چالیس سالوں تک بے مقصد جنگوں کی آگ میں سلگنے والا افغان معاشرہ بتدریج ایسے نظم و ضبط میں ڈھل رہا ہے، جس کی اساس مقامی لوگوں کی مذہبی اقدار اور تہذیبی شناخت پہ استوار ہو گی۔ عالمی برادری نے اگر انسانی بنیادوں پر افغانوں کی دستگیری کی تو یہ اجڑا ہوا سماج بہت جلد زندگی کے اجتماعی دھارے کا حصہ بن جائے گا؛ تاہم مغرب کا وہ مہذب سماج‘ جو ابھی تک امریکی شکست کے نفسیاتی صدمے سے باہر نہیں نکل سکا‘ ماضی میں یہاں کے وار لارڈزکو تو دل کھول کے سرمایا فراہم کرتا رہا لیکن افلاس زدہ افغان شہریوں کو زندہ رہنے کے وسائل مہیا کرنے سے گریزاں ہے۔ البتہ جنوبی ایشیا کی علاقائی مملکتیں افغانوں کو اُن طویل لڑائیوں کے مضمرات سے بچانے کی تگ و دو میں ضرور مصروف ہیں۔ مغرب کی خودغرض اقوام نے نہایت بے رحمی کے ساتھ افغان عوام کو ہولناک جنگوں کی آگ میں جھونکا تھا۔ حال ہی میں افغانستان کے حوالے سے ماسکو کانفرنس میں شرکا نے جنوبی ایشیا میں دیرپا سیاسی استحکام کی خاطر امارتِ اسلامی افغانستان کو سیاسی اور مالیاتی سہارا دینے پہ اتفاق کیا ہے۔ ماسکو کانفرنس کے شرکا‘ جن میں روس، قازقستان، تاجکستان، ایران، پاکستان، چین، ترکمانستان، بھارت، غزستان اور ازبکستان شامل تھے‘ نے افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے احترام کا اعادہ کرتے ہوئے، سرکاری شناخت حاصل کرنے کیلئے امارتِ اسلامیہ افغانستان کو ریاستی ڈھانچے میں مزید بہتری لانے کے علاوہ یہاں کی تمام نسلی و سیاسی اکائیوں پہ مشتمل وسیع البنیاد حکومت بنانے کا مشورہ دیا ہے۔ ماسکو فارمیٹ کے رکن ممالک چاہتے ہیں کہ طالبان قیادت معتدل داخلی و خارجہ پالیسیوں کے ذریعے تمام پڑوسیوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرکے پائیدار امن اور طویل المدت خوشحالی جیسے مشترکہ اہداف حاصل کرے۔ ماسکو کانفرنس کے شرکا نے دوسری ریاستوں کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال روکنے کی خاطر طالبان کے تجدیدِ عہد کا خیرمقدم کرتے ہوئے افغانستان میں دہشت گردی کے قلع قمع کی خاطر انہیں بھرپور تعاون دینے کا وعدہ کیا؛ تاہم کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں افغانستان میں ہر آن بگڑتی انسانی صورتحال پہ گہری تشویش کے ساتھ انسانی بحران پہ قابو پانے کی خاطر جلد اقوام متحدہ کے زیر اہتمام بین الاقوامی ڈونر کانفرنس بلانے کی تجویز بھی دی گئی جس میں جنگوں کے بعد کی معاشی بدحالی کے ازالے اوربتدریج اقتصادی تعمیرِ نو کا بوجھ اٹھانے کیلئے خاص طور پر ان ممالک سے تعاون مانگا گیاجنہوں نے 20 سالوں تک اس خطے کو وقفِ اضطراب رکھا۔ طالبان کی وزارتِ خارجہ کے نمائندے ذاکر جلالی نے ماسکو کانفرنس کوزسراہتے ہوئے اسے علاقائی مملکتوں کے ساتھ خوشگوار ماحول میں مثبت ملاقات قرار دیا۔ انہوں نے امارتِ اسلامیہ کو جلد تسلیم کرنے پر زور دیتے ہوئے خبردارکیا کہ اگر طالبان حکومت کوتسلیم کرنے میں تاخیر کی گئی تواس خلا سے امن دشمن عناصر فائدہ اٹھا کر افغانستان کی قومی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر سکتے ہیں۔
افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد جس طرح اشرف غنی حکومت کی مزاحمتی قوت کے بارے میں دنیا کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے‘ اسی طرح طالبان کی سیاسی بصیرت اورحکمرانی کی استعداد کے حوالے سے بھی اہلِ دانش کے تخمینے ٹھیک نہیں نکلے۔ طالبان کی غیر متوقع سیاسی بالادستی کے ساتھ ہی مغربی اقوام نے اقلیتوں کے تحفظ، خواتین اور بچوں کے بنیادی حقوق اور عام لوگوں کی سماجی آزادیوں کے ابطال بارے جس نوع کے خدشات ظاہر کئے‘ وہ درست نہیں تھے۔ طالبان قیادت نے افغانستان کی تمام اقلیتوں کو عقیدے اور عبادات کی پوری آزادی دی بلکہ ان کے ہمدردانہ طرزِ عمل نے عدم تحفظ کے شکار کمزور طبقات کو پہلے سے زیادہ ذہنی آسودگی فراہم کرکے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ ابتدا میں طالبان کے ازلی نقادوں اور مغربی میڈیا نے خوف کے طوفان برپا کرکے ڈاکٹرز، انجینئرز، ٹیکنیکل سٹاف اور فنکاروں کے علاوہ باصلاحیت افراد کو ملک چھوڑ کر یورپ کی طرف ہجرت کرنے کی ترغیب دے کر ہیبت پیدا کی لیکن مغربی ممالک کی طرف سے جب مہاجرین کا بوجھ اٹھانے سے گریز کا رویہ سامنے آیا تو مغربی میڈیا سے خوف و ترغیب کی یہ مصنوعی بازگشت بھی عنقا ہو گئی۔ امریکا سمیت یورپی ممالک کا خیال تھا کہ ماڈرن سٹیٹ کرافٹ سے ناواقف طالبان بہت جلد جدید فنِ حکمرانی کی پیچیدگیوں سے گھبرا کر تشدد کے ہتھیاروں سے سوسائٹی کوکنٹرول کرنے کی کوشش کرکے افغانستان میں امریکی مداخلت کی جائزیت کا موقع فراہم کریں گے لیکن طالبان نے ریاستی طاقت کے وسیلے سے سماج کو کنٹرول کرنے کے بجائے اخوتِ انسانی کے فطری اصولوں کے ذریعے معاشرتی نظم و ضبط قائم کرکے اپنے کثیرالنسلی اور قبائلی سماج کو ریاستی مقتدرہ سے ہم آہنگ کر لیا۔ انہوں نے جمہوریت کے مغربی ماڈل کو من و عن اپنانے کے بجائے سیاسی اصلاحات کے عمل کو علاقائی تہذیب و ثقافت اور مذہبی اقدار سے ہم آہنگ رکھ کراجتماعی حیات کے دھارے کو ہموار بنا لیا۔ مغرب کے کاشت کردہ بعض دہشت گرد گروپوں کی مساجد میں دہشت گردانہ کارروائیوں سے قطع نظر‘ وہاں ایک بار پھر نظامِ زیست اپنی فطری اساس پہ استوار ہونے لگا ہے، شاید اسی لئے ماسکو کانفرنس کے موقع پہ روسی صدر ولادیمیرپوٹن نے طالبان قیادت کے طرزِعمل کی تعریف کرتے ہوئے علاقائی ریاستوں کو ان سے قربت بڑھانے کا مشورہ دیا۔ ادھر زوال پذیر تہذیب کے حامل مغربی ممالک کی طرف سے طالبان کی مخالفت میں وہ شدت باقی نہیں رہی‘ جو پہلے تھی۔ یورپی یونین کی بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال اور مغرب کا دم توڑتا سماجی ڈھانچہ رفتہ رفتہ طالبان دشمنی سے دستبردار ہو کر اپنے مستقبل کے تحفظ کی خاطر جنوبی ایشیا میں ابھرنے والی نئی اقتصادی قوت چین سے خود کو ہم آہنگ بنانے کی کوشش میں سرگرداں ہے۔
مغرب کے اہلِ دانش اب خود کہتے ہیں کہ زندگی کے کھیل میں کچھ ایسے قوانین ضرور ہونے چاہئیں جنہیں وہ بھی تسلیم کریں جو ان کی خلاف ورزی کی طاقت رکھتے ہیں۔ امریکی اہلِ دانش کہتے ہیں کہ امریکا افغانستان اور عراق میں سیکھے گئے اسباق کی بنیاد پر جنگوں کی پالیسی ترک کرکے اپنی ساکھ بہتر بنائے اور عالمی واقعات کو تشکیل دینے کے خاطر اپنی اہلیت کو مزید داغدار ہونے سے بچائے کیونکہ کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور ہزاروں جانوں کے ضیاع کے باوجود‘ عراق اور افغانستان کی جنگوں نے عالمی طاقت کے طور پر امریکی فوج کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ امریکا اپنی ناقص حکمت عملی کی کوکھ سے پیدا ہونے والی دہشت گرد تنظیموں کو مینج کرنے سے قاصر رہا۔ امریکیوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ امریکی پالیسیوں نے دنیا بھر میں اپنے خلاف دشمنی کے جذبات کو ابھارا اور جمہوریت میں بگاڑ پیدا کرنے کے علاوہ کبھی نہ تھمنے والی خانہ جنگیوں کو ہوا دی جس سے ان انتہا پسندانہ نظریات کو فروغ ملا جنہوں نے مغربی قوتوں کو قدرتی وسائل سے لبریز براعظم ایشیا سے پسپا ہونے پہ مجبور کر دیا۔ سرد جنگ کے بعد کی خارجہ پالیسی کو بیرونِ ملک متعدد تنازعات، خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگوں میں امریکی مقاصد کے حصول میں بار بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جس سے دنیا بھر میں امریکی غیرمحفوظ ہوتے گئے۔ پالیسی سازوں کا خیال ہے اگر امریکی جنگوں کے نتیجے میں پناہ گزینوں کا بحران بڑھا تو سفید فاموں کے وجود کو لامحدود خطرات لاحق ہونے کے علاوہ مغربی خطوں کو مزید اقتصادی تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ امریکا کو صرف اپنا دفاع تک محدود رہنا چاہیے، وہ مبینہ دہشت گردی کو روکنے کی آڑ لے کر ہر خطے کے ہر تنازع میں مداخلت کرے گا تو اسے تباہ کن ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ سابق امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے درست کہا ''امریکی رہنماؤں کو یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ طاقت کے ہر غیر فوجی ہتھیار کو استعمال کرنا ضروری ہے تاکہ دوستوں اور حریفوں‘ دونوں کو آزادی اور اصلاح کو قبول کرنے کی ترغیب دی جا سکے‘‘۔