تاریخ میں ایسے طویل عہد بھی آتے ہیں جب سماج جمود اور ٹھہرائو کا شکار ہوجاتا ہے‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ رک چکی ہے‘ لیکن سطح کے نیچے انقلاب کا عمل غیر محسوس طور پر جاری رہتا ہے۔ پھر ایسے غیر معمولی لمحات بھی آتے ہیں جب لمبے عرصے سے دبے ہوئے ناقابل حل سماجی تضادات اس شدت سے پھٹتے ہیں کہ حکمران طبقات کی جانب پر سماج پر تھونپے جانے والے نظام معیشت، سیاست، اخلاقیات، اقدار اور رسم و رواج کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے مختلف اوقات میں مختلف ممالک میں ابھرنے والے زیادہ تر انقلابات اپنے منطقی انجام تک پہنچنے کی بجائے پسپائی کا شکار ہوئے۔ بعض اوقات تو یہ پسپائی کشت و خون سے بھرپور تھی جبکہ بعض دوسری صورتوں میں حکمران وقتی اصلاحات کے ذریعے عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا اور تحریک کو منتشر کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم چند ایک انقلابات رائج الوقت نظام کو اکھاڑ کر بنیادی سماجی و معاشی تبدیلی لانے میں کامیاب بھی رہے جس کی سب سے عظیم مثال روس میں1917ء میں برپا ہونے والا بالشویک انقلاب ہے۔ موجودہ عہد میں سرمایہ داری پہلے کبھی نہ دیکھے گئے سماجی تفاوت اور عدم مساوات کو جنم دے رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں 20سال کے سماجی جمود کے عرصے کے بعد ہمیں 2011ء سے بغاوتوں کا سلسلہ نظر آتا ہے۔کارل مارکس نے بڑی تفصیل سے سرمایہ داری کے اس طرز ارتقا کی وضاحت کی تھی ’’ایک طبقے کے پاس دولت کا اجتماع دوسرے طبقے میں بدحالی، اذیت ناک غلامی، جہالت ، جبر، شعوری پسماندگی کو جنم دیتا ہے یعنی اس طبقے میں جو تمام تر سرمایہ پیدا کرتا ہے‘‘۔ (سرمایہ، جلد اول) یونان سے ترکی اور برازیل سے مصر تک ہونے والے سماجی دھماکے سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر بڑھتے اور تیز ہوتے ہوئے سماجی تضادات کا واضح ثبوت ہیں۔آنے والے مہینوں اور سالوں میں کئی اور ممالک بھی انقلابی طوفانوں کی زد میں آئیں گے۔جارحانہ طبقاتی جدوجہد اور عارضی تھکاوٹ، سرد مہری، جمود حتیٰ کہ ردِ انقلاب کے عہد یک بعد دیگرے آئیں گے۔ وقتی پسپائیاں نئے اور پہلے سے بڑے انقلابی ابھاروں کو جنم دیں گی۔انقلابِ مصر اس عمل کی واضح مثال ہے۔2011ء میں شروع ہونے والے انقلاب مصر کی خاصیت یہ ہے کہ اس نے انقلاب کو خارج از امکان قرار دے کر سرمایہ داری کے آگے جھک جانے والے دانشوروں کو صدمے اور تذبذب میں مبتلا کر دیا۔ پہلے پہل تویہ حضرات اسے انقلاب تسلیم کرنے کو ہی تیار نہیں تھے۔آنکھیں رکھنے کے باوجود دیکھنے سے انکاری لوگوں کا کوئی علاج نہیں ہوتا۔کارپوریٹ میڈیا نے بڑی مکاری سے اس شاندار انقلابی ابھار پر جمہوریت اور ’لبرل ازم‘ کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش کی؛ تاہم 30جون 2013ء کو شروع ہونے والے ایک اور انقلاب نے حکمران طبقے اور سامراج کے زر خرید دانشوروں کی جانب سے دیے جانے والے اس جھوٹے تاثر کو جھٹک دیا ہے۔ اس سے ثابت ہوا ہے کہ عوام حکمران طبقے کی حکمرانی کے سیاسی طریقہ کار میں بے معنی اور جعلی تبدیلیاں کرنے کی بجائے غربت، محرومی، بیروزگاری، ذلت اور استحصال سے نجات حاصل کرنے کے لئے انقلابی تحریکیں برپا کرتے ہیں۔مصر میں حکمرانوں کی سیاسی اور ’جمہوری‘ چالبازیاں انقلاب کے سماجی اور معاشی کردار کو دبانے میں ناکام رہیں اور کئی مہینوں تک مایوسی اور تھکاوٹ کا شکار رہنے کے بعد عوام ایک بار پھرکروڑوں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔کسی انقلابی پارٹی، تنظیم یا قیادت کی عدم موجودگی کے باوجود انہوں نے چند دنوں میں مورسی حکومت کا دھڑن تختہ کر دیا۔ دنیا بھر کے کارپوریٹ میڈیا نے مورسی حکومت کے خاتمے کو فوجی کُو (Coup)قرار دینے کی کوشش کی۔ مصر میں صورتحال اس سے مختلف ہی نہیں بالکل متضاد تھی۔واقعات کی اصل قوت محرکہ سڑکوں پر موجود مصری عوام کی اکثریت تھی۔گلی محلوں میں انتظامات سنبھالتی عوامی کمیٹیاں ریاست کے وجود کو چیلنج کر رہی تھیں۔ ان حالات میں فوجی قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مورسی کو فارغ کر کے انقلاب کو وقتی طور پر ٹھنڈا کیا جائے ۔ ہر انقلاب کی قوت محرکہ عوامی تحریک ہوتی ہے تاہم مصری انقلاب کا خود رو پن جہاں اس کی سب سے بڑی مضبوطی تھی وہیں جدلیاتی طور پر سب سے بڑی کمزوری بھی تھی۔عوام 30جون کو اقتدار پر قبضہ کر سکتے تھے۔طاقت درحقیقت پہلے سے ہی لا شعوری طور پر عوام کے ہاتھ میں تھی۔صورتحال فروری 1917ء کے روس سے بڑی حد تک مشابہ تھی۔لینن نے فروری 1917ء کے انقلابی حالات کی وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا تھا کہ محنت کشوں کے اقتدار پر قبضہ نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ موضوعی عنصر کی کمزوری تھی۔ مصر کے محنت کش اور نوجوان انقلاب کے سکول میں تیزی سے سیکھ رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جون کی بغاوت ڈھائی سال پہلے کی نسبت زیادہ بڑی، تیز رفتار، باشعور اور منظم تھی، لیکن عوام میں تاحال سیاسی تجربے کی کمی ہے اور وہ انقلابی نظریات سے لیس نہیں ہیںبصورت دیگر انقلاب بہت جلد اورنسبتاً کم خون خرابے کے ساتھ فتح یاب ہوجاتا۔ فی الحال ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال ہے اور کوئی بھی حریف مکمل فتح کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔یہی وجہ ہے فوج سماج سے بالاتر ہو کر اپنے آپ کو ثالث مطلق کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے، حالانکہ حقیقی قوت ابھی بھی سڑکوں پر موجود ہے۔کچھ لوگوں کی جانب سے فوج پر اعتماد کا اظہاربیوقوفانہ خوش گمانی کے مترادف ہے۔انقلاب کو بونا پارٹ ازم سے سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔زندگی کے سکول سے سیکھے گئے سخت اسباق ہی فوج کے بارے میں خوش گمانی کو عوامی شعور سے کھرچ کر دور کریں گے۔ اخوان المسلمون کی رجعتی اور رد انقلابی حکومت کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن تحریک چونکہ غیر منظم اور انتہائی خود روتھی لہٰذا اقتدار پر قبضے کا انقلابی فریضہ مکمل نہیں ہوسکا ہے۔ایک طرف مذہبی رجعت پسند رد انقلابی بغاوت کی تیاری میں مصروف ہیں جو کہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ دوسری طرف بورژوازی، جرنیل اور سامراجی قوتیں عوامی فتح کو چرا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی چالبازیاں کر رہے ہیں۔ انقلاب مورسی حکومت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب رہا لیکن یہ اتنا منظم اور مضبوط نہیں تھا کہ جرنیلوں اور بورژوازی کو اپنے ثمرات چوری کرنے سے روک سکے۔تاریخ کا دھارا موڑنے کے لئے عوام کو مزید سخت اسباق سیکھنے ہوں گے اور تلخ تجربات سے گزرنا ہوگا۔انقلابی حالات میں عوام بہت تیزی سے سیکھتے ہیں۔دو سال پہلے اگر مصر میں لینن اور ٹراٹسکی کی بالشویک پارٹی جیسی کوئی سیاسی قوت موجود ہوتی تو صورتحال بالکل مختلف ہوتی، لیکن ایسی کوئی پارٹی پہلے سے موجود نہیں تھی اوراب اسے انقلابی واقعات کی حرارت میں ہی تعمیر کرنا پڑے گا۔ تمام غیر ضروری اور حادثاتی عوامل سے صرفِ نظر، مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں اٹھنی والی تمام تحریکوں کے عوامل مشترکہ ہیں۔اس عہد میں دنیا ایک معاشی اکائی بن چکی ہے اور مختلف معیشتیں نہ صرف باہم جڑی ہوئی ہیں بلکہ ایک دوسرے پر منحصر ہیں۔یہی وجہ ہے دنیا بھر میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں میں بین الاقوامیت کے رجحان بڑھتے جارہے ہیں۔مصر اور برازیل جیسے کسی ملک میں انقلاب اگر سرمایہ داری کو اکھاڑنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یہ دنیا بھر کے استحصال زدہ عوام کے لئے ایک درخشاں مثال ہوگی۔ ایک کے بعد دوسرے ملک کے محنت کش اور نوجوان سرمایہ داری کے خاتمے کے لئے تاریخ کے میدان میں داخل ہوں گے۔ اس صورت میں یقینی طور پر دنیا بھر میںایک نئے انقلابی عہد کا آغاز ہوگا۔ فی الوقت مصر میں تحریک اتار چڑھائو کے ساتھ جاری رہے گی۔یہ عمل طویل عرصے تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مصری انقلاب نے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں عوامی شعور پر اثرات مرتب کئے ہیں۔30جون کے بعدمصری عوام ایک نئے جوش وجذبے اور ولولے کے ساتھ میدان میں آئے ہیںجس نے دنیا بھر میں محنت کش طبقے کو نئی شکتی اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ آنے والے دنوں میں مختلف ممالک اور خطوں میں نئی انقلابی تحریکوں کا ابھار ناگزیر ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved