انسان کہنے کو تو ایک مشت خاک ہے مگر اس مٹی میں امکانات کا ایک جہاں آباد ہے۔ حضرت اقبال کا خیال ہے کہ مظاہرِ کائنات کو اس کا پورا ادراک ہے:
عروجِ آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے
یہ شاعرانہ مبالغہ نہیں ہے۔ ہم اپنے ارد گرد کبھی ایسے لوگوں کو پاتے ہیں جو فرہاد صفت ہیں۔ عمر بھر نہریں کھودتے ہیں اور کسی ناکامی کا خیال انہیں چھو کر نہیں گزرتا۔ کیا حسین مجروح بھی انہی میں سے ایک ہیں؟
''نیرنگِ خیال‘‘ سے اردو ادب کا ہر طالب علم واقف ہے۔ ایک تاریخ ساز جریدہ جس نے اس خطے میں شعروسخن کے اتنے چراغ جلائے کہ ہر سو اجالا ہوگیا۔ اس 'جوئے شیر‘ کو جنہوں نے کھودا، ان میں ایک نام حسین مجروح کا بھی ہے۔ ''نیرنگِ خیال‘‘ محض ادبی جریدہ نہیں، ایک روایت ہے۔ ایک ادبی روایت کے احیا کا حوصلہ کرنا ہی بڑی بات ہے، خاص طور پر ایک ایسے عہد میں جب اردو ادب کے قارئین کا دائرہ بہت سمٹ چکا ہو۔ جو باقی ہیں، ان کی قوتِ خرید اتنی کم ہو چکی کہ 'مفت خوانی‘ کی طرف مائل رہتے ہیں۔ رہی سہی کسر 'سوفٹ کاپی‘ نے پوری کردی۔ انٹرنیٹ پر ادبی رسائل اور کتب بآسانی میسر ہوتے ہیں۔ ایسے میں ادبی رسالے کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے فرہاد کا جگر چاہیے۔
حسین مجروح اس سے پہلے حلقہ اربابِ ذوق کا احیا کرچکے۔ پاک ٹی ہاؤس کو بھی آباد کیا۔ ''نیرنگِ خیال‘‘ کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ یہ نہر کھودتے کھودتے انہیں ایک دوسرے خیال نے آلیا۔ یہ ''سائبان ‘‘ کا آئیڈیا ہے۔ یہ کتاب تک رسائی کو آسان بنانے کی مہم ہے۔ گویا انہوں نے ایک نئی نہر کھودنے کا ارادہ باندھ لیا۔ ''نیرنگِ خیال‘‘ کے چند تازہ شمارے میرے سرہانے رکھے ہیں۔ ہر روز چند صفحات پڑھتا ہوں۔ غزل، کبھی افسانہ۔ ترجمہ، کبھی سفرنامہ۔ خاکہ‘ کبھی نظم۔ ادبی جریدہ وہ مشروب ہے کہ جس کا لطف گھونٹ گھونٹ اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں بھی روز یہ مزے لیتا ہوں۔ ارادہ تھا کہ ظرف خالی ہو جائے گا تو شکریہ ادا کروں گا، معاوضہ ادا کرنے سے تورہا۔
''نیرنگِ خیال‘‘ کا مشروب ابھی باقی تھا کہ ان کی طرف سے ''سائبان‘‘ کا تعارف موصول ہوا۔ معلوم ہواکہ انہوں نے رسالے کی ذمہ داری سے سبک دوش ہوکر اب خودکو اس منصوبے کیلئے وقف کردیا ہے۔ ان کے حوصلے کی داد دینا پڑی کہ یہ کام، پہلے کام سے بھی زیادہ مشقت کا متقاضی ہے۔ وہی، ایک نئی نہر کھودنا جو پہلی سے زیادہ طویل ہے۔ پہلا کام ایک روایت کی بازیافت ہے۔ دوسرا ایک نئی روایت کی طرح ڈالنا ہے۔
''سائبان‘‘ تحریک کیا ہے؟ اس سوال کاحسین مجروح کے الفاظ میں ہی نقل کر دیتا ہوں ''بائیس کروڑ کے اس انسانی جنگل میں سنجیدہ کتاب بائیس سو کی تعداد میں بھی نہیں چھپتی۔ ہزارکوہِ ندا ٹاپنے کے بعد کتاب چھپ جائے تواس کی نکاسی اورفروخت کارِ دارد۔ طرفہ تماشا یہ کہ اس کارِ تیشہ گری میں کیا ناشر، کیا کمپوزر، کیا چھاپہ خانے والا، کیا جلد ساز، سبھی کماتے ہیں لیکن ادیب کی صرف جیب کٹتی ہے...‘‘
''وقت آگیا ہے کہ ادیب کی توقیر و استقرا اور اس کے ساتھ روا رکھے جانے والی ناانصافیوں اور اغماض کے تدارک کے لیے عملی اقدام کئے جائیں۔ اس ضرورت کے پیشِ نظراس خاک بسر نے ''سائبان‘‘ کے نام سے ایک ہمہ گیر تحریک شروع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے جو ادیبوں اور ادبی جرائد کے جملہ مسائل و مشکلات کی داد رسی، کتاب کلچرکے فروغ، ادیبوں اور جرائد کی مالی معاونت اور ان کے سماجی مقام کی بازیافت واستقرا کیلئے سرگرم ہو گی‘‘۔
اس تحریک کے مقاصد میں یہ شامل ہے کہ کتاب خرید کر پڑھنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اسی طرح کتب کی اشاعت اور فروخت کیلئے ایک مربوط نظام کی تشکیل بھی اس کا ایک مقصد ہے۔ اس کے تمام مقاصدکو جمع کریں تواس کا حاصل ایک نئی روایت کا فروغ ہے جوکتاب سے محبت اور ادیب کے احترام و خوشحالی سے عبارت ہے۔ ایسی روایت جس میں نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی اور تربیت ہو۔ لکھاری خواتین کے مسائل کا تدارک بھی اس تحریک کا مقصد ہے۔
سماج ایک نظامِ اقدار کے تابع ہوتا ہے۔ یہ نظام ہی اس کے خدوخال کا تعین کرتا ہے۔ اگر یہ لطیف انسانی جذبات کے اثبات پر مبنی ہوتو محبت، ایثاراور اخوت کی اقدار مضبوط ہوتی ہیں۔ یہ لطیف جذبات وہیں پنپ سکتے ہیں جہاں لوگوں کے جمالیاتی ذوق کی آبیاری ہوتی ہو۔ یہ کام ادب اور فنونِ لطیفہ کرتے ہیں۔ یہ جمالیاتی حس کو بیدار کرتے ہیں جس سے لطیف جذبات جنم لیتے ہیں۔ تشدد اور سخت دلی اسی وقت فروغ پاتے ہیں جب سماج لطیف جذبات سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر مذہب، روایت، رواج کے نام پر انسانوں کی جان لی جاتی ہے اور سماج میں کوئی ردِ عمل پیدا نہیں ہوتا۔
کتاب اور ادیب کا سماجی مقام، دراصل یہ تعین کرتا ہے کہ ایک معاشرے کا نظامِ اقدار کیا ہے؟ اس میں لطیف جذبات کی آبیاری ہورہی ہے یا نہیں؟ ترقی پسند دنیا میں ادیب کا شمار معاشرے کے سب سے امیر لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں غریب ترین لوگوں میں۔ اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے ہاں، گھر ہو یا باہر، تشدد کا رجحان کیوں ہے؟
میرا احساس ہے کہ کتاب کلچر کے فروغ کیلئے، ادیب کے ساتھ قاری کے احوال کوبھی بہتر ہونا چاہیے۔ اگر عالم آدمی کی قوتِ خرید کم ہوگی تو کتاب اس کی دسترس سے باہر ہو جائے گی۔ ادب، ادیب اور قاری... یہ ایک مثلث ہے جس کے تینوں اضلاع کو مضبوط ہونا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ عام آدمی کی نظر میں ایک برگر اہم ہے یا کتاب۔ بایں ہمہ اس تقابل سے زیادہ اہم یہ ہے کہ کتاب سستی ہواور اگرکوئی کتاب خریدنا چاہے تو وسائل کی کمی اس کے آڑے نہ آئے۔ ایک طرف ہمیں اس کلچر کو فروغ دینا ہے جس میں کتاب کو روٹی کی طرح اہم سمجھا جائے اوردوسری طرف روٹی بغیراضافی محنت کے، آپ کی دسترس میں ہو۔
آج ہمارا معاشرہ لطیف جذبات سے خالی ہو چکا۔ گھر سے بازار تک رویّوں میں تشدد ہے۔ دوسروں کی عزت سے جان تک، سب کچھ مباح ہے۔ خاوند بیوی کے تعلقات میں تشدد ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ پُرتشدد ہو چکا۔ جیسے جیسے لٹریچر اور فنونِ لطیفہ کیلئے فضا سمٹتی چلی جائے گی، تشدد اور سختی بڑھتی چلی جائے گی۔ ''سائبان‘‘ جیسی تحریکیں اس خلا کو پُر کر سکتی ہیں۔
حسین مجروح صاحب کو اس تحریک کیلئے دست و بازو کی ضرورت ہے۔ آپ کا تعاون چاہیے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیاب ہونا چاہیے، کتاب کلچر کو فروغ ملنا چاہیے اور نتیجتاً ہمیں ایک پُرسکون معاشرہ میسر آئے تو پھر دامے، درمے، سخنے، قدمے یہ تحریک آپ کی نصرت چاہتی ہے۔
میری سوچی سمجھی رائے یہی ہے کہ جب تک ریاست کے بجائے، معاشرہ ہماری توجہ کا محور نہیں بنتا، ہمارے حالات میں کوئی بہتری نہیں آسکتی۔ یہ کام سماج کی اپنی قوت سے ہوگا۔ ریاست کی ترجیحات میں معاشرتی تعمیر شامل نہیں ہے۔ پھر ریاست کا اپنا ایجنڈا ہے۔ ہم ایک سکیورٹی سٹیٹ پیراڈائم میں جیتے ہیں۔ اس پیراڈائم میں ریاست اہم ہوتی ہے، فرد نہیں۔ جب فرد اہم نہ ہوتو اس کی شخصی تعمیر بھی اہم نہیں رہتی۔ اس لیے اقدارکا دفاع ہمیں خودکرنا ہوگا۔ ہمیں اس قوت کو بیدار کرنا ہے جو انسان کو مہ کامل بناتی ہے۔ اسی سے روشنی پھیلے گی۔