تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     30-10-2021

ایک بریگیڈیئر کی یادیں …(7)

جنرل سعید قادر تفصیلات بتا چکے کہ کیسے شریف خاندان پر جنرل ضیاالحق اچانک مہربان ہو گئے‘ کیونکہ انہیں بھٹو کی سیاست کے خلاف پنجاب میں لیڈر چاہئے تھا تو بریگیڈیئر محمود کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ حکام یہ نیا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پہلے بھٹو کو ختم کیا گیا اور اب پیپلز پارٹی کو ختم کرنا تھا اور اس کا آغاز پنجاب سے ہو چکا تھا۔ ایک صنعت کار‘ جسے بھٹو سے ذاتی پُرخاش تھی‘ کو نہ صرف فیکٹری واپس کی گئی بلکہ کروڑوں روپوں کا نقصان بھی معاف کیا اور دو ہزار سے زائد ورکرز بھی نکال دیے گئے۔ الٹا پچاس کروڑ کے قریب گرانٹ بھی دی گئی کہ وہ اپنا کام شروع کریں۔ رہی سہی کسر جنرل غلام جیلانی خان نے گورنر پنجاب لگ کر پوری کر دی جب اتفاق فاؤنڈری کے مالک کے ایک بیٹے کو‘ جس کے پاس تجربہ یا مطلوبہ تعلیم بھی نہ تھی‘ پنجاب جیسے بڑے صوبے کا پہلے وزیرِ خزانہ اور پھر وزیرِ اعلیٰ لگا دیا گیا۔ اس کام میں جنرل غلام جیلانی خان پیش پیش تھے اور پیچھے جنرل ضیاالحق کی حمایت اور مارشل لاء کی طاقت تھی۔
برسوں بعد کتاب لکھتے ہوئے بریگیڈیئر محمود نے لکھا کہ اب وہی شریف خاندان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ انہوں نے ان تھک محنت سے اندرون اور بیرون ملک جائیدادیں بنائی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے‘ ساری دولت جنرل ضیاالحق اور جنرل جیلانی خان کی مرہون منت تھی کہ وزیرِ خزانہ اور وزیرِ اعلیٰ بن کر اپنے خاندان اور کاروبار کو فوائد پہنچائے گئے جس میں کسی رُول یا قاعدے کا خیال نہ رکھا گیا اور اس طرح وہ ارب پتی بن گئے۔ فاؤنڈری کے مالکان کی خوش قسمتی تھی کہ جنرل ضیا اور ان کا دشمن سانجھا نکل آیا جس کا نام بھٹو اور پیپلز پارٹی تھا‘ جس کا انہوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔ جنرل ضیاالحق تو چند برس بعد طیارہ حادثے میں جاں بحق ہو گئے لیکن نواز شریف کی سیاست اور اتفاق فاؤنڈری کا کاروبار چل نکلا۔ انہیں اب جنرل ضیاالحق یا جنرل جیلانی کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی۔ وہ اب اپنے پائوں پر کھڑے ہو چکے تھے۔
دریں اثنا میجر جنرل نصیراللہ بابر بھٹو کی وفاداری کی بھاری قیمت چکا رہے تھے‘ اگرچہ جنرل بابر کو اس سے فرق نہیں پڑتا تھا۔ انہیں گرفتار کر کے ہری پوری جیل میں قید کر دیا گیا۔ بریگیڈیئر محمود ملنے جیل گئے تو انہیں ہمت اور حوصلے میں پایا۔ جنرل کو کسی قسم کی پشیمانی نہیں تھی۔ بعد میں انہیں پشاور جیل بھیج دیا گیا۔ بریگیڈیئر محمود پشاور جیل بھی ملنے گئے۔ اتفاقاً لیفٹیننٹ کرنل پیر عابد جیل سپرنٹنڈنٹ تھے جو بریگیڈیئر محمود کے کورس میٹ تھے۔ انہوں نے جنرل نصیراللہ بابر سے ملنے کی اجازت دے دی حالانکہ حکومت نے انہیں منع کیا ہوا تھا کہ جنرل نصیراللہ بابر سے کوئی ملاقات نہیں کر سکتا۔ جب بریگیڈیئر محمود جیل پہنچے تو وہاں پہلے ہی کرنل عابد کے پاس جنرل نصیراللہ بابر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بہت ریلیکس موڈ میں تھے اور انہوں نے کہا: کرنل پیر عابد اصرار کرتے رہتے ہیں کہ میں جیل میں ان کے سرکاری گھر پر رہائش رکھوں لیکن میں نے انکار کر دیا۔ کرنل پیر عابد نے کہا کہ انہیں مارشل لاء حکام کی کوئی پروا نہیں‘ وہ چاہتے ہیں کہ جنرل نصیراللہ بابر ان کے ساتھ گھر میں رہیں لیکن جنرل بابر نے ان کی سرکاری پوزیشن ذہن میں رکھتے ہوئے انکار کر دیا۔
چند دنوں بعد ان کے ایک قریبی دوست کرنل ریٹائرڈ ایم ظفر خان‘ جو لندن میں رہتے تھے‘ پاکستان آئے اور کہا کہ وہ جنرل نصیراللہ بابر سے پشاور جیل میں ملنا چاہتے ہیں‘ جس پر بریگیڈیئر محمود نے اپنے ایک اور کورس میٹ لیفٹیننٹ جنرل جہاں داد خان کو فون کیا‘ جو کور کمانڈر پنڈی تھے‘ اور ان سے کہا کہ وہ ان مہمانوں کو جنرل بابر سے ملاقات کی اجازت مارشل لاء حکام سے لے کر دیں۔ جنرل فضل الحق اُس وقت گورنر سرحد تھے اور وہ سخت ہدایات دے چکے تھے کہ کسی کو جنرل بابر سے ملاقات کی اجازت نہیں حالانکہ جنرل فضل الحق اور جنرل نصیراللہ بابر ایک دوسرے کو پاکستانی ملٹری اکیڈمی اور پھر رائل انڈیا ملٹری کالج کے دنوں سے اچھی طرح جانتے تھے۔ اس کے باوجود جنرل فضل الحق نے حکم دیا کہ جنرل بابر سے جیل میں کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اگلے دن کور کمانڈر جنرل جہاں داد نے فون کر کے بریگیڈیئر محمود کو بتایا کہ انہیں اور لندن سے آئے کرنل ظفر خان کو جیل میں قید جنرل بابر سے ملنے کی اجازت گورنر فضل الحق نے دینے سے انکار کر دیا ہے۔ بریگیڈیئر محمود ڈپریس تھے کہ ایک کور کمانڈر بھی اس قابل نہ تھا کہ وہ اپنے ریٹائرڈ فوجی دوست کی جنرل نصیراللہ بابر سے جیل میں ملاقات کرا سکتا۔ کچھ دن بعد بریگیڈیئر محمود کو کسی کرنل ظفراللہ کا فون آیا جن کا تعلق آرمی ایوی ایشن سے تھا۔ کرنل صاحب بولے: سنا ہے آپ جنرل بابر سے جیل میں ملنا چاہتے تھے؟ آپ کل میری یونٹ تشریف لائیں میں آپ کی ملاقات جنرل بابر سے کرا دوں گا۔ بریگیڈیئر محمود نے حیرانی سے پوچھا: جو کام ایک سرونگ کور کمانڈر نہیں کرا سکا وہ ایک کرنل کیسے کرے گا؟ کرنل ظفراللہ بولے: دراصل جو ملٹری کورٹ جنرل بابر کا کورٹ مارشل کررہا ہے میں اس کا سربراہ ہوں‘ میں عدالت میں آپ کو ملزم کے دوست کے طور پر داخل کرا دوں گا۔ بریگیڈیئر محمود کرنل ظفراللہ کی اس بہادری پر بڑے متاثر ہوئے اور ساتھ ہی کرنل ظفراللہ کو کہا کہ وہ یہ کام نہ کریں کیونکہ اس سے وہ مشکلات میں گھر جائیں گے۔ اس پر کرنل ظفراللہ نے جواب دیا: بریگیڈیئر صاحب اگر آپ لوگ نہ آئے تو میں ساری عمر اپنے ضمیر کے سامنے شرمندہ رہوں گا۔ بریگیڈیئر محمود کو اس افسر پر فخر محسوس ہوا کہ اب بھی فورسز میں ایسے افسران موجود ہیں جو جنرل نصیراللہ بابر اور دیگر ریٹائرڈ ملٹری افسران کو عزت دینے کی خاطر اپنے کیریئر قربان کرنے پر تیار ہیں۔ اگلے دن بریگیڈیئر محمود اور کرنل ظفر پشاور اس یونٹ میں پہنچ گئے جہاں جنرل نصیراللہ بابر کا کورٹ مارشل ہونا تھا۔ کرنل ظفراللہ‘ بریگیڈیئر محمود اور کرنل ظفر خان کو ایک کمرے میں لے گئے جہاں جنرل بابر بیٹھے کورٹ مارشل کی سماعت شروع ہونے کا انتظار کررہے تھے۔ انکے خلاف سماعت شروع ہو چکی تھی۔ بریگیڈیئر محمود اور کرنل ظفر حیرانی سے عدالتی کارروائی دیکھ رہے تھے۔ جنرل بابر کا ٹرائل شروع ہو چکا تھا جو سکون سے اپنے خلاف اس انٹیلی جنس ایجنسی کے گواہ کے الزامات کی تفصیل سن رہے تھے۔ کرنل ظفراللہ نے گواہ سے پوچھا: کیا جنرل نصیراللہ بابر نے پاکستان کے خلاف کوئی تقریر کی؟ جواب ملا: ہرگز نہیں۔ عدالت برخاست ہوئی۔ کچھ دیر بعد دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو کرنل ظفراللہ نے جنرل بابر کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔
چند دن بعد کرنل ظفراللہ کو ایک نوٹس ملا کہ ان کے اپنے خلاف ایک الزام پر کورٹ مارشل کارروائی شروع کی جارہی ہے۔ کرنل ظفراللہ مسکرائے کیونکہ ان کے پاس جنرل ضیا کا ایک ایسا راز تھا جس کا حوالہ دے کر وہ کسی قسم کی انتقامی کارروائی سے بچ سکتے تھے۔ کرنل ظفراللہ کو جنرل ضیاالحق کی وہ شام یاد آئی جب مارشل لاء لگانے کے بعد وہ بھٹو سے ملنے مری گئے تھے۔ اس ملاقات میں کرنل ظفراللہ بھی موجود تھے۔ بھٹو اور ضیاالحق کے مابین ہونے والی گفتگو ابھی تک کرنل کو یاد تھی اور ضیا نہیں چاہتے تھے کہ اس حساس گفتگو کا کسی کو پتہ چلے۔کرنل کے خلاف کورٹ مارشل شروع ہو چکا تھا اور مزاحمت پر اترے ہوئے کرنل صاحب بھی اپنے پتے ترتیب دے رہے تھے کہ انہوں نے کیسے جنرل ضیاالحق کو ہینڈل کرنا ہے۔ کرنل ظفراللہ اور جنرل ضیاالحق کے مابین ایک دلچسپ کھیل شروع ہو چکا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved