ایک بلاگ کے حوالے سے طرح طرح کی کہانیاں زیرِ گردش ہیں۔ شنید ہے کہ مذکورہ مضمون سرکاری ٹی وی کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار سے لکھوا کر اپنے نام سے شائع کرایا گیا؛ تاہم اس پر کچھ کہنے سے بہتر ہے کہ مذکورہ ادارے کو بھیجے جانے والے نوٹس کے جواب کا انتظار کر لیا جائے، اس سے ساری صورتحال سے واضح ہو جائے گا۔ البتہ یہ کہنے میں کچھ حرج نہیں کہ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوروں پر پتھر پھینکنا مناسب نہیں۔ یہاں سیاست میں لوگوں کی نجی زندگی کو نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا اور متاثرہ شخص اگر کسی آڈیو یا ویڈیو کا چھوٹا سا کلپ بھی سوشل میڈیا پر شیئر کر دے تو پھر اخلاقیات کے ایسے ایسے درس دیے جاتے ہیں کہ لگتا ہے کسی نہایت نیک شخصیت کی عظمت اور شرافت کو لپیٹ میں لے لیا گیا ہے۔
بھارت کی پاکستان کے ہاتھوں ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میچ میں جو درگت بنی‘ اس پر بھارتیوں کو اس کے مقابلے میں تو شاید کچھ کم غصہ آیا ہو جتنا ہمارے کچھ سیاسی رہنمائوں کو آیا۔ جب اپنی کابینہ کے اراکین کے ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی سعودی عرب کے ہوٹل کے کمرے میں میچ دیکھتے ہوئے تصویر سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تو بھارت، مودی،امیت شاہ اور ہندوتوا کے پرچارکوں سے بھی زیادہ اس تصویر نے ایک سیاسی جماعت کے رہنمائوں کا پارہ آسمان کی بلندیوں پر چڑھا دیا۔ انہیں یہ بھی احساس نہ ہوا کہ بھلے مودی اور بھارت کے حوالے سے ان کے جو بھی جذبات ہوں‘ مگر پاکستانیوں کو مودی اور اس کے حواریوں کو شکست دینے میں جو مزا اور لطف آتا ہے‘ وہ دنیا کی تمام ٹیموں کو شکست دینے میں بھی نہیں آتا۔ ایک اپوزیشن رہنما نے وزیراعظم عمران خان کی تصویر‘ جو چند لمحوں میں دنیا بھر میں وائرل ہو گئی تھی‘ پر شدید غم و غصے کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ اسے ٹویٹر پر اس بیان کے ساتھ شیئر کیا کہ قوم بھوک سے مر رہی ہے اور یہ میچ پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ سیاست کے حوالے سے اپنے مخالفین کی زندگی پر بات کرنے کا معاملہ پہلی مرتبہ دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ آج سے 35 برس قبل اسی سوچ کے تحت اس وقت کی دو اہم سیاسی خواتین‘ جو رشتے میں ماں بیٹی تھیں‘ کی تصویریں ایڈٹ کر کے ان کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ چند روز ہوئے ایک خاتون رہنما نے ایک پوسٹنگ کے حوالے سے سربراہِ حکومت پر طنز کرتے ہوئے ایک اہم شخصیت پر جادو ٹونے کا الزام لگایا۔ اس حملے کا جواب دیتے ہوئے تحریک انصاف کے چند ترجمان ہر وقت ہاتھ میں پکڑے جانے والے ایک بڑے سے گلاس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے جوابی وار کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ جادو ٹونے کی جیتی جاگتی مثال تو ان کے ہاتھ موجود وہ گلاس ہے جس کی ابھی تک کوئی توضیح پیش نہیں کی جا سکی ۔
دیکھا جائے توپاکستان کے ہر حکمران کا کوئی نہ کوئی پیر اور کوئی روحانی استاد رہا ہے۔ پیر پگاڑا ہماری سیاست کا معروف کردار رہے ہیں اگرچہ سیاسی طور پر وہ بہت بڑی قوت تو نہ تھے البتہ روحانی طور پر وہ کافی لوگوں خاص طور پر سیاسی اشرافیہ کے پیر سمجھے جاتے تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے با با جی دھنکا کی کہانی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جوان کوچھڑیاں مارتے ہوئے ان کو کسی متوقع کامیابی کی نوید سنایا کرتے تھے۔ بابا دھنکا سے نواز شریف کو اتنی عقیدت تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے بابا دھنکا کی درگاہ کے پاس ہیلی پیڈ بھی بنوایا تھا جبکہ اس سے قبل یہاں تک پکی سڑک بینظیر بھٹو اپنی حکومت کے دوران بنوا چکی تھیں۔ پھر جنابِ زرداری اور ان پیر صاحب کے قصے بھی اخبارات کی زینت بن چکے ہیں جن کے کہنے پر ایک بار صدرِ محترم ایوانِ صدر چھوڑ کر کراچی اور دبئی میں رہائش پذیر ہو گئے تھے کیونکہ انہیں پیر صاحب نے پہاڑوں کے پاس جانے سے منع کیا تھا، اسی طرح ایک بار کافی عرصے تک صدرِ محترم اپنے شہر کراچی جانے سے گریزاں رہے کیونکہ پیر صاحب کی جانب سے سمندرسے بچ کر رہنے کی تاکید کی گئی تھی۔
مشہور ہے کہ بھٹو کیس کے دوران جب بیگم بھٹو اور بی بی ہر طرف سے مایوس ہو گئیں تو ان کے کچھ مشیروں نے انہیں روحانی طاقتوں سے مدد کا مشورہ دیا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو شاہ عبدا لطیف بھٹائی کے مزار پر گئیں جہاں ایک مجذوب بابے نے نصرت بھٹو سے کہا ''تمہارے سر کا سائیں نہ رہے تو بھی بادشاہت تمہارے گھر ہی رہے گی‘‘ اس وقت اس بات کو سنجیدہ نہیں لیا گیا مگر بعد ازاں جب بھٹو خاندان کی سیاست میں جگہ بننے لگی تو بے نظیر بھٹو اکثر اپنی نجی محافل میں اس مجذوب کی بات کو یاد کرتی تھیں۔ پیپلز پارٹی کے کئی رہنما اس بات کے گواہ ہیں۔ اسی طرح 1993ء کے انتخابات کے دوران فیصل آباد آمد پر ایک مقامی سیاسی شخصیت نے بی بی کی ملاقات ایک نجومی سے کروائی جس نے بی بی کو بتایا کہ حکومت تو آپ کی بن جائے گی مگر آپ کا اقتدار صرف ڈھائی سال تک چلے گا۔ کہتے ہیں کہ بے نظیر یہ سن کر چونک پڑیں اور بتایا کہ اس سے پہلے ایک خاتون (گوجر خان میں مقیم) نے بھی انہیں یہی کہا تھا۔ اسی طرح چکوال کے قریب جاتلی میں مقیم ''سائیں ببلی‘‘ سے بھی بی بی کی ملاقات ہوئی تھی جس کی گواہی راجہ پرویز اشرف اور ناہید خان بھی دیں گے جو اس ملاقات میں بی بی کے ہمراہ تھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بھی بی بی نے ناہید خان کے ذریعے اس مجذوب سے رابطہ قائم رکھا تھا اور بعض ذرائع کے مطابق ایک پلنگ بھی اسے تحفے میں بھجوایا تھا۔
پاکستان میں کوئی بھی اہم کام مثلاً کاروبار یا رشتے ناتے کرتے وقت استخارہ کرنا ایک عام روایت ہے اور جن کا ان چیزوں پر اعتقاد ہوتا ہے‘ وہ اپنا ہر کام ہی استخارے سے شروع کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں جنرل ضیاء الحق کے بھٹو کو پھانسی دینے سے قبل رحم کی اپیل مسترد کرنے کی مثال بھی پیش کی جاتی ہے کیونکہ بعض ذرائع کے مطابق‘ صدر ضیا نے یہ فیصلہ استخارے کے حوالے سے ہی کیا تھا۔ یہ تو پاکستان کی باتیں ہیں، لیکن اگر کوئی جدہ میں بیٹھ کر جادو ٹونا کرے یا کروائے، یا بابوں اور عاملوں کی مدد لے تو یہ خبریا اطلاع یقیناسب کیلئے بہت ہی عجیب اور نا قابل یقین ہو گی لیکن یقین کیجئے کہ ایسا ہو چکا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آج سے بیس برس قبل‘ جلا وطن ہوئے شریف خاندان نے جدہ پہنچنے کے چند ماہ بعد پاکستان سے عاملوں،بابوں اور ٹونے ٹوٹکے کے ماہرین کے ایک گروہ کو انتہائی پُرکشش معاوضوں پر سعودی عرب بلایا تھاجن میں سے کچھ کے نام سے تو میں خود بھی بخوبی واقف ہوں۔ پاکستان سے بلائے گئے ان ماہرین میں کچھ خواتین بھی شامل تھیں۔ جدہ میں بلائے گئے ان عاملوں اور بابوں کے سامنے ایک ہی ٹارگٹ رکھا گیا تھاکہ کچھ ایسا عمل کریں کہ پرویز مشرف سے جان چھوٹ جائے۔آج اعلیٰ شخصیات کے بارے میں باتیں کرنے والوں کو پہلے ایک نظر خود پر ڈال لینی چاہیے ۔
یہ تونہیں کہا جا سکتا کہ موجودہ حکومت کو کسی کی نظر لگ گئی ہے یا یہ کسی عمل کے زیر اثر ہے البتہ اگر کسی کے پاس کوئی روحانی طاقت، کوئی پُراثر عمل ہے تو وہ آگے آئے اور دوگنا قیمت پر سبزیاں بیچنے والوں،پٹرول پمپوں پرکم ماپنے والوں، دکانوں پر کم تولنے والوں، کھانے پینے کی ہر شے میں ملاوٹ کرنے والوں،دو نمبری چھوڑ‘چھ نمبری چیزوں کو اول درجہ کی کہہ کر فروخت کرنے والوں، رشوت کے بغیر کوئی بھی کام نہ کرنے کی قسم کھانے والے سرکاری اہلکاروں، تھانے، کچہریوں میں عوام کو روندنے والوں، کسٹم، امیگریشن، نارکوٹکس، تعلیم، زراعت، انہار اور ایکسائز سمیت ہر محکمے میں گھسے ہوئے فائلیں کتر کتر کھانے والے چوہوں اور چھپکلیوں کو کسی بڑے پنجرے میں بندکرکے نچوانا شروع کر دے تو یقین کیجئے کہ ایسے بابے اور ایسا عامل کی راہ میں پوری قوم پلکیں بچھائے گی۔