موجودہ حکومت نے اقتدار میں آتے ہی ایک طویل غوطہ لگایا۔50دنوں کے بعد برآمد ہوئی‘ تو انرجی پالیسی کا ایک مسودہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ یہ مسودہ مشترکہ مفادات کی کونسل کے سامنے پیش کیا گیا۔ اجلاس میں ایک نظرثانی کمیٹی قائم ہوئی۔ اب کمیٹی ایک غوطہ لگائے گی۔ کب برآمد ہوگی؟ کچھ پتہ نہیںاور یہ انرجی پالیسی بھی کیا ہے؟ کوئی بھی ڈیم‘ عمارت یا بجلی پیدا کرنے کی تعمیرات ہوں‘ ان کا ایک نقشہ یا بلیوپرنٹ بنتا ہے۔ انرجی پالیسی کسی بھی چیز کا بلیوپرنٹ نہیں۔ یہ ایک قابل مرمت چیزوں کی فہرست ہے۔ چوری بند کردو۔ کرپشن روک لو۔ جرمانے کر دو۔ سزائیں دے دو۔ وزیراعظم نوازشریف پہلے دو مرتبہ اقتدار میں آئے تھے‘ تو انہوں نے فوراً کھیل کا آغاز فرنٹ فٹ سے کیا۔ دونوں مرتبہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہی قوم کے سامنے آئے۔ اسے اپنے عزائم اور پرو گرام سے آگاہ کیا۔ بتایا کہ وہ کیا کچھ کرنے کے ارادے رکھتے ہیں؟ کون سے کام‘ کتنے دنوں میں کریں گے اور کون سے کام کرنے کے لئے انہیں زیادہ وقت درکار ہو گا؟ اور عوام کو کون سے کام کے لئے‘ کتنے دن انتظار کرنا ہو گا؟ مجھے یاد ہے ‘ جب وہ دوسری مرتبہ بھاری مینڈیٹ لے کر آئے‘ تو حلف اٹھانے کے بعد‘ انہوں نے جو تقریر کی‘ اس میں محض لفاظی نہیں تھی۔ انہوں نے بہت سے ٹھوس اور فوری اقدامات کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی بتا دیا کہ وہ اپنے یہ فیصلے فوراً ہی نافذ کر رہے ہیں۔ آج شاید کسی کو یقین نہ آئے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ جب وہ تقریر کر رہے تھے‘ تو ان کے تمام اعلانات پر عملدرآمد کے احکامات جاری کئے جا چکے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ ایک دن میں قریباً 64 آرڈر جاری کئے گئے تھے۔ جو وزیراعظم‘ سرکاری سست روی کے ستائے ہوئے عوام کواپنے پہلے ہی خطاب میں 64خرابیاں دور کرنے کی خوش خبری سنائے اور اس پر عملدرآمد بھی کر گزرے‘ تو اس کی ابتدا کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ اب کیا ہو گیا؟ اس مرتبہ بھی نوازشریف‘ بھاری مینڈیٹ لے کر اقتدار میں آئے ہیں۔ لوگوں کی پریشانیاں 1997ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ سرسری نگاہوں سے بھی گردوپیش میں دیکھا جائے‘ تو اس مرتبہ بھی ایک سو کے لگ بھگ فیصلوں کا اعلان کر کے ‘ ان پر فوری عملدرآمد کیا جا سکتا تھا اور عوام جو حکومتوں کی بے عملی سے بیزار ہوئے بیٹھے تھے‘ وہ اپنی نئی قیادت کو اتنی تیزرفتاری سے ایک سو کے لگ بھگ خرابیاں بلا تاخیردور کر کے دکھا دیتے‘ تو ایک مایوس قوم کے ذہنوں میں امیدوں کے کتنے چراغ روشن ہو سکتے تھے؟ لیڈر کا کام کیا ہوتا ہے؟ وہ مایوس ذہنوں کو حوصلوں اور امیدوں سے حالات پر قابو پانے کی ہمت دیتا ہے۔ وہ ان تاریک گوشوں پر‘ جو عوام کی نگاہوں سے اوجھل ہوں‘ روشنی ڈال کر دکھاتا ہے کہ آنے والے دنوں کے دامن میں‘ زندگی کے لئے کیسے کیسے امکانات موجود ہیں؟زندگی کو سجانے کے لئے کیسے کیسے پھول مہک رہے ہیں؟ یہاں مجھے ایک سیلز مین کا واقعہ یاد آ گیا۔ یورپ کی ایک شو کمپنی نے افریقہ میں مارکیٹ پیدا کرنے کے لئے سیلزمین منتخب کرنا تھے۔ انٹرویوز کے بعد دو امیدوار فائنل میں آ گئے۔ پہلے امیدوار سے سوال ہوا کہ ’’وہاں پر لوگوں کی اکثریت ننگے پائوں پھرتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے‘ وہاں ہمارے لئے مارکیٹ پیدا کرنے کے کتنے امکانات ہوں گے؟‘‘ امیدوار نے مایوسی سے سر ہلایا اور کہا کہ ’’ جہاں لوگ جوتے پہننا ہی نہیں جانتے‘ وہاں میں کیا مارکیٹنگ کروں گا؟‘‘ اسے فارغ کر دیا گیا۔ یہی سوال دوسرے سیلزمین سے کیا گیا۔ اس کا جواب تھا ’’اس سے اچھی مارکیٹ اور کہاں ملے گی؟ جہاں لوگوں کے پاس جوتے ہی نہیں‘ وہاں تو ہر کوئی میرا گاہک ہو گا۔ ہمارے تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘ اسے منتخب کر لیا گیا۔ قوموں کے حالات کو بھی اسی طرح دیکھا جاتا ہے۔ ایک اوسط درجے کا آدمی مشکل حالات کو دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے کہ میں ان حالات کو کیسے سنبھالوں گا؟ لیکن انہی حالات کو دیکھ کر ایک بڑا لیڈر یہ سوچتا ہے کہ ’’عوام کی خدمت کے لئے‘ اس سے بہتر حالات اور کیا ہو سکتے ہیں؟‘‘ ان حالات میں امکانات ہی امکانات ہیں۔ہر طرف مایوسی ہے۔ لوگ پچھلی حکومتوں سے بیزار ہو چکے ہیں۔ انہیں دوردور تک امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ لوڈشیڈنگ نے ان کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ دہشت گردی اور بیروزگاری سے لوگ تنگ آئے ہوئے ہیں۔ مہنگائی نے ان کی کمر توڑ رکھی ہے۔ یہی تو وقت ہوتا ہے ‘ جب کوئی رہنما اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ آپ تاریخ عالم میں کسی بھی بڑے لیڈر کے حالات زندگی کا مطالعہ کر دیکھیں۔ آپ کو یہی نظر آئے گا کہ بڑا اور اچھا لیڈر‘ بدسے بدتر حالات میں نمودار ہوا اور اپنی قوم کو مایوسیوں اور اندھیروں سے نکال کر اسے نئی امیدیں اور ولولے دیتا ہوا‘تعمیروترقی کی روشن راہوں پر لے آیا۔ قائد اعظمؒ کب آئے؟ جب برصغیر کے مسلمان تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔ گروہوں اور فرقوں میں بٹے ہوئے تھے۔ تنظیمی طور پر بکھرے ہوئے تھے۔ کوئی لیڈر نہیں تھا۔ کوئی جماعت نہیں تھی۔ بھاری ہندو اکثریت کا خوف ان پر طاری تھا۔ مایوسی انہیںہیبت ناک مستقبل کا پتہ دے رہی تھی کہ جب انگریز چلا جائے گا‘ تو ہندوئوں کی بھاری اکثریت انہیں کس طرح پیس دے گی؟ دشمن طاقتور تھے اور قوم پست ہمت ہو چکی تھی۔ یہ تھے وہ حالات‘ جن میں قائد اعظمؒ نے رہنمائی فراہم کی اور انہوں نے دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک قائم کر کے دکھا دیا۔دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور جاپان تباہ و برباد ہو چکے تھے۔ ان کی صنعتیں ‘ ان کی زراعت‘ ان کے باغات ‘ ان کی آبادیاں ہر طرف تباہی کے سوا کچھ نہیں تھا۔ جاپان‘ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایٹمی تباہ کاری کا نشانہ بنا۔ شکست کھانے کے بعد اگر ان ملکوں کی قیادتیں ‘ منظر سے اوجھل ہو کر قسمت بدلنے کے انتظار میں بیٹھ جاتیں‘ تو ان کا کیا بنتا؟ لیکن ان دونوں ملکوں کو باحوصلہ اور باعزم قیادتیں میسر آ گئیں۔ قوموں کو معاشی جادوگر نصیب ہوئے۔ جرمنی کی تعمیرنو کا معمار ڈاکٹر ایڈنائر تھا۔ جاپان کے نمایاں لیڈروں کے نام مجھے یاد نہیں رہ گئے لیکن تاریخ اس حقیقت کی شہادت دیتی ہے کہ کہ شکست خوردہ جاپان اور جرمنی کے لیڈروں نے‘ اس تباہی کو امید کی نظروں سے دیکھا اور سوچا کہ تعمیرنو کا کام ہمیشہ اجڑی ہوئی بستیوں میں ہی کیا جاتا ہے۔ ہمیں تباہ شدہ شہر اور فیکٹریاں ملی ہیں۔ ہم انہیں نئی طرز اور جدید ڈیزائنوں سے تیار کریں گے اور پھر دونوں نے اپنی اپنی قوموں کو مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال کر تعمیروترقی کے روشن راستوں پر ڈال دیا۔ آج اگر آپ دوسری جنگ عظیم میں فتح یاب ہونے والے ملکوں اور شکست خوردہ جاپان اور جرمنی کے شہروں میں جائیں‘ تو آپ دنگ رہ جائیں گے۔ جیتنے والے ملکوں کے شہروں میں فرسودگی اور شکستگی نظر آتی ہے‘ جیسے برطانیہ اور روس اور شکست خوردہ جرمنی اور جاپان کے شہر خوبصورت‘ جدید اور چمکتے دمکتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ فرق آپ فتح پانے اور شکست کھانے والے ملکوں کی سڑکوں اور ریل سروسز میں دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کا ابھی کچھ نہیں بگڑا۔ ہمارے لوگوں کے پاس سب کچھ ہے۔ صرف لیڈروں کی دی ہوئی مایوسیوں نے انہیں بے ہمت کر دیا ہے۔ باربار کی فریب کاریوں کی وجہ سے وہ اپنا اعتبار کھو چکے ہیں۔ موجودہ قیادت کو عوام نے بڑی امیدوں کے ساتھ چنا ہے۔ اگر آپ عوام کی خواہشوں اور تمنائوں کو دیکھنا چاہتے ہیں‘ تو انتخابی نتائج کو دیکھ لیجئے۔ آپ کو اندازہ ہو گا کہ عوام ہرگز مایوس نہیں ہوئے۔ وہ آج بھی امید رکھتے ہیں کہ ان کے حالات بدل جائیں گے۔ ان کی امیدوں میں جھانکنا ہو‘ تو الیکشن کے دنوں کو یاد کر لیجئے کہ عوام کس طرح دہشت گردوں کی دھمکیوں کو پیروں تلے روندتے اور اپنی جانوں پر کھیلتے ہوئے ووٹ ڈالنے آئے تھے؟ یہ ان کی امید تھی‘ جو انہیں گھروں سے نکال کر لائی اور یہ بھی ان کی امید تھی کہ انہوں نے جو بہترقیادتیں دستیاب تھیں‘ انہی کا انتخاب کیا۔ جن حکمرانوں نے انہیں مایوسی میں دھکیلا تھا‘ انہیں مسترد کر دیا اور جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ حالات کے تھپیڑوں نے انہیں بدل دیا ہو گا‘ ووٹوں کا رخ ان کی طرف ہو گیا۔ حالیہ انتخابات میں عوام نے دو سیاسی قیادتوں پر بھاری ووٹوں سے اعتماد کیا۔ ایک نوازشریف‘ جن کے بارے میں وہ سوچ رہے تھے کہ اب بدل گئے ہوں گے اور ایک عمران خان‘ جنہیں ابھی تک آزمایا نہیں گیا تھا۔ کیا پھر بھی یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ عوام کیا چاہتے ہیں؟ عوام ایک بدلا ہوا نوازشریف چاہتے ہیں‘ جس سے انہوں نے دوبارہ امیدیں وابستہ کر لی ہیں۔ عوام ایک نیا لیڈر آزمانا چاہتے ہیں‘ جس کا سیاسی ماضی کورے کاغذ کی طرح ہے۔ پھر بھی ان کی امیدیں پوری نہیں ہوتیں‘ تو قصور عوام کا نہیں‘ لیڈرشپ کی قدوقامت کا ہے۔حکومتیں قائم ہوئے 50دن ہو چکے ہیں۔ ان کی امیدیں پوری ہونے کی کوئی نشانی ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی۔ اب بھی نہ ہوئی‘ تو تاریخ کا سفر جاری رہتا ہے۔ لیڈر پیچھے رہ جائیں گے۔ عوام آگے بڑھ جائیں گے اور ہمیشہ کی طرح تاریخ سازی کرتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved