تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     27-10-2021

کنزیومر اِزم کا اندھا کنواں

بہت سے معاشرتی اور معاشی رجحانات ہمارے ہاں اب مزاج کا حصہ بن چکے ہیں۔ ہم اِن رجحانات کے جال میں ایسے پھنسے ہیں کہ اب نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت پنپ سکتا ہے جب تمام معاملات بہت حد تک یا عمومی سطح پر منطقی حدود میں رہیں۔ یہاں ایسا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا۔ لوگ ہر معاملے میں حد سے گزرنے کی تمنا کے حامل دکھائی دے رہے ہیں۔ بات معاشرت کی ہو یا معیشت کی، لوگ منطقی حدود میں رہنے کو شاید اپنی توہین محسوس کرنے لگے ہیں۔ یہ مایا جال دو چار سال کی پیداوار نہیں‘ کم و بیش چار عشروں کے دوران ہم نے اعتدال کی راہ سے الگ ہٹ کر چلنے کی جو عادت اپنائی ہے اُس کے ہاتھوں اب ہر طرف الجھنیں ہی الجھنیں دکھائی دے رہی ہیں۔ کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں جسے ہم ہر اعتبار سے متوازن یا معتدل قرار دے سکیں۔ اب یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ جو بگاڑ کم و بیش چار عشروں کے دوران پروان چڑھا‘ وہ دو تین برس میں تو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے میں سوچنے کی بات یہ ہے کہ تمام معاملات کو راتوں رات درست کرنے کی ہر کوشش کے نصیب میں ناکام ہونا ہی لکھا ہے۔ اور یہی ہو رہا ہے۔ جن چند معاشی و معاشرتی رجحانات نے ہمیں من حیث القوم شدید مشکلات سے دوچار کیا ہے اُن میں کنزیومر اِزم بھی شامل ہے۔ پاکستان بھر میں زر کی گردش کی رفتار بہت زیادہ ہے۔ لوگ کمائی کو تیزی سے خرچ کرنے کے عادی ہیں اور اس معاملے میں ''اصولوں پر سَودے بازی‘‘ کے لیے تیار نہیں! تنخواہ ملتے ہی سوچے سمجھے بغیر خرچ کرنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور پھر جب تک آمدن ٹھکانے نہیں لگ جاتی‘ اخراجات کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
دنیا بھر میں کنزیومر اِزم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ صنعتی اور تجارتی ادارے چاہتے ہیں کہ لوگ تیزی سے اپنی کمائی خرچ کر ڈالیں۔ اس آپا دھاپی میں منصوبہ سازی کا خیال کسے رہتا ہے؟ لوگ بہت سے معاملات میں ایک دوسرے کو دیکھ کر محنت کی کمائی پانی کی طرح بہانے پر تُلے رہتے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں زر کی گردش کی رفتار پاکستان سے زیادہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ صرف کرنے کا رجحان یوں پروان چڑھا ہے کہ ایک دنیا یہ تماشا دیکھ کر حیران ہے۔ کسی بھی معاشرے میں زر جتنی تیزی سے گردش کرتا ہے اُتنی ہی تیزی سے قیمتیں بھی بڑھتی ہیں۔ اگر لاگت میں اضافہ نہ ہو رہا ہو اور دیگر عوامل بھی متوازن حالت میں ہوں تب بھی قیمتیں محض اس لیے بڑھتی جاتی ہیں کہ اشیا کی طلب بڑھنے پر اُن کی رسد میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ آج عام پاکستان بہت سے معاملات میں کسی جواز کے بغیر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔ اِسی کو تو کنزیومر اِزم کہتے ہیں۔ کاروباری ادارے ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جن میں لوگ سوچے سمجھے بغیر اور بسا اوقات بالکل غیر ضروری طور پر بھی خرچ کرتے ہیں۔ تشہیر کاری کے شعبے کی حقیقی کامیابی اِسی حقیقت میں مضمر ہے کہ لوگ نفسی طور پر اس قدر مغلوب ہوجائیں کہ بعض اشیا کو کسی جواز کے بغیر بھی اپنائیں، خریدیں، استعمال کریں۔ روپے کی گھٹتی ہوئی قدر نے بھی لوگوں کو زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی تحریک دی ہے۔ بچت میں اب لوگوں کو زیادہ فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔ عام خیال یہ ہے کہ دو تین ماہ کے دوران کچھ رقم بچالی جائے تب بھی کچھ فائدہ نہیں کیونکہ روپے کی قدر گھٹنے سے بعد میں خریداری گھاٹے ہی کا سودا ہوگی۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ کسی چیز کی خریداری کو محض ایک ہفتہ بھی ٹالیے تو گھاٹے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں لوگ سمجھ ہی نہیں پارہے کہ معاشی معاملات کی درستی کے لیے کون سی حکمتِ عملی اپنائیں، کس راہ پر گامزن ہوں۔
سیاسی اور معاشی غیر یقینی اِتنی زیادہ ہے کہ لوگ مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہونے کے باعث منصوبہ سازی کو ایک پختہ عادت کے طور پر اپنانے کے لیے تیار نہیں۔ بے یقینی اور مایوسی نے عام آدمی کے ذہن کو مستقبل کے حوالے سے اس قدر پژمردہ کردیا ہے کہ وہ محض یومیہ بنیاد پر جینے کی کوشش کر رہا ہے۔ چند ماہ کے دوران صورتِ حال اتنی خراب ہوئی ہے کہ یومیہ اجرت یا پھر ماہانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والوں کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کے دام روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں محدود آمدن والوں کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ گھر چلانے کے لیے منصوبہ سازی کس طور کریں۔ اخلاقی گراوٹ نے کنزیومر اِزم کی دال میں زبردست تڑکے لگائے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہم زیادہ سے زیادہ دنیا پرست ہوتے جارہے ہیں۔ ع
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست
کے مصداق ہم چاہتے ہیں کہ آج ہی کو سب کچھ سمجھ کر آج ہی جی لیں۔ اس بات پر یقین اب کم ہی رہ گیا ہے کہ اِس دنیا میں قیام عارضی نوعیت کا ہے اور یہاں اپنی میعاد پوری کرنے کے بعد ہمیں اگلے جہان میں جاکر یہاں کے قول و فعل کا پورا حساب دینا ہے۔ آج ہمارے ہاں اکثریت اُن کی ہے جو نہ صرف یہ کہ دنیا کی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کو بھی زندگی کے بنیادی مقاصد میں شمار کرتے ہیں۔ واضح منصوبہ سازی کے بغیر گزاری جانے والی زندگی کے باعث معیاری زندگی کے بارے میں سوچنے کی تحریک کا ملنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔ معاشرے کی عمومی روش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ کمائیے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کیجیے۔ زندگی محض اس بات کا نام تو نہیں کہ ہم کہیں سے کچھ پائیں اور صرف کردیں۔ کیا ہمیں بخشی جانے والی سانسیں محض اس لیے ہوسکتی ہیں کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے اُسے جھپٹنے کی بے تابی دکھائی جائے؟ کیا اس کائنات کے خالق نے ہمارے لیے زندگی کے مقصد کے طور پر صرف کمانے اور خرچ کرنے کو چُنا ہوگا؟ ایسا نہیں ہوسکتا۔ اِتنی شاندار کائنات میں ہمیں بہترین مخلوق کے طور پر محض اس لیے پیدا نہیں کیا گیا کہ ہم دن رات زیادہ سے زیادہ کمانے اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی دُھن میں مگن رہیں۔ یہ تو خالص حیوانی سطح ہے۔ صرف حیوانات کو اس بات کی اجازت ہے کہ کسی نہ کسی طور زندہ رہیں اور اپنی میعاد ختم ہونے پر دنیا سے چل دیں۔ ہمیں اِس سطح سے بہت بلند ہوکر جینا ہے۔
ہمیں ایک قوم کی حیثیت سے کنزیومر اِزم کے اندھے کنویں سے باہر آنا ہے۔ یہ کام ہمارے لیے کوئی اور نہیں کرے گا یعنی نکلنے کی سبیل بھی ہِمیں کو کرنا ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے جینے کی ہر کوشش ہم سے منصوبہ سازی بھی مانگے گی اور توازن بھی۔ ہر معاملے میں اعتدال کی روش پر گامزن رہنے کی صورت ہی میں ہم کچھ کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ دنیا کچھ کی کچھ ہوچکی ہے۔ بیشتر معاشروں نے اپنے لیے راہِ عمل کا تعین کرلیا ہے۔ ترقی پذیر دنیا بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہم اب تک تیسری دنیا کا حصہ ہیں مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہمیں قدرت نے وہ تمام وسائل بخشے ہیں جو کسی بھی قوم کو بلند کرنے کے لیے درکار ہوا کرتے ہیں۔ بہترین قدرتی اور انسانی وسائل سے مالا مال ہونے کی بدولت ہم اپنے لیے کوئی بھی اچھی راہِ عمل منتخب کرکے اس پر یوں عمل پیرا ہوسکتے ہیں کہ دنیا بہ نظر رشک دیکھے۔ سوچے سمجھے بغیر خرچ کرتے جانے کی ذہنیت سے چھٹکارا پانے کی کوشش میں معیاری مطالعہ اور اہلِ دانش کی آرا سے استفادہ کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ہمارے ہاں اس حوالے سے میلانِ طبع برائے نام ہے۔ معاشرے کی عمومی روش دیکھتے ہوئے لازم ہے کہ اہلِ دانش سے ربط بڑھاکر کچھ سیکھنے کی کوشش کی جائے، معاملات کو اعتدال کی راہ پر گامزن کرنے کی سمت قدم بڑھایا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved