تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     30-10-2021

پینٹاگون

''Pantagon‘‘ کے لفظی معنی ہیں: ''مخمس‘‘، (جیسے: مثلث اور مربع وغیرہ) یعنی ایسی عمارت جو پانچ زاویوں یا پانچ اَضلاع پر مشتمل ہو۔ پانچ اَضلاع پر مشتمل امریکی وزارتِ دفاع کی عمارت کو اس کی ہیئت کی وجہ سے پینٹاگون کہا جاتا ہے۔ اس میں امریکی مسلّح افواج اور ذیلی اداروں کے تمام دفاتر یکجا ہیں اور یہ امریکی دفاع کا انتظامی اور پالیسی مرکز ہے۔ ہمارے ہاں بَری فوج کے ہیڈ کوارٹر کو GHQ، فضائیہ کے ہیڈ کوارٹر کو AHQ اوربحریہ کے ہیڈکوارٹر کو NHQ کہا جاتا ہے، الغرض تینوں مسلّح افواج کے ہیڈکوارٹرز الگ الگ ہیں، جبکہ امریکا میں ان سب کا مرکزی ہیڈ کوارٹر ایک ہی ہے۔ اسی طرح شَش جہات عمارت کو عربی میں ''مسدس‘‘ اور انگریزی میں Hexagon کہا جاتا ہے، وغیرہ۔
امریکا میں سینیٹ کی کمیٹیاں بڑی طاقت ور ہوتی ہیں، وہ کسی اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار کو حساس معاملات کی تحقیق کے لیے حتیٰ کہ صدر کو بھی مواخذے کے لیے طلب کر سکتی ہیں۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن پر جب اپنے سٹاف کی ایک رکن ''مونیکا لیونسکی‘‘ کے ساتھ تعلقات کا الزام لگا تو انہیں ذاتی طور پر وڈیو لنک پر سینیٹ کی کمیٹی کے سامنے پیش ہونا پڑا، اسے وہاں کی اصطلاح میں ''Testimony‘‘ (شہادت) کہا جاتا ہے۔ پہلے متعلقہ عہدیدار اپنا تفصیلی بیان دیتا ہے، پھر سینیٹرز اس سے سوالات بھی کرتے ہیں۔ آج کل سینیٹ کی دفاعی کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر رِیڈ ہیں؛ چنانچہ امریکی افواج کے سربراہ جنرل میکنزی کو بھی سینیٹ کی دفاعی کمیٹی میں طلب کیا گیا۔ پہلے چیئرمین رِیڈ اور سینیٹر اِنہولف نے افغانستان کی بیس سالہ جنگ کے دوران اپنی مسلّح افواج کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا اور کہا: ''ہماری مسلّح افواج کے 2461 سپاہیوں، ملّاحوں اور ایئرمینوں نے اپنی جانیں قربان کیں، 20698 زخمی ہوئے اور دوسرے لاتعداد افراد جنگ کے سبب نادیدہ ذہنی اذیتوں سے دوچار ہوئے‘‘۔
اس کے بعد جنرل مکینزی نے دس صفحات پر مشتمل تفصیلی بیان پڑھ کر سنایا اور یہ بتایا کہ ہم نے جوفیصلے یا اقدامات کیے‘ ان کے بارے میں پینٹاگون میں تفصیلی اجلاس ہوئے، مشاورت ہوئی، فیصلے ہوئے، یہ کسی کے شخصی فیصلے نہیں تھے، انہوں نے تاریخ وار سارے اجلاسوں کی تفصیلات پیش کیں اور یہ بھی کہا: ''میرا کام صدر کو مشورہ دینا ہے، ان پر اپنا فیصلہ مسلّط کرنا نہیں ہے، حتمی فیصلہ کرنا اُن کا کام ہے اور ہمارا کام اُن کے احکام کی بجا آوری اور ان کے فیصلوں کو نافذ کرنا ہے‘‘۔ کالم کی تنگ دامانی تفصیلات بیان کرنے کی متحمل نہیں ہے، ورنہ عالمی امور میں دلچسپی رکھنے والوں اور امریکی نظام کو سمجھنے والوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ انہوں نے کہا: ''حکمتِ عملی کے بارے میں فیصلوں کے نتائج بھی مرتّب ہوتے ہیں، افغان جنگ سے چار امریکی صدور، بارہ وزرائے دفاع، سینٹرل کمانڈ کے دس کمانڈرز اور افغانستان میں اپنے فرائض کی بجا آوری پر مامور بیس کمانڈرز کو واسطہ پڑا، ان کے علاوہ کانگریس کے سینکڑوں وفود کے دورے اور بیس سالہ نگرانی رہی، سو اس میں ہمارے لیے سیکھنے کے بہت سے سبق ہیں‘‘۔ بعض کلیدی امور کے جائزے کے لیے گہری فکری مشق درکار ہے اور ہمیں پاکستان کے کردار کا بھی مکمل جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے کہا: ''ہمیں اُس کرپشن کا بھی جائزہ لینا ہے جس کے نتیجے میں افغان حکومت گیارہ دن میں منہدم ہوئی، یہ اور بہت سے دیگر امور ایسے ہیں کہ جن کا آنے والے مہینوں اور برسوں میں گہرا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فوج کی جانب سے اس بات کا جائزہ لینا میری ذمہ داری ہے، میں اس کے لیے جوابدہ ہوں کہ ہم نے افغان دفاعی افواج کو کیسے تربیت دی اور مسلّح کیا اور وہ کوئی مزاحمت کیے بغیر کیسے منہدم ہو گئی، ہمیں اپنے انٹیلی جنس نظام کا بھی جائزہ لینا ہے، الغرض اس طرح کے کئی اور پیچیدہ امور ہیں کہ جن کا آنے والے مہینوں اور برسوں میں جائزہ لیا جاتا رہے گا‘‘۔ انہوں نے دس صفحات پر مشتمل ایک تحریری بیان کمیٹی کے سامنے دیا اور کہا: ''میں ریکارڈ کے لیے اپنے اقدامات کا ایک اور مفصّل جائزہ پیش کروں گا‘‘۔
آخر میں انہوں نے کہا: ''میں تمام واقعات کا تفصیلی جائزہ لینے کو خوش آمدید کہوں گا اور اگر اس کے لیے ایک مفصل اجلاس منعقد کیا جائے‘ جہاں تمام تفصیلات یعنی فیصلوں اور اقدامات کے حُسن وقبح پر بحث ہو، میں اس کا خیر مقدم کروں گا۔ میں سارے ای میل، فون لاگ، یادداشتیں، شہادتیں اور معاملے کی بہتر تفہیم کے لیے دیگر تفصیلات بھی پیش کروں گا۔ میرا حلف نسلی تعصب اور ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر تمام داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف امریکی دستور کی حفاظت کے لیے کمربستہ رہنا ہے اور میں کبھی اپنے حلف سے روگردانی نہیں کروں گا۔ میرا کامل یقین ہے کہ امریکی مسلّح افواج سویلین کنٹرول کے تابع ہیں اور یہ ہماری جمہوریہ کا غیر متبدل اساسی اصول ہے، نیز میں اس امر کا پابند ہوں کہ امریکی مسلّح افواج داخلی سیاست سے دور رہیں‘‘۔
یہ سطور ہم نے اس لیے لکھی ہیں کہ قوم کو معلوم ہوکہ عالمی قیادت پر فائز قوموں میں جواب دہی اور تحدید وتوازن کا نظام کس قدر مستحکم اور مضبوط ہے، کوئی آئین وقانون سے بالاتر نہیں ہے اور ہر ایک اپنی اپنی جگہ ریاست اور اس کے اداروں کے سامنے جوابدہ ہے، مسلّح افواج کی وطن کے لیے قربانی احسان نہیں، فرض ہے اور یہ منصب وہ اسی فرض سے عہدہ برآ ہونے کے لیے قبول کرتے ہیں۔ اس کے برعکس جب 16 دسمبر 1971ء کو سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے تقریب ہو رہی تھی اور پاکستان کا سرکاری میڈیا قوم کو بتا رہا تھا: ''دونوں کمانڈروں نے جنگ بندی پر اتفاق کر لیا ہے‘‘، جبکہ ملک کے کونے کونے میں لوگ بی بی سی ریڈیو کے اردو پروگراموں کو پابندی سے سن رہے ہوتے تھے، کیونکہ اپنے میڈیا سے انہیں صحیح خبریں نہیں مل رہی تھیں۔ لیکن کیا اس سے حقائق بدل جاتے ہیں یا حقیقت کو زیادہ عرصے تک لوگوں سے پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں تو میڈیا اور اطلاعات کی بہم رسانی کے ذرائع عمودی اور اُفقی اعتبار سے اتنے محیط ہو چکے ہیں کہ روئے زمین میں کہیں بھی کوئی واقعہ رونما ہو، چند سیکنڈوں میں وہ خبر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک امریکا کے صدور کے لیے بھی اپنے میڈیا کو کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کیا کوئی تصور کر سکتا تھا کہ امریکا کے صدر کے ٹویٹر اکائونٹ کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں لوگ پہلے تازہ اور درست معلومات کے لیے پرائیویٹ قومی ٹیلی وژن چینلوں کو دیکھتے تھے، لیکن جب ان پر بھی غیر مرئی بندشیں عائد ہو گئیں تو پھر پہلے والا اعتبار بھی باقی نہیں رہا اور اب باشعور لوگوں کی ایک بڑی اکثریت ٹیلی وژن کے باقاعدہ ناظرین میں شامل نہیں رہی۔ پھر لوگوں نے سوشل میڈیا کی طرف رجوع کیا، لیکن جب یہ دیکھا: وہاں بھی پروگرام کرنے والوں کی اکثریت ایک پوزیشن اختیار کر چکی ہے، کوئی کسی کا نمائندہ ہے اور کوئی کسی کا، کوئی کسی کا ترجمان ہے اور کوئی کسی اور کا، خبروں کی صداقت و ثقاہت چند گھنٹوں یا دنوں میں واضح ہو جاتی ہے، لہٰذا اب ان سے بھی اعتبار اٹھتا جا رہا ہے، بس ایک تحیّر کی کیفیت پیدا کی جاتی ہے، اگلے مرحلے کے لیے کسی اور عنوان کا سہارا لیا جاتا ہے، جن تجزیہ کاروں سے جزوی طور پر کوئی مفید تجزیہ یا معلومات مل جاتی ہیں، ان کی تعداد انگلیوں پر گننے کے برابر ہے۔
آج کی دنیا پر امریکا کا تسلّط صرف طاقت کی بنیاد پر ہے، اس کا قانونی اور اخلاقی جواز اس کے پاس نہیں ہے، کیونکہ امریکا نے طاقت کے بل پر اپنے قومی مفادات ہی کو دنیا پر نافذ کرنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے، اس ذہنیت کے نتیجے میں دلیل و استدلال کی بنیاد ہی ختم ہو جاتی ہے۔ امریکا افغانستان میں بیس سالہ جنگ اور سوا دو کھرب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ناکام رہا، اس نے اپنی جگہ لینے کے لیے جو نظام قائم کیا، اس پر زرِ کثیر خرچ کر کے تربیت کی اور جدید اسلحے سے لیس کیا، وہ پوری عمارت چند دنوں میں زمیں بوس ہو گئی لیکن اب وہ امارتِ اسلامی افغانستان سے یہ توقع کر رہا ہے کہ وہ پلک جھپکتے ہی افغانستان کو دنیا کا ایک جدید ترین ملک بنا دے، لیکن ایسا کرنے کے لیے بھی وسائل چاہئیں، جبکہ اس نے ان کے زرِ مبادلہ کے تمام ذخائر کو منجمد کر دیا ہے۔
امریکا نے دنیا کے مالیاتی نظام کو بھی اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے، جب چاہتا ہے کسی ملک کے محفوظ مالیاتی ذخائر کو منجمد کر دیتا ہے، جب چاہتا ہے کسی ملک پر تجارتی پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔ ایران کا تجارتی محاصرہ اس کی نمایاں مثال ہے۔ جب تک دنیا عالمی تجارت کے لیے ڈالر سے ہٹ کر کوئی اور معیار مقرر نہیں کرے گی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ امریکا کے زیر کنٹرول عالمی مالیاتی اداروں یعنی آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک وغیرہ سے جو قرضے ملتے ہیں‘ وہ SDR کہلاتے ہیں، یعنی منظور شدہ قرضوں کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بوقتِ ضرورت عالمی مالیاتی اداروں سے زرِ مبادلہ کے استعمال کے لیے ادائی کی مالیاتی دستاویز ات جاری کی جاتی ہیں، یعنی متعلقہ ملک ان منظور شدہ قرضوں کے مقابل جو چیک یا تمسّکات جاری کرے گا، وہ کلیئر ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کروڑوں یا اربوں منظور شدہ ڈالر اس ملک کے قومی خزانے میں منتقل ہو جاتے ہیں، اگر ایسا ہوتا تو امریکا کے لیے یکدم پابندیاں لگانا یا زرِ مبادلہ کے ذخائر کو منجمد کرنا عملاً ممکن نہ ہوتا، زیادہ سے زیادہ وہ آئندہ کے لیے ایسی اعانت کو روک سکتا تھا۔
امریکا نے اپنی ترجیحات کو بدل دیا ہے اور اب اس کا رُخ بحر الکاہل اور بحرِ ہند کے سنگم پر آبنائے ملاکا میں چین کا محاصرہ کرنے کی جانب ہے، اس لیے اس نے امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور انڈیا پر مشتمل ایک Quad (چار ملکی محاذ) تشکیل دیا ہے، نیز آسٹریلیا، یو کے اور یو ایس پر مشتمل سہ ملکی اتحاد ''Aukus‘‘ تشکیل دیا ہے اور آسٹریلیا کو ایٹمی ایندھن سے چلنے والی ایٹمی آبدوزوں کی تیاری کے منصوبے میں مدد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ ایسے جنگی جہاز، ہیلی کاپٹر یا آبدوزیں‘ جو ریڈار کی گرفت میں نہ آئیں‘ Stealth کہلاتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved