تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     27-10-2021

اتھارٹی قائم و دائم ہے!

عدالتِ عظمیٰ نے کراچی کے مشہورِ زمانہ نسلہ ٹاور کو گرانے کا حکم دے کر اچھے اچھوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ عدالت نے کے ڈی اے کو رفاہی پلاٹوں سے ناجائز قبضہ ختم کرانے اور شہر کا ماسٹر پلان پیش کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ مفاد عامہ کے لیے اعلیٰ عدالتیں نوٹس لینے سے لے کر دبنگ فیصلے کرنے تک‘ اپنا کردار تو ادا کرتی چلی آ رہی ہیں‘ خدا جانے وہ کون سا آسیب ہے جو واضح اور دو ٹوک فیصلوں کے باوجود من و عن عمل درآمد کی راہ میں ہمیشہ رکاوٹ بن جاتا ہے۔ رفاہی پلاٹوں پر قبضے ہوں‘ دیگر سرکاری اراضی کو باپ دادا کی جاگیر سمجھ کر قواعد و ضوابط کے برعکس بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے والے ہوں یا وسیع وعریض محلات یا فارم ہائوسز‘ یہ سبھی من مانیاں ملی بھگت اور ساز باز کے بغیر ہرگز ممکن نہیں۔
جائیدادیں متنازع ہوں یا کمزور اور بے وسیلہ لوگوں کی‘ ہمارے ہاں اونے پونے خریدنے والے ریڈی میڈ خریدار ہمہ وقت تیار رہتے ہیں؛ تاہم متعلقہ اداروں اور مقامی پولیس کی اشیرباد کی قیمت پیکیج کا حصہ ہوتی ہے۔ تین سال قبل عدالت عظمیٰ نے لاہور میں بھی قبضہ گروپوں اور لینڈ مافیا کے خلاف ازخود نوٹسز کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ بڑے بڑے نامی گرامی اورڈان ٹائپ شجرِ ممنوعہ عدالتی کٹہرے میں کھڑے دکھائی دیے۔ اربوں روپے کی زمینیں واگزار کرائی گئیں۔ طاقتور کو کھلا پیغام دیا گیا کہ اپنے ہمسایے یا کمزور کی جائیداد پر ہاتھ صاف کرنا اب آسان نہ ہوگا لیکن سسٹم کا آسیب اس قدر طاقتور ہے کہ مذکورہ دور کے سبھی فیصلوں، اقدامات اور احکامات کی نفی کے ساتھ ساتھ آج بھی وہ سبھی قبضہ گروپ اور لینڈ مافیا اپنی پرانی روش پر لوٹ چکے ہیں۔ ان کے غیظ و غضب کے خوف سے آج بھی کوئی کمزور حق پر ہونے کے باوجود کھڑا ہونے کی سکت نہیں رکھتا۔
کے ڈی اے کے رفاہی پلاٹوں سے قبضہ ختم کرانے کے حکم کی خبر پڑھ کر بے اختیار اپنے شہر لاہور کا وہ دور یاد آ گیا جس میں استحکامِ اقتدار کے لیے حکمرانوں نے ترقیاتی ادارے کو بیساکھی بنا کر نہ صرف ارکانِ اسمبلی کو اطاعت پر مجبور کیا بلکہ سرکاری و غیر سرکاری اہم شخصیات کو رام کرنے کے لیے سرکاری اراضی کو اس طرح لٹانا شروع کیا کہ لوٹ مار کی وہ روایت آج بھی جاری و ساری ہے۔ نواز شریف نے جس سیاسی ماحول میں آنکھ کھولی اور پرورش پائی‘ وہ مکمل طور پر ''چمک اور مک مکا‘‘ کا دور تھا۔ اسی دور میں یہ تاثر پختہ ہوا اور رواج پایا کہ ہرشخص کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے۔ کوئی اصولوں پر سودے بازی پر آمادہ نہ ہوا تو اسے بے اصولی پر راضی کر لیا گیا۔ ہارس ٹریڈنگ سے لے کر افسر شاہی سمیت اہم اداروں میں منظورِ نظر اور بہترین سہولت کاروں کی ایسی کھیپ تیار کی گئی جس نے ریاست کے قانون سے لے کر اخلاقی و سماجی قدروں تک کو ڈھیر کر کے رکھ دیا۔ 1985ء میں غیر جماعتی انتخابات کے نتیجے میں جب نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلیٰ نامزد کیا گیا تو اسمبلی میں موجود کئی اونچے شملے اور ناقابل تردید سیاسی قد کاٹھ والے ارکان مزاحمت پر اُتر آئے کہ یہ بابو کس طرح پنجاب کا وزیراعلیٰ ہو سکتا ہے۔ اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی خان کے راستے جنرل ضیاء الحق تک رسائی نہ صرف کام آئی بلکہ جنرل ضیاء الحق خود لاہور آ پہنچے اور بھری اسمبلی پر واضح کر دیا کہ تمہارا وزیراعلیٰ یہی بابو ہو گا۔ اس بابو نے وزیراعلیٰ بنتے ہی ارکانِ اسمبلی کی مزاحمت کو حمایت میں تبدیل کرنے کے لیے نت نئے طریقوں سے سرکاری وسائل اور ملکی دولت کو 'مالِ مفت دل بے رحم‘ کے مصداق کنبہ پروری سے لے کر بندہ پروری تک‘ سب پر بھرپور استعمال کیا۔
1988ء میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیراعلیٰ بنے تو نہ صرف ان کا ہاتھ کافی رواں ہو چکا تھا بلکہ ''جھاکا‘‘ بھی اُتر چکا تھا۔ شہر کے ترقیاتی ادارے کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی رشوت‘ اقتدار کے استحکام اور سربلند کو سرنگوں کرنے کا انوکھا طریقہ ایجاد کر ڈالا۔ دور دراز علاقوں میں واقع ٹکے ٹوکری پلاٹوں کو لاہور کے پوش علاقوں میں ٹرانسفر کر کے نوازنے اور منہ بند کرنے کا وہ فارمولا دریافت کیا گیا جو پھر رکنے میں ہی نہ آیا۔ ارکانِ اسمبلی سے لے کر کاریگر بیورو کریٹس تک‘ منظورِ نظر افراد سے لے کر سہولت کاروں تک‘ سبھی کو رَجا ڈالا۔ اسی دور کی فیاضی اور دریا دلی کا ایک اور نمونہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ بیواؤں‘ معذوروں اور ناداروں کو پلاٹ دینے کی سکیم شروع کی گئی جو بیوہ کوٹہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس سکیم کے تحت بیواؤں کے نام پر جو بندر بانٹ کی گئی وہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ بیواؤں اور ناداروں کے کوٹے سے جن ہستیوں کو پلاٹ دئیے گئے وہ بیش قیمت گاڑیوں پر آئیں‘ انہوں نے مہنگی پوشاکیں زیب تن اور قیمتی چشمے لگا رکھے تھے۔ بیوہ کوٹہ کا دروازہ ایسا کھلا کہ پھر بند ہی نہ ہوا۔ لاہور کی تمام بڑی سکیموں میں بیواؤں کے پلاٹوں پر کون کون قابض ہوا اور کون کون بینی فشری ہے اس کا پتا کرانا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ نواز شریف کے اقتدار کو استحکام دلوانے میں اس اتھارٹی کے کلیدی کردار سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قیام پاکستان کے وقت بھارت سے منتقل ہونے والے نزول لینڈ کی بندر بانٹ کا اگر ریکارڈ سامنے آ جائے تو عوام اور احتسابی ادارے سارے پانامہ اور پنڈورا پیپرز بھول جائیں گے۔ لاہو رکے مرکزی اور مہنگے ترین کاروباری مراکز میں سرکاری اراضی اونے پونے دینے سے لے کر چند سو روپے کے عوض قیمتی جگہیں منظور نظر افراد کو الاٹ کرنے تک ایک لمبی فہرست ہے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اقربا پروری میں ان کا ہاتھ کتنا کھلا تھا۔
ارکانِ اسمبلی سے لے کر سرکاری افسران تک‘ چہیتوں اور لاڈلوں سے لے کر سہولت کاروں تک‘ اہم اداروں سے تعلق رکھنے والوں سے لے کر قانون اور انصاف کے علم برداروں تک‘ نہ جانے کتنے پردہ نشینوں کے نام ریکارڈ میں دفن ہیں۔ اکثر نے تو الاٹمنٹ کو خفیہ رکھنے اور بدنامی کے ڈر سے ریکارڈ بھی ادھر اُدھر کروانے سے گریز نہیں کیا۔ ریکارڈ جلانے یا غائب کروانے کی حد تک تو وہ کامیاب ہیں‘ لیکن اُن جائیدادوں‘ پلازوں اور پلاٹوں کو کیسے جھٹلائیں گے جن کے وہ خود اور ان کی آل اولاد بینی فشری ہے۔
کاش!ماضی میں ہونے والی لوٹ مار اور بندر بانٹ کا سراغ لگانے کے لیے بھی ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن قائم کردیا جائے ۔اگر ایسا ہوگیاتو بخدا عوام اور احتسابی ادارے نہ صرف پانامہ پیپرز‘ بے نامی جائیدادیں، بوگس اکاؤنٹس اور ٹی ٹیاں بھول جائیں گے بلکہ ان پردہ نشینوں کے نام بھی منظر عام پر آ سکیں گے جو کئی دہائیوں سے اس ملک میں شرفا اور اشرافیہ میں شامل ہوچکے ہیں۔ شریف برادران ہوں یا اس دور میں ان کی قریبی حلیفوں سمیت سرکاری بابو اور اہم سرکاری و غیر سرکاری شخصیات‘ سرکاری زمین کے ایک انچ کا حساب نہیں دے سکتے‘ یہاں تو اپنی اتھارٹی برقرار رکھنے کے لیے پوری اتھارٹی کی چولیں ہلا دیں۔ چلتے چلتے بتاتا چلوں کہ ترقیاتی ادارے میں لوٹ مار کا جو آغاز شریف برادران نے کیا تھاوہ تاحال اختتام سے محروم ہے اور ناجائز تعمیرات سے لے کر مال بنانے کے نئے اور جدید طریقوں تک کے ساتھ اتھارٹی قائم و دائم ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved