپنی الماریوں کو ترتیب دے رہی تھی‘ سوچا آج کوئی آفیشل کام نہیں ہوگا صرف گھر پر فوکس ہوگا۔ میں میچ بہت زیادہ شوق سے نہیں دیکھتی؛ تاہم جب میں نے ٹویٹر فیڈ دیکھی تو حیران رہ گئی کہ یہ کیا ہوا ہے۔ پاکستان نے اس اہم میچ میں بھارت کو 10 وکٹوں سے شکست دے کر جیت اپنے نام کی۔ بھارتی ٹیم ایک بھی پاکستانی کھلاڑی کو آئوٹ نہیں کرسکی تھی اور دوسری طرف پاکستان کا بائولنگ اٹیک اتنا دم دار تھا کہ سوائے کپتان کوہلی کے‘ کوئی ایک کھلاڑی بھی پچ پر جم کر نہیں کھیل سکا۔ بھارت نے پہلے کھیلتے ہوئے مقررہ 20اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 151 رنز بنائے۔ بھارت کے ٹاپ بیٹنگ آرڈر کو شاہین آفریدی نے دھول چٹا دی تھی۔ روہت شرما صفر جبکہ کے ایل راہول تین رنز کے سکور پر پویلین لوٹ گئے تھے۔ جب پاکستان کی بیٹنگ کا آغاز ہوا تو بابر اعظم اور محمد رضوان نے جم کرکھیلا اور نہایت پُراعتمادی سے اٹھارہویں اوور میں ٹارگٹ حاصل کر لیا، یوں میچ پاکستان کے نام ہوگیا۔ شاہین آفریدی کو پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ اس قدر بری شکست دیکھ کر سٹیڈیم میں موجود بھارتی تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا تھا، وہ میچ بیچ میں ہی چھوڑ کر جانے لگ گئے تھے۔ دوسری طرف پورا سٹیڈیم پاکستان زندہ باد اور جیوے جیوے پاکستان کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ پاکستان کی جیت دیکھ کر سٹیڈیم میں موجود کپتان بابر اعظم کے والد فرطِ جذبات سے رونے لگے۔ وزیراعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ، ایئر چیف ظہیر بابر سدھو سمیت سیاسی اور سماجی رہنمائوں نے پاکستانی ٹیم سمیت سب کو مبارکباد دی۔ وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کا دورہ منسوخ ہونے کے بعد قومی کرکٹ ٹیم سے ملاقات کرکے ان کا مورال بلند کیا تھا۔ ٹیم کی کارکردگی دیکھ کر پوری قوم دنگ رہ گئی کہ قومی کرکٹ ٹیم نے کتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، ملک بھر میں فتح کا جشن منایا گیا، ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے گئے، کچھ منچلوں نے آتش بازی اور ہوائی فائرنگ بھی کی جبکہ منوں مٹھائی تقسیم کی گئی، اس ایک میچ کی وجہ سے اُداس چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔
میچ کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کی بھرمار ہوگئی۔ بہت سی مزاحیہ وڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں بھارت کی کرکٹ ٹیم، اداکاروں اور میڈیا کا مذاق بنایا گیا۔ سٹیڈیم میں بھارتی اداکار اکشے کمار، ارواشی اور پریتی زنٹا بھی موجود تھے۔ اکشے کمار پر تو خوب میمز بنائی گئیں اور انہیں بھارتی ٹیم کے لیے پنوتی (منحوس) قرار دیا گیا، ساتھ ہی ساتھ مودی سرکار اور ویرات کوہلی کو بھی خوب نشانہ بنایا گیا۔ بھارت کو فتح کا مکمل یقین تھا اور اس نے پاکستان کو تنگ کرنے کی خوب کوشش کی لیکن اس بار کایا ہی پلٹ گئی اور جیت پاکستان کے نام ہوئی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ بڑے بول نہیں بولنا چاہئیں کیونکہ وہ سامنے آجاتے ہیں۔ بھارت کا میڈیا اس وقت آگ بگولہ ہے اور پورے بھارت میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ دوسری طرف پاکستانی بہت خوش ہوئے‘ پوری قوم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور ٹیم کی کارکردگی کو سراہا۔ پاکستان کی فتح پر مقبوضہ کشمیر کے صحافیوں نے مجھے بہت سی وڈیوز بھیجیں جن میں دیکھا جاسکتا تھا کہ کشمیر کے عوام پاکستان کی فتح کا جشن منارہے ہیں، مقبوضہ وادی میں جگہ جگہ جشن کا انعقاد کیا گیا اور کشمیری عوام نے پاکستان کے ساتھ خوشیاں منائیں۔
کاش بھارت کھیل کو کھیل ہی رہنے دیتا اور اس میں سیاست نہ گھسیٹ لاتا۔ بھارت نے ہر بار پاکستان کے خلاف سازش کی اور کھیلوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، کاش بھارت اور پاکستان کے مابین میچز ہوتے رہتے، اس سے دونوں ممالک کو کثیر منافع بھی میسر آتا اور عوام ٹی وی کے بجائے میچ سٹیڈیم میں دیکھتے۔ آئی سی سی کو الگ سے ہر سال پاک بھارت سیریز کا انعقاد کروانا چاہیے جس کے کچھ میچز پاکستان تو کچھ بھارت میں ہوں کیونکہ اس خطے میں جتنے کرکٹ کے دیوانے ہیں‘ شاید ہی کہیں اور ہوں، لیکن کھیل کو کھیل ہی رہنے دیں‘ اس کو جنگ مت بنائیں۔