پاک فضائیہ کے شاہین ہمیشہ سے ملک کے دفاع میں پیش پیش رہے ہیں‘اس کے علاوہ امدادی سرگرمیوں میں بھی پاک فضائیہ نے ہمیشہ اپنا کردار ادا کیا؛ تاہم اگر ہم تاریخ کے اوراق پر نظر ڈالیں تو شاہینوں کا ایک ایسا کارنامہ بھی ہے جس سے بہت سے لوگ خصوصاً نئی نسل میں واقف نہیں۔ وہ کارنامہ ہے 1967ء کی عرب‘ اسرائیل جنگ میں پاک فضائیہ کا کردار۔ یہ ایک ایسا روشن باب ہے جس کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اس جنگ میں پاک فضائیہ کے شاہینوں نے بھی حصہ لیا تھا اور اسرائیل کے ہوش اڑا دیے، انہوں نے اسرائیل کو ایسا سبق سکھایا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔ عرب‘ اسرائیل جنگ کے دو ہیروز کا تذکرہ میں آج کے کالم میں کروں گی تاکہ نئی نسل اپنے ہیروز کو پہچان سکے اور اپنے اسلاف کے ماضی کوفراموش نہ کرے۔ کبھی کبھی مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہمارا میڈیا ایسے ہیروز پر ڈرامے اور ٹیلی فلمز کیوں نہیں بناتا، خیر اس پر پھر کبھی بات ہو گی‘ اس وقت اُن دو ہیروز پر بات کرنا زیادہ اہم ہے جن میں سے ایک سقوطِ ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش چلے گئے تھے۔
پاکستان ایئرفورس کے پائلٹ ایئر کموڈور عبدالستار علوی (ستارۂ شجاعت اور ستارۂ امتیازِ ملٹری) اور ونگ کمانڈر سیف الاعظم (ستارۂ شجاعت) دو ایسے ہیروز ہیں جواسرائیل کے خلاف لڑے اور ایسا خوب لڑے کہ مثال قائم کردی۔ عبد الستارعلوی 4 نومبر 1944ء کو جالندھر میں پیدا ہوئے تھے‘ ان کے والد بھی آرمی میں تھے اور دوسری عالمی جنگ میں شریک ہوئے، ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا بھی فورسز میں جائے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان گوجرانولہ اور تھل میں رہائش پذیر ہوا۔ انہوں نے بنوں سے میٹرک کیا، ایف ایس سی ملتان سے کی، چونکہ ان کے والد فوج میں تھے اور ان کی پوسٹنگ مختلف علاقوں میں ہوتی رہتی تھیں‘ اس لیے ان کے شہر بدلتے رہتے تھے۔ 1963ء میں رسالپور اکیڈمی میں 40 جی ڈی پی پائلٹ کورس میں شمولیت اختیار کی اور 1965ء میں ایئر فورس میں کمیشن حاصل کیا۔ انہوں نے اپنی فلائنگ کی ٹریننگ کا آغاز اس وقت کے نئے اور جدید طیارے ٹی 37 سے کیا۔ 1965ء کی جنگ میں وہ سکواڈرن نمبر 2 کا حصہ تھے۔ اس جنگ میں بھی انہوں نے خدمات انجام دیں۔ ان کو اُس ٹیم کا حصہ بنایا گیا تھا جو میل رنر تھی۔ یہ ٹیم اہم معلومات کے تبادلہ پر مامور ہوتی ہے۔ عبدالستار علوی بیس ٹو بیس فلائی کررہے تھے، اس کے بعد ان کی ٹریننگ سیبر طیاروں پر ہوئی۔ وہ سرگودھا میں 23 سکواڈرن کا حصہ بن گئے۔ 1970ء میں ان کو عراق ڈیپوٹیشن پر بھیج دیا گیا اور انہوں نے عراقی پائلٹس کو ایس یو 7 اور مگ 21 طیاروں پر تربیت دی۔ 1971ء کی جنگ میں بھی انہوں نے بھرپور خدمات سر انجام دیں اور ملک کا دفاع کیا۔
اب ہم جائزہ لیں گے عرب‘ اسرائیل جنگ کا جس میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ شام اور اسرائیل کے مابین جنگ چھڑی تو پاکستان ایئر فورس کے 16پائلٹس نے اس جنگ میں حصہ لیا۔ ان کا سفر بہت دلچسپ تھا، پشاور سے کراچی‘ پھر بغداد سے دمشق۔ دمشق وہ گاڑیوں میں گئے۔ آدھے پائلٹس شام میں تھے اور آدھے مصر چلے گئے۔ شامی فضائیہ کے پاس پرانے مگ 21 تھے جبکہ اسرائیل کے پاس جدید فینٹم اور میراج طیارے تھے۔ تب بھی ہمارے پائلٹس نے ڈٹ کر جرأت اور بہادری سے ان کا مقابلہ کیا۔
پاک فضائیہ کی اس فارمیشن کا نام شہباز رکھا گیا تھا۔ یہ فارمشین آٹھ طیاروں پر مشتمل تھی۔ پاکستان ایئرفورس نے اسرائیل کے میراج اور فینٹم ایف 4 طیارے تباہ کئے تھے۔ اس فارمیشن کو عارف منظور کمانڈ کررہے تھے جبکہ دیگر پائلٹس میں آفتاب اقبال، عبد الستارعلوی، سلمان نبی، جاوید لطیف، حمید ملک، صفدر محمود اور ناصر بٹ شامل تھے۔ اس مشن میں اتنی احتیاط کی جارہی تھی کہ انگریزی میں بات کے بجائے اردو‘عربی‘ پشتو اور سرائیکی زبانوں میں پیغامات بھیجے جارہے تھے ؛ تاہم اس کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اسرائیلی ریڈار جدید تھے اور ریڈیوجام کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے؛ تاہم پاک فضائیہ کے شاہینوں نے اپنی قابلیت سے اسرائیلیوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا۔
عبد الستارعلوی نے معمول کے مشن کے دوران دیکھا کہ ان کی طرف اسرائلی میراج طیارے آرہے ہیں۔ انہوں نے اپنی فارمیشن کو یہ بات بتانا چاہی لیکن ان کا ریڈیو سسٹم اسرائیل کی طرف سے جام کردیا گیا‘ اس پر انہوں نے تنہا ہی لڑنے کا فیصلہ کیا اور فوری طور پر جوابی حملہ کرتے ہوئے ایک اسرائیلی طیارہ مار گرایا۔ یہ صورتحال دیکھ اسرائیل کا دوسرا طیارہ فوری طور پر پلٹ گیا۔ اسرائیل کو جب طیارہ مار گرانے کا علم ہوا تو وہ انگشت بدندان سوچ میں پڑ گیا کہ شام کے طیارے کون اڑا رہا ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کے پاس بھارت اور اسرائیل کے طیارے مار گرانے کا اعزاز ہے۔ عبد الستارعلوی نے اکیلے اسرائیل کی فارمیشن کا مقابلہ کیا اور اپنی فارمیشن کو حملے سے محفوظ رکھا۔ اس جرأت اور بہادری پر ان کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے تمغۂ شجاعت اور ستارۂ امتیاز ملٹری سے نوازا گیا۔ شام نے بھی ان کو فوجی اعزاز بسامِ شجاعت اور وسامِ فارس سے نوازا۔ 1975ء میں وہ وطن لوٹ آئے اور پاک فضائیہ میں اپنی خدمات جاری رکھیں۔ بعد ازاں ان کو ایف سیون پی ایئر کرافٹ کا پروجیکٹ ہیڈ بنادیا گیا۔ 1988ء میں ان کو پی اے ایف بیس رفیقی کی کمانڈ دی گئی اور1998ء میں وہ پاک فضائیہ سے ریٹائر ہوگئے۔ وہ ماشاء اللہ حیات ہیں‘ دعا ہے کہ اللہ ان کو صحت و سلامتی والی لمبی زندگی اور تندرستی دے، آمین! آپ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں، 2018ء میں ایئر کموڈور ر عبدالستار علوی نے اسرائیلی پائلٹ کی وردی اس وقت کے ایئر چیف سہیل امان کو پیش کی تھی جو اس اِس وقت ایئر فورس میوزیم میں موجود ہے۔ جس وقت فلائٹ لیفٹیننٹ عبد الستار علوی نے اسرائیل کا طیارہ گرایا تھا‘ پائلٹ طیارے سے ایجیکٹ کرگیا تھا، بعد ازاں پائلٹ کو جنگی قیدی بنالیا گیا تھا اور اس کا طیارہ اس وقت بھی شام میں موجود ہے جبکہ اس کی وردی طیارہ گرانے والے پائلٹ عبد الستار علوی کودی گئی تھی۔
ونگ کمانڈر سیف الاعظم مرحوم پبنا‘ مشرقی پاکستان کے علاقے فرید پور میں پیدا ہوئے تھے، انہوں نے تین ممالک میں خدمات سرانجام دیں جن میں پاکستان‘ عراق اور اردن شامل ہیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم پبنا سے ہی حاصل کی اور اس کے بعد سرگودھا میں پی اے ایف سکول میں داخلہ لے لیا۔ 1960ء میں پاک فضائیہ میں کمیشن حاصل کیا اور امریکا میں ٹریننگ کے دوران ایف 86سیبری (F-86 Sabre) طیاروں کی تربیت حاصل کی‘ وہاں ان کو 'ٹاپ گن‘ کا خطاب ملا تھا۔سیف الاعظم نے 1965ء کی جنگ میں بھارت کے طیارے بھی گرائے تھے جس پر ان کو ستارۂ جرات دیا گیا، انہوں نے بارہ گرائونڈ اٹیک مشن اڑائے۔ 1966ء میں وہ اردن چلے گئے اور رائل جارڈن ایئرفورس میں خدمات سرانجام دیں۔ عرب‘ اسرائیل جنگ میں انہوں نے تین اسرائیلی طیاروں کو تباہ کیا، ان کو ''لیونگ ایگل‘‘ کا خطاب ملا، اردن نے انہیں واسم الاستقلال اور عراق نے نوات الاشجاعت سے نوازا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد انہوں نے بنگلہ ایئر فورس میں شمولیت اختیار کرلی اور 1980ء میں ایئر فورس سے ریٹائرڈ ہوگئے اور بعد ازاں بنگلہ دیش اسمبلی کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے 1960ء سے 1971ء تک پاک فضائیہ میں خدمات سر انجام دیں۔ 2020ء میں 80 برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا اور انہیں ڈھاکہ میں سپردِخاک کیاگیا۔
عرب اسرائیل جنگ میں پاکستانی پائلٹس کی شمولیت اُس وقت ایک خفیہ مشن تھا‘ اس کی تفصیلات بہت بعد میں پبلک کی گئی تھیں، اسرائیلی پائلٹس نے خود بھی تسلیم کیا تھا کہ اس جنگ میں ہمیں محسوس ہو گیا تھا کہ ہمارے سامنے بہت ٹرینڈ پائلٹس ہیں۔ اب یہ حقیقت سب کے سامنے ہے تو ہمیں اپنے ہیروز کو ایک بار پھرسے خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ عرب اسرائیل جنگ کے ہیرو عبدالستارعلوی حیات ہیں ‘ان کے حوالے سے ٹی وی پر ڈاکیومنٹری اور لانگ پلے نشر ہونا چاہیے، اس ضمن پاک فضائیہ‘ پی ٹی وی اور وزیراطلاعات فواد چودھری اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ غازیوں کی قدر کریں‘ ایسے سپوت صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔