تحریر : سعد رسول تاریخ اشاعت     28-10-2021

’انکریڈیبل انڈیا‘ کاچکنا چور خواب

مودی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی‘ اور پوری وادی میں سخت کرفیو کے نفاذ کے دو سال سے زائد عرصے بعد ایسا لگتا ہے کہ دنیا بی جے پی کی فاشسٹ ہندوتوا حکومت کی حقیقت جان چکی ہے۔ کشمیر میں مودی کی مہم جوئی کے وقت حقائق سے لاعلم عالمی برادری کو 'انکریڈیبل انڈیا‘ کے نام پر گرویدہ بنا لیا گیا۔ پچھلی دو دہائیوں سے بھارت کو رواداری، جمہوری اقدار اور بڑھتی معاشی طاقت کے طور پر فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ خاص طور پر جب اپنے قریبی پڑوسیوں کے پہلو بہ پہلو رکھا گیا تو بھارت ایک ایسے خطے میں نخلستان کی طرح لگتا جو عدم رواداری کی لپیٹ میں ہو۔
اب یہ سب گزرے دور کی یاد کی طرح لگتا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں مودی کی فاشسٹ حکومت نے وادی کو حقِ رائے دہی سے محروم کیا، لاکھوں مسلمانوں کی شہریت منسوخ کی، دہلی اور گجرات کی سڑکوں پر لوگوں کو مارا پیٹا، آسام میں 'پولیس سٹیٹ‘ کا ماڈل نافذ کیا، کورونا وائرس کی وبا کا غلط انتظام کیا، کسانوں کو تنہا کیا، ایران (چابہار) کے ساتھ بھارت کے سٹریٹیجک تعلقات کو ختم کر دیا گیا، اس نے اپنے مضحکہ خیز میڈیا پر جنگی جنون کا ڈھول پیٹا، اور چین کے ساتھ تنازع میں اپنا علاقہ (دو درجن فوجیوں کے ساتھ) کھو دیا۔ مجموعی طور پر انکریڈیبل انڈیا کا تصور اب ختم ہو چکا‘ اور اس کی جگہ ایک نیا 'عدم برداشت والا بھارت‘ مودی حکومت کی پہچان بن چکا ہے۔ سچ یہ ہے کہ بھارت کی وجودی خود کشی دو سال پہلے شروع نہیں ہوئی تھی۔ برسہا برس سے ہندوتوا نسل پرستی کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے یہ اس مقام تک پہنچا ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
نئی صدی کے موڑ پر ایک روادار اور پھولتا پھلتا بھارتی معاشرہ ایشیا میں نمایاں ہونے کیلئے تیار تھا۔ ہم نے حسد کے ساتھ سرحد کے اس پار سے دیکھا کہ ایک جامع جمہوریت والے بھارتی چہرے نے دنیا بھر میں اتحادی پیدا کر لیے ہیں۔ تب پاکستان عدم برداشت، انتہا پسندی جیسے عفریتوں کا شکار تھا تو بھارت دنیا کو اپنے پیدا ہونے والے بہت سے مواقع سے آشنا کر رہا تھا۔ کشمیر کو بھلا دیا گیا تھا۔ یہاں تک کہ بھارت کے مسلمانوں نے بھی بھارتی خواب کا حصہ بننے کا انتخاب کیا تھا۔ پاکستان کو دہشتگردی کی پناہ گاہ کے طور پر پیش کرنے کی پالیسی کام کر رہی تھی‘ اور نئی امریکہ بھارت سٹریٹیجک شراکت داری جیوپولیٹیکل نتائج دے رہی تھی۔
پھر مودی آیا۔ کبھی وہ گجرات کے قصائی کے طور پر جانا جاتا تھا، پھر اس نے خود کو 'انکریڈیبل انڈیا‘ کیلئے ایک بھاگوان شے کے طور پر پیش کیا لیکن حقیقت میں یہ صرف برانڈنگ تھی۔ جمہوری آئیڈیالوجی کی محتاط ملمع کاری کے نیچے مودی کا ہندوتوا نظریہ حملہ آور ہونے کیلئے مناسب لمحے کے انتظار میں تھا۔ اور پھر، نئے چنائو کی مہم کے دوران وہ لمحہ ا گیا۔ پلوامہ کے 'فالز فلیگ‘ حملے کے بہانے مودی نے فروری 2019 میں پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ متحرک دائیں بازو کے ہندوئوں نے اس خیال کو پسند کیا اور مئی 2019 کے الیکشن میں اسے بھاری اکثریت دلائی۔ اس انتخابی کامیابی نے ہندوتوا کے غنڈوں کو یہ اختیار دے دیاکہ وہ اپنے نفرت کے نظریے کی مورچہ بندی کیلئے کھل کر اقدامات کریں۔ اس کے بعد اگست 2019 میں کشمیر کی خودمختارانہ حیثیت کو منسوخ کرنے کا ہدف سامنے آیا۔ بھارت کا دائیں بازو کا فاشسٹ نظریہ پوری دنیا کے سامنے تھا۔
فاشسٹ مودی یہیں نہیں رکا۔ اس کے بعد اس سے بھی زیادہ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون آیا‘ جو بھارت کے مسلمان تارکین وطن کی شہریت منسوخ کرتا ہے۔ پورے بھارت میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر اس اقدام کے خلاف جمع ہوئے تو مودی نے اپنی پالیسی میں مزید شدت پیدا کر لی اور اپنی جماعت کے غنڈوں کو مسلمانوں کو دہشت زدہ کرنے اور ان پر تشدد کرنے کی اجازت دے دی۔ دنیا بھر کے لوگوں نے جاننا شروع کر دیاکہ کشمیر کوئی واحد معاملہ نہیں ہے‘ مودی نسل پرست، مسلم مخالف اور اقلیت مخالف ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے بھارت، خاص طور پر دہلی اور اس کے آس پاس ہونے والی جھڑپوں نے، لاکھوں اقلیتی افراد (زیادہ تر مسلمان) کو بے گھر کردیا۔ یہ گھر ہندوتوا کے غنڈوں نے جلا کر راکھ کر دیئے تھے۔ راتوں رات یہ اقلیتیں اپنے ہی ملک میں بے گھر افراد کا ایشیا کا سب سے بڑا گروہ بن گئیں۔ بھارت کا شرمناک سیکولرازم بے نقاب ہوگیا۔
مودی ابھی اس دھچکے سے سنبھل نہیں پایا تھاکہ کورونا وائرس بھارتی ساحلوں پر پہنچ گیا اور غربت، نقل مکانی، بیروزگاری اور کمزور سماجی تحفظ کے ڈھانچے کے حوالے سے بھارت کی تمام تر خامیاں بے نقاب ہوگئیں۔ بھارتی آبادی کے ایک بڑے حصے (تقریباً 500 ملین اقلیتی افراد) نے جان لیا کہ مودی کی حکومت ان کی دشمن ہے۔ اس افراتفری کے دوران مودی حکومت نے ایک اور بڑی غلطی کردی: صرف 4 گھنٹے کے نوٹس پر پورے بھارت کو بند کردیا۔ اس کے بعد مزدور طبقے کا بڑے پیمانے پر خروج ہوا۔ لاکھوں خاندان، بغیر خوراک یا پناہ کے رہ گئے، جنہوں نے پورے ملک میں عملی طور پر سیکڑوں میل پیدل سفر کا فیصلہ کیا۔ اس تیزی سے نقل مکانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کورونا وائرس جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گیا اور دنیا نے اس عمل کو خوفزدہ ہوکر دیکھا۔ وائرس کے پھیلاؤ کا سامنا کرتے ہوئے مودی حکومت نے وہ ہتھکنڈے اختیار کیے جن کی وجہ سے وہ جانی جاتی ہے: اپنے مسائل کا مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرانا۔ بھارت میں تبلیغی جماعت کو بھی کورونا وائرس کے پھیلائو کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔
کورونا وائرس کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ مودی نے پاکستان کے ساتھ تنازعات کو ختم کرنے کی اپنی حکمت عملی کو ترک کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اس مقصد کیلئے مودی حکومت نے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ وہ طاقت کے ذریعے پورے کشمیر بشمول آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور اقصائے چن پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے‘ اور یہ کہ اس طرح وہ سی پیک کو اس کی شہ رگ سے کاٹ دے گی۔ اس طرح نہ صرف پاکستان بلکہ خطے میں چین کے مفادات کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا۔ چین نے طاقت کے ذریعے اپنا دفاع کرنے کا عزم کیا اور اپنی فوجیں وادی گلوان اور پینگونگ جھیل کے علاقے میں رکھنے کا فیصلہ کیا (جہاں سے بھارت کا آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان تک رسائی کا منصوبہ تھا)۔ اس تنازعہ کے نتیجے میں بھارت کو دو درجن سے زائد فوجیوں کے ساتھ ساتھ خاصے بڑے علاقے سے بھی محروم ہونا پڑا۔ چین نے بھارت کے دوسرے پڑوسیوں (نیپال اور بھوٹان سمیت) کو مودی حکومت کے خلاف کردیا، جبکہ بھارت کو سٹریٹیجک چابہار زاہدان منصوبے سے بھی نکال دیا گیا‘ اور مودی نے جن عالمی طاقتوں پر انحصار کیا تھا ان میں سے کوئی بھی اس کی مدد کے لیے نہ آیا۔ اس طرح، پچھلے دو سالوں کے دوران، مودی اور اس کے فاشسٹ ساتھیوں نے بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ صرف دو سالوں میں مودی کا بھارت اب ایک فاشسٹ ریاست کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے، جو اپنی اقلیتوں پر ظلم کرتی ہے‘ جس نے کورونا کے حوالے سے غلط منصوبہ بندی کی‘ جس نے ایک ایسے علاقائی تنازعہ کو ہوا دی جسے وہ جیت نہیں سکتی۔
جب مودی دوسری مدت کے لیے منتخب ہوئے تو ہر کسی کو توقع کی تھی کہ وہ دائیں بازو کی پالیسیوں کو نافذ کریں گے‘ لیکن کسی نے یہ سوچا تک نہ تھا کہ وہ بھارت کو عدم برداشت پر مبنی فاشزم کے کنارے پر پہنچا دیں گے‘ اور پھر اس کنارے سے چھلانگ لگا دیں گے۔ جب بھی بھارت کے اس دور کی مایوس کن تاریخ لکھی جائے گی، یہ مودی کو ایک ایسے شخص کے طور پر یاد رکھے گی جس نے اکیلے 'انکریڈیبل انڈیا‘ کے خواب کو چکناچور کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved