تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-07-2013

مظفر آباد کا کارزار

ایک عارضی سے اقتدارمیں بھی کیسی کشش ہے کہ ایک کے بعد دوجا رسوائی کے لیے بے تاب ۔ سب خوار و زبوں مگر کوئی عبرت نہیں پاتا۔ بھاگے چلے جاتے اور برباد ہو تے رہتے ہیں ۔ متاعِ دین وایماں لٹ گئی اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی دو برس ہوتے ہیں ، جب چوہدری عبدالمجیدسے ٹیلی فون پر ملاقات ہوئی ۔ آزاد کشمیر کا الیکشن پیپلزپارٹی نے جیت لیا تھا کہ مسلم کانفرنس دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی ۔ فاروق حیدر کی قیادت میں ایک گروپ میاں محمد نوازشریف سے آن ملااور ان کی پارٹی کا حصہ ہو گیا تھا۔ تدبیر میاں صاحب نے بھی بہت کی اور بڑی بھرپور مہم چلائی مگر زرداری صاحب کامران رہے کہ جوڑ توڑ میں ان کا ثانی کہاں ۔ نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا چوہدری عبدالمجید وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار تھے؛چنانچہ اخبار نویس ان سے ملاقات کا متمنی ۔ کمال کسرِ نفسی سے کا م لیتے ہوئے انہوںنے کہا : جہاں کہیں آپ موجود ہوں ، میں حاضر ہو تا ہوں ۔ اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں یارِ عزیز یٰسین ملک کے اعزاز میں کسی نے کھانے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ وہیں وہ تشریف لے آئے ۔ میں ان کی ترجیحات اور پروگرام پر بات کرنے کا آرزومندتھا ۔ ایک جملے کے کوزے میں انہوںنے دریا بند کر دیا : میں تو گڑھی خدا بخش کے مزارات کا مجاور ہوں ، اوّل وہاں جائوں گا ، اس کے بعد مدینہ منوّرہ ۔ وزیراعظم بنے تو لاڑکانہ کا قصد کیا ۔ دوسال اقتدار میں گزار دیے ، مدینہ منورہ مگر نہ جا سکے ۔ بیرسٹر سلطان محمود اول دن سے تاک میں تھے ۔ اس پیمان پر پیپلز پارٹی کا حصہ وہ بنے تھے کہ فتح نصیب ہوئی تو وزارتِ عظمیٰ انہیں سونپی جائے گی مگر وہ وعدہ ہی کیا، جو وفا ہو گیا۔ چوہدری یٰسین بھی امیدوار تھے اور اگر بنا دئیے جاتے تو کم از کم چوہدری مجید سے بہتر ہوتے۔ زرداری صاحب کو ایک ایسا شخص درکار تھا ، جو اشارہ ٔابرو پر حرکت میں آئے اور اپنی کوئی رائے نہ رکھتا ہو۔ پھر یہ ریاست اس طرح انہوںنے اپنی ہمشیرہ محترمہ فریال تالپور کے حوالے کردی ، جس طرح قدیم بادشاہ بعض راجواڑے سونپ دیا کرتے ۔ بیرسٹر سلطان محمود کو کہ میرپور کے جاٹوں کی نمائندگی کرتے ہیں ، گجرات کے چوہدری برادران سے کچھ امید وابستہ تھی۔ ان کے ہم قبیلہ ہیں۔ ایک شام ان کے اصرار پرمیں نے چوہدری پرویز الٰہی سے بات کی مگر وہ زرداری صاحب کے ایما پر چوہدری مجید کی حمایت کا ارادہ کر چکے تھے ۔ قاف لیگ ابھی ابھی مرکزی حکومت کا حصہ بنی تھی اور وہ صدرِ پاکستان کو ناراض نہ کرنا چاہتے تھے ۔ میں نے کہا : بیرسٹر صاحب ، سپیکر کا منصب آپ کو آسانی سے مل سکتاہے ، اسی پر قناعت کیجئے۔ برا سا منہ بنا کربولے : آپ بھی کمال کرتے ہیں ، میں وزیراعظم رہ چکا ہوں ، اب ایک کمتر عہدہ کیوں گوارا کروں ۔ دائو پیچ میں چوہدری مجید بیرسٹر کے مقابل ہیچ تھے ۔ چند منٹ سے زیادہ سلیقہ مندی سے بات بھی نہیں کر سکتے ۔ دو عوامل مگر ان کے خلاف تھے ۔ اوّل توزرداری صاحب کا ہاتھ ان کی پشت پر تھا۔ ان کا ہر حکم نیاز مندی سے وہ بجا لاتے تھے ، ثانیاً نون لیگ آزاد کشمیر کے صدر فاروق حیدر کو اس تماشے سے دلچسپی نہ تھی ۔ اب بھی نہیں تھی مگر ان کے ساتھی بیزار ہو گئے ۔ چوہدری مجید کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ اس معمولی وضع داری سے بھی محروم ہیں ، جو آزاد کشمیر کی سیاست کا خاصہ ہے ۔ کہا جاتاہے کہ جب کسی ضلع کے دورے پرتشریف لے جاتے تو افسروں کو طلب کرتے ہوئے ارشاد فرماتے : بلائو ، ان… کو۔ بغاوت کا منصوبہ سلیقے سے بنایا گیا اور رازداری کے ساتھ اس پر عمل ہوا ۔ اخبار نویسوں کو تب اطلاع ہوئی ، جب عدم اعتماد کی تحریک کا فیصلہ کیا گیا۔ نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے تو اس منصب کو بڑی توقیر انہوںنے بخشی تھی ۔ بعد ازاں میاں محمد نواز شریف نے چوہدری سرور اور پھر پرویز مشرف نے مولانا فضل الرحمٰن کو براجمان کر کے اسے تقریباً بے معنی کر دیا۔ کشمیر کی داخلی سیاست کا ذکر کرنا ہوتا تو نواب زادہ کہتے : ضلع مظفر گڑھ سے کم آبادی ہے اور تام جھام کے کیا کہنے ۔ باغیوں کی تعداد سرکاری لوگوں سے بڑھ گئی ہے ۔ منگل کو رات گئے کی اطلاع یہ تھی کہ پیپلز پارٹی کے 30میں سے 16ارکان بیرسٹر سلطان محمود سے جا ملے ہیں ۔نون لیگ کے گیارہ ارکان کے ساتھ وہ اکثریت ہو جاتے ہیں ۔ ا ن کے سوا سردار عتیق کی مسلم کانفرنس کے دو ارکان کی تائید بھی حاصل ہے ،جو اس جماعت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں ۔ ان کے گرامی قدر والد بزرگ سیاستدان سردار عبدالقیوم خان برسوں سے بستر سے لگے ہیں ۔ بڑھاپا بجائے خود سب سے بڑا مرض ہے مگر وہ دل کے عارضے کا شکا ر بھی ہیں ۔ ایم کیو ایم کے دو ارکان کی شمولیت سے اندازہ ہوتاہے کہ تبدیلی مقدر ہے ۔یہ لوگ بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا کرتے ہیں ۔ اقتدار سے محرومی کا خطرہ وہ کبھی مول نہیں لیا کرتے ۔ وزارت کے منصب پر فائز ایم کیو ایم کے ایک رکن کو پیر کی شام مظفر آباد میں سائیں سہیلی سرکارؒ کے مزار پر بھنگڑا ڈالتے دیکھاگیا۔ کیا اب بھی ان سے وزارت کا وعدہ ہے ؟ ہر چند بیرسٹر سلطان محمود کے وزیراعظم بننے پرکسی با خبر کو شبہ نہیں مگر وزیراعظم نواز شریف دخل دیں تو کھیل پلٹ بھی سکتاہے ؛اگرچہ بظاہر ایسے کوئی آثار نہیں ۔ سرحدی امور کے وفاقی وزیر قادر بلوچ ا س کھیل کے آدمی نہیں ۔ بیرسٹر سلطان محمود کے وزیراعظم بننے کا فائدہ یہ ہوگا کہ دو برس سے جاری لوٹ مار کا سلسلہ کم ہو جائے گا۔ روپیہ بٹورنے سے انہیں شغف نہیں ۔ انتظامی تجربہ رکھتے ہیں اور صورتِ حال کو قدرے بہتر بنا سکتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے اور چھور کو سمجھتے ہیں اور عالمی رہنمائوں سے ربط و ضبط کے ہنگام پاکستان اور کشمیریوں کا موقف ڈھنگ سے پیش کر سکتے ہیں ۔ رہے ان کے مشاغل تو واقفانِ حال کا کہناہے کہ اب اس میں اعتدال ہے ۔ باور کیا جاتاہے کہ فاروق حیدر پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے حکومت کا حصہ تو بنیں گے مگر کابینہ میں شامل نہ ہو ں گے ۔ مختصر سے عرصے میں جب وہ وزیر اعظم رہے ، انہوں نے کرپشن تحلیل کرنے کی بھرپور کوشش کی ، جو سردار عتیق کے زمانے میں معمول ہو گئی تھی ۔ وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھر رہے تھے مگر ان کے ساتھی ہی ان کی تاب نہ لا سکے ۔ پھر خفیہ ایجنسیوں سے بھی ان کی نبھ نہ سکی ۔ لا ابالی ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ ۔ دو برس سے مجھے چکمہ دے رہے ہیں کہ کسی دن مظفر آباد سے دیسی مرغیاں لا کر تمہاری ضیافت کروں گا۔ آزاد کشمیر کیا، دنیا بھر کی سیاست میں ایسا منفرد کردار شاید ہی کوئی دوسرا ہو ۔ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی پیپلز پارٹی مر رہی ہے ۔ تحریکِ انصاف منظم ہو سکے تو آزاد کشمیرمیں اپوزیشن کا کردار ادا کر سکتی ہے مگر وہ ابھی سے نڈھال ہے ، نئے آفاق کیسے دریافت کرے گی؟ ایک عارضی سے اقتدارمیں بھی کیسی کشش ہے کہ ایک کے بعد دوجا رسوائی کے لیے بے تاب ۔ سب خوار و زبوں مگر کوئی عبرت نہیں پاتا۔ بھاگے چلے جاتے اور برباد ہو تے رہتے ہیں ۔ متاعِ دین وایماں لٹ گئی اللہ والوں کی یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خوں ریز ہے ساقی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved