تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     29-10-2021

کرکٹ، چائے اور ’زیڈ‘

عالمی سیاست کی طرح‘ پاک بھارت کرکٹ بھی تاریخ دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ اتوار کو کھیلے جانے والے میچ میں جہاں پاکستان کو پہلی بار دس وکٹوں سے فتح نصیب ہوئی وہیں یہ بھارت کی ٹی ٹونٹی میچ میں دس وکٹوں سے پہلی شکست ہے۔ نیز یہ ایسا منفرد ریکارڈ ہے جو برابر تو کیا جاسکتا ہے‘ توڑا نہیں جاسکتا۔ اس سے پہلے‘ جب میچ فکسنگ نہیں تھی‘ سوائے ورلڈ کپ مقابلوں کے‘ پاکستان کو بھارت پر ہر طرح سے برتری حاصل رہتی تھی۔ ون ڈے کے بہت سارے مقابلے شارجہ میں ہوتے تھے جہاں پہلی وکٹ کے گرنے پر ظہیر عباس کھیلنے آتے تھے اور دوسری وکٹ گرنے پر جاوید میانداد آتے تھے۔ اس کے بعد زیادہ تر میچز میں یہ دونوں کھلاڑی ہی آخر تک کھڑے رہتے تھے۔ ظہیر عباس نے ایک دفعہ اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ چند گیندیں کھیلنے کے بعد ان کو گیند فٹ بال کی طرح نظر آنا شروع ہو جاتی تھی (مطلب بھارتی بائولرز کو کھیلنے میں کوئی دِقت محسوس نہیں ہوتی تھی)۔ وقت گزرتا رہا اور پھر میچ فکسنگ کا دور آ گیا،اس نئے دور نے بھارت میں کرکٹ کو عروج سے بھی اوپر پہنچا دیا۔ اگر آپ اس دور کے آغاز کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تو سمجھ لیں کہ یہ دور ایم ایس دھونی کے کپتان بننے کے بعد شروع ہوا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ بھارت نے اپنے ہاں ہونے والا ورلڈ کپ بھی مبینہ طور پر ''فکس‘‘ کر کے جیتا تھا۔ میں پہلے بھی یہ لکھ چکا ہوں کہ اس کا اعتراف سری لنکا کے ایک وزیر کھیل کھلے الفاظ میں کر چکے ہیں اور اگر ان کے اس الزام نما اعتراف میں جھوٹ کی کوئی گنجائش ہوتی تو بھارت یقینا ان پر مقدمہ کرتا یا کوئی مذمتی بیان ہی جاری کرتا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اسی طرح کا ایک حالیہ انکشاف پاک بھارت میچ سے پہلے ہونے والے ایک ٹی وی مباحثے میں‘ جس کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے‘سامنے آیا، جس میں شعیب اختر نے سابق بھارتی سپنر ہربھجن سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: آپ بہت زیادہ پیسہ لگا کر یہاں تک پہنچے ہیں۔
اتوار کو ہونے والے پاک بھارت میچ میں دس وکٹوں سے بھارت کی شکست اس اعتبار سے بھی منفرد رہے گی کہ اس میں پاکستانی بیٹسمینوں کا کوئی کیچ نہیں گرا، نہ ہی کوئی ایل بی ڈبلیو کی اپیل ہوئی، نہیں تو بھارت Review ضرور لیتا، یعنی پورے میچ میں پاکستانی اوپنرز نے بھارت کے کھلاڑیوں کو ذرا سا بھی موقع فراہم نہیں کیا۔ اس فتح کا یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ دس وکٹوں سے شکست اگرچہ پہلے بھی کئی میچز میں ہو چکی ہے مگر گزشتہ تمام میچز میں کوئی بڑی ٹیم کسی کمزور ٹیم کو دس وکٹوں سے شکست دینے میں کامیاب ہوئی یا ایسے مقابلے ہوم گرائونڈ پر جیتے گئے۔ اس سے پہلے 28 دفعہ کسی ٹیم نے اپنی مخالف کرکٹ ٹیم کو ٹی ٹونٹی میچز میں دس وکٹوں سے شکست دی ہے مگر 150سے زائد سکور اور کسی نیوٹرل گرائونڈ پر‘ پہلی مرتبہ کسی ٹیم نے ہم پلہ مخالف ٹیم کو دس وکٹوں سے شکست دی۔ اس تناظر میں یہ تا حال ٹی ٹونٹی کپ کی سب سے بڑی جیت اور سب سے بڑی شکست ہے۔ انہی ٹھوس اور ناقابلِ فراموش اعداد و شمار کی بنیاد پر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ اب پاک بھارت کرکٹ کی تاریخ بھی دو حصوں میں بٹ گئی ہے، ایک دور اس میچ سے پہلے کا تھا اور دوسرا دور اس میچ کے بعد کا شمار ہوگا۔
اس میچ کے نتیجے کے ساتھ کئی دیگر چیزیں بھی منسلک رہیں، جن میں ایک نمایاں بات اس میچ کو دیکھنے والے پاکستانی تماشائیوں کی تعداد تھی۔ اس کا ایک نیا ریکارڈ ٹیکنالوجی کی وجہ سے بنا۔ ایک مقامی ادارے کی ویب سائٹ پر اس میچ کو پندرہ کروڑ سے زائد لوگوں نے لائیو دیکھا؛ تاہم اس کے ساتھ لوگوں کی بڑی تعداد اس بات پر بھی احتجاج کر رہی ہے کہ سرکاری سپورٹس ٹی وی کی ویب سائٹ پر میچز نہیں چل رہے جس کی وجہ سے لوگوں کو لیپ ٹاپ اور موبائل وغیرہ پر میچ دیکھنے میں دقت پیش آرہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی کی ویب سائٹ سرکاری ٹی وی کے توسط سے ہی میچز دکھا رہی ہے۔ بات کی جائے سوشل میڈیا پر ہونے والے انتہائی پُر مغز اور تفریح سے بھرپور تبصروں کی تو انہوں نے میچ کا لطف دوبالا کر دیا۔ اس کے ذوق اور الفاظ میں نیوزی لینڈ کے خلاف جیت کے بعد مزید شدت آ گئی ہے۔ یہ تفریح بھرے تبصرے تو چلتے رہیں گے مگر ایک اہم تبصرہ بھارت والے میچ کے آخر پر ایک برطانوی کمنٹیٹر کا تھا جنہوں نے پاکستان کی جیت کے ساتھ ہی نیوزی لینڈ کے آخری وقت پر دورہ منسوخ کرنے کا ذکر بھی کردیا‘ حالانکہ یہ ایک سیاسی معاملہ تھا اور کمنٹری کرنے والے عمومی طور پر ایسا نہیں کرتے مگر برطانوی کمنٹیٹر کے تبصرے میں پاکستان کی طرفداری کی ایک واضح اور مثبت جھلک دیکھنے کو ملی جس پر پاکستانی شائقین ان کے شکر گزار ہیں۔
بات ہو رہی تھی تبصروں کی تو ایک پوسٹ علم الاعداد اور حروف تہجی کے حوالے سے تھی۔ سب سے پہلے لفظ ٹی ٹونٹی کے لفظ ٹی (T) کی تشریح اور تعبیر نکالی جا رہی ہے۔ اس کو TEAیعنی چائے سے تشبیہ دی جارہی ہے۔ آپ کو علم ہو گا کہ 27 فروری 2019ء کے فضائی معرکے کے بعد سے ''چائے‘‘ بھارت کی ایک دکھتی رگ بن چکی ہے۔ جب سے پکڑے جانے والے بھارتی پائلٹ ابھینندن کے منہ سے یہ جملہ نکلا کہ Tea is Fantastic، تب سے چائے بھارت کی قومی چڑ بن چکی ہے۔ اب ''ٹی‘‘ سے مراد ٹی ٹونٹی کے علاوہ چائے بھی مراد لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے دونوں اوپنرز کے ناموں کے حوالے سے کسی نے لکھا کہ چونکہ دونوں کے ناموں میں زیڈ (Z) آتا ہے اور یہ انگلش حروفِ تہجی کا آخری حرف ہے‘ اسی لئے دونوں نے بھارت کی ''اخیر‘‘ کر دی۔ اس مفروضے کی شدت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے کہ پاکستانی ٹیم میں تیسرے اور چوتھے نمبر پر کھیلنے والے بیٹسمینوں‘ محمد حفیظ اور فخر زمان‘ کے ناموں میں بھی زیڈ آتا ہے۔ یہاں یہ حوالہ بھی دلچسپی کا باعث ہو گا کہ لیجنڈ پاکستانی کرکٹر ظہیر عباس بھارت کے بائولرز سے آئوٹ نہیں ہو پاتے تھے، لہٰذا اس دور میں ہندو جوتشیوں کی جانب سے یہی منطق سامنے آئی تھی۔ بھارت میں چونکہ پنڈتوں اور جوتشیوں کا کافی اثر و رسوخ ہے اور ان کی بات کو کافی اہمیت دی جاتی ہے‘ اس لیے کافی حکومتی اور سرکاری کاموں میں ان کی مداخلت کی خبریں عام ہیں۔ آج کل بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے متعلق بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ کسی جوتشی کے کہنے پر ہی موصوف نے اپنی داڑھی بڑھانا شروع کی ہے۔ اس کے علاوہ‘ رواں سال ہونے والا کنبھ کا میلہ‘ جو بھارت میں کورونا کا سپر سپریڈر ثابت ہوا تھا‘2022ء میں منعقد ہونا تھا‘ مگر جوتشیوں کے کہنے پر اسے ایک سال پہلے‘2021ء میں کروایا گیا؛ تاہم یہ فیصلہ بھارت کو الٹا پڑ گیا۔ اب بات پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی‘ جن کا نام عظیم مغل شہنشاہ بابر کے نام پر ہے جس سے بھارت کی ہندو آبادی آج بھی خائف رہتی ہے۔
آخر میں ذکر کرتے ہیں سپر پاور چین کے بانی مائو زے تنگ کا‘ تو ان کے نام میں بھی زیڈ آتا ہے۔ بھارت نے اپنے تئیں اس وقت چین سے دشمنی مول لے رکھی ہے مگر یہ دشمنی اسی طرح کی ہے جیسے نشے میں دھت کوئی چوہا بلی سے بھڑنے کے لیے نکل کھڑا ہو۔ علم الحروف اور علم الاعداد کو ایک طرف رکھ کر دیکھیں تو بھارت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ عالمی سیاست میں امریکا کی طرف سے کھیلے جا رہے جنگی میچ سے باہر نکلنے کی کوشش کرے کیونکہ اس میں بھارت کی حیثیت کسی بال سے زیادہ کی نہیں ہے۔ امریکا کی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ اپنے مفاد کی حد تک ساتھ رکھنے کے بعد اپنے اتحادی ملکوں کو اور ان کے حکمرانوں کو بالکل اس طرح پھینک دیتا ہے جیسے کرکٹ میں مقررہ اووروں کے بعد گیند پھینک دی جاتی ہے، یا پھر کسی بڑے چھکے کے بعد گیند سٹیڈیم سے باہر چلی جائے تو اس کی جگہ فوری طور نئی گیند آجاتی ہے۔ عالمی سیاست کے میچ میں‘ عین ممکن ہے کہ امریکا سے پہلے چین ہی بھارت کو دس وکٹوں سے شکست دیدے کیونکہ چین ٹی ٹونٹی کے بجائے ایک ٹیسٹ میچ کی طرح بھارت کے گرد گھیرا بتدریج تنگ کر رہا ہے۔ اس میں شاید پاکستان بھی اس کا پارٹنر بن جائے اور پھر بھارت کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ زیادہ کون مارتا ہے، بالکل اُسی طرح جیسے پاکستان کے دونوں اوپنرز کا آپس میں بھی مقابلہ چل رہا تھا کہ زیادہ سکور کون کرتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved