تحریر : عمران یعقوب خان تاریخ اشاعت     28-10-2021

تاریخ کی دہرائی اور مخفی علوم!

کہتے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن جتنی جلدی تاریخ پاکستان میں دہرائی جاتی ہے شاید اس کی مثال دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں ملے گی۔
نومبر 2017ء میں فیض آباد میں تحریک لبیک نے دھرنا دیا۔ اس دھرنے کا پس منظر سب کو معلوم تھا۔ پہلے سے دباؤ میں آئی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا گھیراؤ کیا جا رہا تھا۔ جب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اس جماعت کو متحرک کیا گیا تو آج کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے ان کے دھرنے کی حمایت کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے فیصلے میں پاکستان تحریک انصاف کی مقامی قیادت کے علاوہ شیخ رشید اور اعجازالحق کا ذکر بھی کیا، جو خفیہ اداروں کی رپورٹ کے مطابق اس دھرنے کی حمایت کرتے رہے۔ گولڑہ شریف میں ختم نبوت کے نام پر ایک کانفرنس کرائی گئی جس میں عمران خان شریک ہوئے اور تحریک لبیک کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ آج احتجاجی مارچ اور ممکنہ دھرنے کو روکنے کی ذمہ داری بحیثیت وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی ہے، انہوں نے عام انتخابات میں اپنے پوسٹرز پر مجاہد ختم نبوت لکھوایا اور مذہب کارڈ کو بھرپور استعمال کیا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اس احتجاج اور تحریک انصاف کی طرف سے اس کی حمایت کے بعد 'انقلابی اینکرز‘ نے بھی مجاہدین ختم نبوت کا روپ دھار کر مسلم لیگ (ن) اور اس کی قیادت کو دیوار سے لگایا۔ اس تحریک کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) کے کچھ ارکان قومی اسمبلی سے استعفوں کے اعلانات کرائے گئے اور مسلم لیگ ن کے خلاف انتخابی فضا قائم کی گئی۔ اب تحریک لبیک ایک بار پھر احتجاج پر ہے اور اگلا منظرنامہ بھی ماضی کے اوراق سے جھانکتا نظر آتا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے خلاف فضا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی رپورٹ ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہونے کے بعد شروع ہوئی اور اسے ڈان لیکس کا نام دیا گیا۔ اب پھر یہ فضا بن رہی ہے اور مقتدر حلقوں کی طرف سے ایک پیج کا تاثر پرزہ پرزہ ہو چکا ہے۔ 6 اکتوبر کو ایک اہم عہدے پر تقرر کا اعلان ہوا اور اس پر کھینچا تانی شروع ہوئی، 20 دن کی اس کھینچا تانی نے ایک پیج کا تاثر ختم کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اب معاملہ بظاہر حل کر لیا گیا ہے اور جس نوٹیفکیشن کا شدت سے انتظار تھا وہ سامنے آ چکا ہے لیکن کشیدگی کا تاثر برقرار ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی بلکہ حکومت کی طرف سے شعوری کوشش کی جا رہی ہے کہ کشیدگی کا تاثر برقرار رہے۔
اس نوٹیفکیشن کے آنے سے پہلے مخفی علوم اور اعدادوشمار کا چرچا رہا۔ نوٹیفکیشن آنے کے بعد بھی مخفی علوم کی کارستانیاں زبان زدعام ہیں اور اس نوٹیفکیشن کو اگلے ماہ کے جزوی چاند گرہن کی تاریخوں سے ملا کر دیکھا جا رہا ہے۔ مخفی علوم یا علم الاعداد سے مجھے کوئی لگاؤ ہے نہ ادراک، لیکن ایسے عوامل سے ہٹ کر یوں لگتا ہے کہ معاملات اب ٹکراؤ کی طرف جا رہے ہیں اور ایسے ٹکراؤ زیادہ دیر نہیں چلتے، چند ہفتے ہی فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس تجزیے کے ساتھ ایک بار پھر کوئی پراسرار عمل جوڑنے کی بات ہو تو 4 دسمبر کی تاریخ اہم لگتی ہے جب دنیا میں مکمل سورج گرہن ہوگا۔ سورج اور چاند گرہن کے ساتھ صدیوں سے توہمات وابستہ ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد ایسے توہمات پر یقین رکھتی ہے اور ان کا اعتقاد کی حد تک یقین ہے کہ گرہن سے بڑی بڑی تبدیلیاں نمودار ہوتی ہیں۔ پاکستان میں 1999ء میں سورج گرہن کے بعد دو ماہ کے اندر اس وقت کی حکومت ختم ہو گئی تھی۔
سورج گرہن کچھ کرے گا یا نہیں لیکن تصادم کی کیفیت یونہی چلتی رہی تو یقینا اس کا الزام 4 دسمبر کے گرہن پر ہی آئے گا۔ اگر مان لیا جائے کہ4 دسمبر کا گرہن حکومت کے لیے منحوس ہو سکتا ہے تو اگلے الیکشن اپریل یا مئی میں ممکن ہو سکتے ہیں۔ ان مہینوں میں بھی جزوی گرہن لگیں گے،30 اپریل 2022ء کا جزوی سورج گرہن پاکستان یا گرد و نواح میں نظر نہیں آئے گا اور اسے مغربی، جنوب مغربی امریکا، بحرالکاہل، بحر اوقیانوس اور انٹارکٹکا کے علاقوں میں دیکھا جا سکے جبکہ پندرہ سولہ مئی 2022ء کا جزوی چاند گرہن یورپ، ایشیا، افریقہ سمیت دنیا کے بڑے حصے میں دیکھا جائے گا اور یہ جزوی چاند گرہن ممکنہ طور پر پاکستان میں بھی دیکھا جا سکے گا۔ اگر پراسرار علوم پر یقین رکھنے والوں کی بات مان لی جائے تو اس حساب سے 4 دسمبر کے مکمل سورج گرہن نے اگر حکومت کے خاتمے میں کوئی کردار ادا کیا تو اپریل اور مئی انتخابی مہینے ہوں گے اور جزوی گرہن ان انتخابات میں بھی رنگ دکھائیں گے۔
مخفی علوم کے ماہرین کی مدد لینے والے سیاسی کرداروں کو اب دسمبر کی فکر کرنی چاہئے۔ فکر دو طرح کی ہو گی۔ حکومت میں بیٹھے پراسرار علوم پر یقین رکھنے والے حکومت بچانے کے لیے ماہرین کی خدمات لیں گے اور اپوزیشن بحرانوں میں ڈولتی حکومتی نیّا کو ڈبونے کے لیے 'بابوں‘ سے رجوع کرے گی۔ دسمبر اگر فیصلہ کن ہوا تو پھر اپریل اور مئی کی فکر ہر کسی کو ستائے گی اور اپنے اپنے زائچوں میں ممکنہ نحوستوں کو دور کرانے کے لیے عملیات کا نیا دور چلے گا اور اس بار چونکہ سب اقتدار کی فکر میں ہوں گے تو نحوستوں سے نجات کے چلّے سب کی ضرورت بن جائیں گے۔
پراسرار علوم پر یقین رکھنے والوں کے خیال میں گرہن ایک بلا ہے جو آسمان سے انسانوں کی تباہی کے لیے آتی ہے جس کو روکنے کے لیے ان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں لیکن اس کا راستہ چاند اور سورج نے روک کر اپنی قربانی دے دی ہے اور اس نے خود کو بلا کے منہ میں ڈال دیا ہے۔ ضعیف الاعتقاد لوگ یہ مانتے ہیں بلا چونکہ طاقتور ہے اور اس نے سورج اور چاند کو اپنے منہ میں لے لیا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ان کی مدد کی جائے۔ پرانے زمانے میں پہاڑی قبائل‘ جن تک علم کی روشنی نہیں پہنچی تھی‘ گرہن کے وقت ایک میدان میں جمع ہوکر ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے شور شرابا کرتے برتن ٹین وغیرہ بجاتے تھے تاکہ اس بلا کو کسی طرح اپنے سے دور کریں۔ بعض منچلے پتھر بھی پھینکتے تھے تاکہ اگر وہ شور شرابے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی تو وہ ان پتھروں کے خوف سے دور ہٹ جائے۔ اب ایسے مناظر تو کم ہی دکھائی دیں لیکن مخفی علوم میں مہارت کے دعویدار چلے کاٹتے ہیں، عام انسان کو ڈرا دینے والے عجیب و غریب عمل کرتے ہیں اور ان کی کمزوری سے کھیلتے ہیں۔
مجھے چونکہ ان مخفی اور پراسرار علوم پر یقین نہیں چنانچہ صرف یہ فکر ستا رہی ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کی خاطر کب تک بلیک میل کرتے اور ہوتے رہیں گے؟ کب تک تاریخ کو دہرایا جاتا رہے گا؟ کیوں ہر 10سال بعد جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے؟
حکمران جماعت 'ڈٹ کر کھڑا ہے کپتان‘کے نعروں کے پیچھے چھپ کر حالیہ تنازع کواپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کررہی ہے لیکن ایک شخصیت کو ذاتی دوستی کی وجہ سے قریب رکھنے کی کوشش کو اصولوں کی لڑائی کا نام دینا ابن الوقتی کے سوا کچھ نہیں۔ یہی جماعت باقی سب کو ملک کے ایک مضبوط ادارے کے دشمن کا تاثر دے کر مطعون کرتی رہی، جب تک مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہوا ادارے کے ساتھ اچھے تعلقات کی سینے پر سجے تمغے کی طرح نمائش کی جاتی رہی اب اپنے مفادات کی خاطر اسی ادارے کے سامنے ڈٹ جانے کا تاثر دینا طوطا چشمی اور مفاد پرستی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے؟؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved