کھیل کا میدان اب میدان جنگ سے کم نہیں۔ کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ جدید کھیل قدیم جنگوں کی تربیت یافتہ شکلیں ہیں۔ ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش اور اس کے طریقے۔ سالہا سال پہلے سے مقابلوں کی تیاری۔ حریفوں کی کمزوریوں اور انکے مضبوط پہلوؤں پر نظر۔ جوڑ توڑ‘ حربے‘ سازشیں‘ سب کچھ جنگوں کی طرح۔ میزائلوں اور ڈرونز کے اس دور میں حریف ایک دوسرے سے روبرو نہیں لڑتے‘ اسی لیے انسانی جبلت کی تسکین کھیلوں میں ہونے لگی ہے اور اب یہی میدان کارزار ہیں۔ اور معاملہ پاکستان اور بھارت کا ہو تو یہ دو ملکوں کے بیچ لڑائی سے زیادہ اعصاب شکن ہونے لگتا ہے۔ ہاکی ہو، کرکٹ ہو یا کوئی اور کھیل جشن، قہقہے، آنسو، نعرے اور بسا اوقات دل کے دورے ان کا حصہ بن گئے ہیں۔ پھر معاملہ ورلڈ کپ ٹی20 کا ہو تو یہ ہیجان اپنے عروج پر ہوتا ہے۔ 24 اکتوبر کو پاکستان اور بھارت ہی کیا، بہت سے ملکوں میں پاکستانیوں اور بھارتیوں کے تمام پروگرام، تمام مصروفیات منسوخ یا ملتوی ہو چکی تھیں۔ راستے وقت سے پہلے سنسان ہو چکے تھے کہ ہر شخص اپنی منزل پر پہنچنا چاہتا تھا؎
وہ ہوا تھی شام ہی سے رستے خالی ہوگئے
وہ گھٹا برسی کہ سارا شہر جل تھل ہو گیا
پاک بھارت میچ کوئی نیا نہیں‘ اور اس میں پاکستان کی جیت بھی کوئی انوکھی نہیں۔ بیسیوں بین الاقوامی مقابلوں میں، دونوں کے درمیان کرکٹ سیریز میں، بڑے ٹورنامنٹس میں پاکستان بھارت کو پچھاڑ چکا تھا اور بھارت نے بھی متعدد میچوں میں ہرایا۔ شارجہ میں ہونے والے مشہور ترین میچ اب تک لوگوں کو یاد ہیں جن میں پاکستان کا پلہ ہمیشہ بھاری رہا۔ دونوں ٹیمیں مختلف ادوار میں بحیثیت مجموعی ہم پلہ ہی رہیں۔ فاسٹ بولنگ کے شعبے میں پاکستان اور بیٹنگ کے شعبے میں بھارت کی برتری رہی اس لیے دونوں اچھی ٹیموں کی جیت کے امکانات تقریباً 50/50 ہوا کرتے تھے‘ لیکن اس کھیل میں تکلیف دہ اور سپورٹس مین سپرٹ کے بالکل خلاف موڑ اس وقت آیا جب بھارت نے پاکستانی میدانوں کو خالی کرنے کی سازشیں شروع کیں۔ کھیل کا میدان دشمنی سے الگ رہنا چاہیے تھا‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ کہتے ہیں محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے‘ لیکن اب اس میں نفرت کو بھی شامل کر لینا چاہیے۔ نفرت کے اس کھیل نے کرکٹ کے کھیل کو بھی لہو رنگ پہنا دیا۔ اس گھناؤنے کھیل سے بھارت کو بہت سے مطلوبہ مقاصد بہرحال حاصل ہوگئے۔ کرکٹ کے میدان اجڑ گئے۔ پاکستان میں بین الاقوامی ٹیموں کی آمدورفت معطل ہوگئی اور کھلاڑیوں کیلئے امکانات محدود ہوگئے۔ دوسری طرف آئی سی سی‘ جو بین الاقوامی کرکٹ کی سب سے بڑی تنظیم تھی‘ میں بھارتی اثرورسوخ نے بھی پاکستان کے ساتھ متعصبانہ سلوک شروع کردیا۔ یہ پاکستانی کرکٹ کیلئے مشکل دور تھا‘ لیکن راستے نکالنے والے راستے بنا لیتے ہیں۔ امارات میں کھیل کے میدان سج گئے۔ پھر پاکستان سپر لیگ شروع ہوئی اور اس نے بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی۔ کھلاڑیوں کو عالمی کھلاڑیوں کے ساتھ ربط ضبط اور کھیلنے کے مواقع ملنے لگے اور یہ بھارت کی بڑی شکست تھی۔
پاک بھارت مقابلوں کے بیچ بہت سے عناصر خود بخود شامل ہو جاتے ہیں لیکن ہم پرانے مسائل اور واقعات کو چھوڑ بھی دیں تو گزشتہ دس سال کے معاملات کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسے میں پاکستانیوں کا یہ شبہ بھی اپنی جگہ درست ہے کہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کی ٹیموں کے دوروں کی منسوخی بھی اسی پس پردہ ہاتھ کی کرمفرمائی ہے۔ دوسری طرف بھارتی ٹیم کو یہ تمامتر مواقع میسر رہے اور اس نے تیزی سے اپنی پرفارمنس بہتربنالی۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے اندر کرکٹ سمیت تمام کھیلوں کا نظام بہتر بنانے کی کوششوں نے بھی بھارت کو کھیلوں میں اچھے کھلاڑی دیے اور بین الاقوامی کھیلوں میں اس کی کارکردگی بہتر ہوتی گئی۔
24 اکتوبر کا پاک بھارت کرکٹ میچ اس پس منظر کے بغیر نہیں دیکھا جا سکے گا۔ اکثر مبصرین حتیٰ کہ سابقہ پاکستانی کھلاڑیوں کی رائے یہی تھی کہ بھارت کی جیت کے امکانات ستر فیصد سے زیادہ ہیں۔ بہت کم لوگ اسے برابر کا مقابلہ قرار دے رہے تھے‘ اور اس کی وجوہات بھی تھیں۔ زیادہ مسئلہ پاکستان کے باؤلنگ اٹیک کا تھا جس میں سارا بوجھ شاہین آفریدی پر آ پڑا تھا۔ اچھی کارکردگی کے باوجود کوئی دوسرا باؤلر میچ ونر شمار نہیں کیا جارہا تھا۔ میچ کی تفصیلات بیان کرنا یہاں غیر ضروری ہوگا لیکن ابتدا ہی سے پاکستانی ٹیم کی باڈی لینگویج اس کے پُراعتماد اور پُرسکون ہونے کی گواہی دے رہی تھی۔ وہ ڈر کر یا دب کر نہیں بلکہ جیتنے کیلئے کھیل رہے تھے اور یہ کیفیت ان کی جیت تک برقرار رہی جبکہ بھارتی ٹیم پریشر میں کھیلی اور اس کی کوئی میچ پلاننگ نظر نہیں آرہی تھی۔ ٹاس ہارنے سے ان کی بدقسمتی شروع ہوئی جو آخری گیند تک جاری رہی۔ بابر اعظم اور رضوان نے کمال اننگز کھیلی۔ اس کم عمری میں اور اتنے بڑے میچ میں انہوں نے اپنے بڑے کھلاڑی ہونے کا ثبوت دیا کہ وہ کسی بھی طرح کے پریشر میں محسوس نہیں ہوئے۔ دونوں نہ صرف ناٹ آؤٹ رہے بلکہ انہوں نے کوئی چانس بھی نہیں دیا۔ ایک مدت کے بعد قابل اعتماد اوپنرز پاکستان کو میسر آئے ہیں اور یہ پاکستان کی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اسی طرح فیلڈنگ بھی عمدہ رہی اور کیچ ڈراپ نہیں کیے گئے۔ ایک موقع پر جب میچ پاکستان کی گرفت میں تھا، اوور تھرو سے بننے والے اضافی رنز پاکستان کو بہت مہنگے پڑ سکتے تھے لیکن مجموعی گرفت نے پاکستان کو آزمائش میں پڑنے نہیں دیا۔
بابر اعظم نے کمال کپتانی کی اور کمال اننگ کھیلی۔ ایک زمانے سے ایک زمانہ ان کی تعریفیں کر رہا ہے اور وہ ہر بار خود کو ان کا حق دار ثابت کرتے رہے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ بڑا لیکن منکسرالمزاج کھلاڑی نظر آیا اور یہی معاملہ رضوان کا بھی تھا۔ بھارتی ٹیم کو ہر شعبے میں آؤٹ کلاس کر دینے کے بعد بھی وہ کسی ہوا میں دکھائی نہیں دئیے۔ ویرات کوہلی بلا شبہ بڑے بیٹسمین کھلاڑیوں میں ہے لیکن اس میچ میں اس نے اپنی کپتانی کا اچھا تاثر نہیں چھوڑا۔ کوہلی کی وہ تصویر وائرل ہوئی جس میں وہ رضوان اور بابر اعظم کے ساتھ کھڑا ہنستا اور مبارک دیتا نظر آتا ہے۔ دیکھنے میں یہ ہارنے والے کپتان کی فراخ دلی کی علامت لگتی ہے لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ کیا پاکستان کے خلاف کوہلی کا ریکارڈ جس میں متعدد میچوں میں وہ فاتح رہا ہے، ایسی ہی فراخ دلی ظاہر کرتا ہے؟ کیا تاریخی طور پر بھارت کی ٹیم کھلے دل کا مظاہرہ کرتی رہی ہے؟ اور اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ کیا بھارت نے کبھی پاکستان کے معاملات میں، جس میں کھیل کے معاملات بھی ہیں، کشادہ دلی کا مظاہرہ کیا ہے؟
مجھے خوشی ہوتی اگر یہ سب مصنوعی نہیں حقیقی ہوتا‘ لیکن بدقسمتی سے اوپر کے تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہیں۔ سو یہ سمجھنا کہ راتوں رات اس طرز عمل میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہوگئی ہے، خوش فہمی ہوگی۔ اگر یہ تبدیلی واقعی ہو، اور اس کے پیچھے دکھاوا نہ ہو، تو پاک و ہند کے کروڑوں لوگوں کو دلی خوشی ہوگی لیکن جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے، فراخ دلی اور کشادہ دلی جیتنے والی ٹیم اور کپتان کے حصے ہی میں رہے گی۔ بابر اعظم اور رضوان مکمل طور پر بھارت کو پچھاڑ دینے کے بعد جس انکساری اور خوش دلی سے کوہلی اور دھونی سے ملے، وہی سپورٹس مین سپرٹ کا حقیقی چہرہ ہے۔ اصلی اور نقلی چہروں میں فرق پہچانیے صاحب!