تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     28-10-2021

’’کرکٹ مت کھیلئے‘‘

بھارت میں پھنسے ہوئے جبر و قہر کا شکار رہنے والے تیس کروڑ محکوم مسلمانوں کی زندگیوں اور ان کے روزگار اورکفالت کا سبب بننے والی املاک کی انتہا پسند ہندوئوں سے حفاظت کے نام پر میری آئی سی سی سے درد مندانہ گزارش ہے کہ اگر بھارتی حکومت چھوٹے دل و دماغ کے انتہا پسندوں کو اقلیتوں کے گھر اور کاروبار کو نشانہ بنانے سے نہیں روک سکتی تو پاکستان اور بھارت کے کرکٹ میچز کا سلسلہ بند کر دے یا اگر وہ اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکتے تو پھر انہیں چاہئے کہ وہ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کہیں بھی اور کوئی بھی ہونے والا مقابلہ اپنے شیڈول سے حذف کرادیا کریں۔ بھارتی مسلمان، بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی زندگیوں، ان کی املاک، ان کے روزگار اور ان کی مساجد کو انتہا پسندوں پرمشتمل بھارتی معاشرے کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے سے بچانے کیلئے انہیں ایسا قدم اٹھانا ہی چاہیے ۔اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ان کیلئے ممکن نہیں تو پھر کرکٹ میچ شروع کرنے سے قبل بھارت میں افغانستان کی طرح نیٹو، ایساف اور اقوام متحدہ کی امن فوج کی تعیناتی لازمی قرار دی جائے جو وہاں کی اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنائے۔ کھیلوں میں ''سپورٹس مین شپ کے مظاہرے‘‘ کے حوالے سے ادا کیا جانے والا یہ جملہ دنیا کی مہذب اقوام کیلئے تو ہو سکتا ہے‘ بھارت جیسے انتہا پسند معاشرے کیلئے نہیں کیونکہ اب کھیل کے احترام کا تصور انتہا پسند بھارتی معاشرے میں مردہ ہو چکا ہے۔بھارت سمجھتا ہے کہ ہر مقابلے کا نتیجہ اس کی شکست نہیں بلکہ عظیم الشان فتح کی صورت میں نکلنا چاہئے ورنہ وہ مقابل سے مشابہت رکھنے والوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا اپنا حق سمجھے گا۔
دبئی کے کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان کے خلاف T20 میچ کاآخر ی اوور بھارتی بائولر محمد شامی نے ابھی مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ پورے بھارت کے گلی کوچوں، سڑکوں اور مسلم محلوں پر انتہا پسندوں نے لاٹھیوں، چھریوں اور آتشیں اسلحے سے حملے شروع کر دیے تھے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ہزاروں کی تعداد میں مسلح غنڈے کیسری جھنڈے لئے اپنے ہی وطن میں بسنے والے مسلمانوں کی دکانوں، گاڑیوں اورروزگار کیلئے کھڑے کئے گئے لوڈرز کو تباہ و برباد کرنے کیلئے چیختے چلاتے ہوئے کونوں کھدروں سے نکل کھڑے ہوئے اور جیسے ہی کسی گاڑی، کسی پک اپ اور لوڈرز کے بارے انہیں شبہ گزراکہ یہ کسی مسلمان کا ہو سکتا ہے تو اسے ڈنڈوں، ٹھوکروں اور لاٹھیوں سے اس طرح توڑنا پھوڑنا شروع کردیا جیسے انہیں یقین ہو کہ بھارت کی دبئی کے سٹیڈیم میں ہونے والی شکست میں اس گاڑی، اس لوڈر کا بھی ہاتھ تھا۔ گزشتہ کچھ عرصے سے مسلمانوں کے حوالے سے بھارت سے جس قسم کی وڈیوز موصول ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر انسانیت کانپ جاتی ہے۔ مسلمانوں کو گاڑیوں سے اتار اتار کر اس طرح ڈنڈوں کی بارش سے ان کا قیمہ بناتے ہوئے قتل کیا گیاکہ انسانیت شرما جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی بھی داڑھی والے کو دیکھتے ہی انتہا پسندوں کے غول کے غول اس پر اس طرح جھپٹ پڑتے ہیں کہ ان پر ہلاکو، چنگیز اور ہٹلر کی اولادہونے کا گمان ہو نے لگتا ہے۔
وہ وقت گزر گیا جب کرکٹ اور سپورٹس کو شرفا کا تفریح کا سامان کہا جاتا تھا۔ اب تو بھارت نے ا س کھیل کی عزت اور وقار کو اس طرح اپنے پائوں تلے مسلتے ہوئے اس کا نام ونشان تک داغدار کر دیا ہے کہ بھارت کی ہر محکوم اقلیت اس کے نام سے تھر تھرانے لگتی ہے۔ میرے استاد محترم گوگا دانشور نے آئی سی سی کیلئے یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ ٹیموں کے مابین کسی بھی سطح پر میچ کھلانے کے بجائے دونوں ٹیموں کو ایک ایک نمبردے دیا کرے تاکہ بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں شکست کی صورت میں ایک ارب پینتیس کروڑ کی آبادی والے انتہا پسند معاشرے میں تیس کروڑ مسلمانوں کے گھر بار، ان کی گاڑیاں، ٹھیلے اور جانیں محفوظ رہیں۔ میچ ہارنے کے بعد جس طرح پنجاب اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں تعلیم کے سلسلے میں بسنے والے کشمیری طلبہ پر انتہا پسندوں کے جتھوں نے حملہ کیا اور جس طرح بھارت بھر میں ان حملوں کی پذیرائی کی گئی‘ وہ انسانیت کے منہ پر ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ثبت ہوجا نے والا وہ بد نما داغ ہے جسے دیکھ کر ہر وہ قوم شرم سے پانی پانی ہو تی رہے گی جس میں انسان اور انسانیت کی ذرا سی بھی رمق باقی ہو گی ۔ بھارت بھر میں بسنے والے ہزاروں مسلمانوں کو لوہے کے راڈوں سے مارتے ہوئے ان کے بازو اور ٹانگیں توڑ کر انہیں زندگی بھر کیلئے معذور کر دیا گیا، دہلی کے ایک علاقے میں ہونے والی آتشزدگی کو بنیاد بنا کر مسلمانوں کو غدار، ملک دشمن اور نجانے کیا کچھ کہا گیا، بھارتی کھلاڑی محمد شامی کے خلاف یہاں تک مہم چلائی گئی کہ ان کے گھر کے باہر ''غدار‘‘ تک لکھ دیا گیا جبکہ میچ ہارنے کے بعد کھلاڑیوں کے گھروں پر حملہ تو بھارت کی پرانی روایت ہے۔ بھارتی میڈیا میچ کے بعد پاکستان کی فتح پر خوش ہونے والے کشمیری اور پنجاب کے لوگوں کے چہرے میڈیا پر چلا چلا کر مطالبہ کر رہا ہے کہ ان ''دیش درہوں‘‘ کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے، یہ صرف مطالبہ نہیں کیا جا رہا، مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف پاکستان کی کامیابی کا جشن منانے والے سرینگر کے گورنمنٹ میڈیکل کالج اور شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے طلبہ کے خلاف انسدادِ دہشت گردی کے مقدمات بھی دائر کیے گئے ہیں جس کی پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے مذمت کرتے ہوئے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کوآئی سی سی کی ہنگامی میٹنگ بلا کر اس کے سامنے وہ سینکڑوں وائرل وڈیو زرکھنا ہوں گی جن میں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو کرکٹ میچ ہارنے پر انتہا پسندوں کی جانب سے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایسی وڈیوز دیکھنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ شاید یہی وجہ تھی کہ کرکٹ کے ہر و رلڈکپ میں پاکستانی ٹیم بھارت سے ہارجایاکرتی تھی‘ غالباً اسے یہ خوف رہتا تھا کہ ا س کے جیتنے کے بعد بھارت میں محکوم ان کے مسلمان بہن بھائیوں کو انتہا پسند معاشرہ آگ اور خون میں نہلا دے گا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے بھارت کی صفائیاں دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انتہا پسندوں کی اکثریت اَن پڑھ اور کم تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل ہے۔ ایسے میں ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ جنابِ والا! سوشل میڈیا کے ذرائع پر بھارتیوں کی اجارہ داری یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ یہ لوگ کس قدر تعلیم یافتہ ہیں۔ اس سلسلے میں فیس بک کی جو چند داخلی تحقیقاتی دستاویزات سامنے آئی ہیں‘ ان سے پتا چلتاہے کہ کمپنی کی جانب سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور تشدد پر اکسانے والے مواد کو صارفین تک پہنچنے سے روکنے کا عمل صاف اور شفاف نہیں ۔ نیویارک ٹائمز سمیت متعدد جریدے اس مسئلے پر بات کر رہے ہیں، وال سٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ نے اس بات کو بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ فیس بک کی طرف سے جان بوجھ کر بھارت میں اپنے پلیٹ فارمز سے نفرت انگیز مواد کو نہیں ہٹایا جاتا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اورآر ایس ایس ان سے ناراض ہو جائیں۔ اردو‘ جو اب ''صرف مسلمانوں‘‘ کی زبان بن گئی ہے‘ سے بھارت کے انتہا پسند معاشرے کی شدید نفرت کا عالم دیکھئے کہ بھارت کی ایک گارمنٹس کمپنی کواس وقت لینے کے دینے پڑ گئے جب انتہا پسندوں کی جانب سے اسے محض اس جرم میں دھمکیاں دی جانے لگیں کہ اس نے اپنے کپڑوں کی مارکیٹنگ کرنے کیلئے اپنے اشتہارات میں ہندی کے بجائے اردو کا لفظ ''جشن‘‘ کیوں استعمال کیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق آر ایس ایس سمیت بھارت کی انتہا پسند تنظیموں کو غصہ ہے کہ کمپنی نے بھارتی معاشرے کے رسم و رواج سے متعلق اردو زبان کیوں استعمال کی۔
بھارت کی گلیوں‘ بازاروں اور سڑکوں پر مسلمانوں کولوہے کے راڈوں اور ڈنڈوں سے قیمہ بنانے والی وڈیوز کوئی جا کر اُن کو بھی دکھائے جو یہ سبق دیتے نہیں تھکتے کہ '' آلو گوشت ہم بھی کھاتے ہیں اور بھارتی بھی‘‘، یہ وڈیوز دکھا کرایسے تمام لوگوں سے پوچھا جانا چاہئے کہ حضور! پاکستان کی سرحدیں فقط ایک لکیر نہیں بلکہ خون کا دریا ہیں جو ہر وقت بھارت کے انتہا پسندوں کے ہاتھوں سے ٹپکنے والے خو ن سے بھرا رہتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved