ہم نے تو اب تک یہی دیکھا ہے کہ منجھلے خوش نہیں رہ پاتے۔ منجھلے یعنی بیچ والے، جن سے بڑے بھائی بہن بھی ہوں اور چھوٹے بھائی بہن بھی۔ یہ بیچ کے بے چارے بالعموم اٹکے ہوئے رہتے ہیں۔ بڑوں کو احترام ملتا ہے‘ اُن کی بات بھی سُنی جاتی ہے۔ چھوٹے لاڈلے ہوتے ہیں اور اُن کی فرمائشیں بصد شوق پوری کی جاتی ہیں۔ بیچ کے بے چاروں کے معاملہ یہ ہوتا ہے کہ ع
جو ملا اُس نے مِرے دل کو کھلونا جانا
بڑوں کے ساتھ کچھ بُرا ہو جائے تو افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے اور اِس بات کا دُکھ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ اُن کا احترام ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔ دوسری طرف چھوٹوں پر ظلم ہو تو ہمدردی جتانے والے بہت ہوتے ہیں۔ منجھلوں کو پورا احترام مل پاتا ہے نہ شفقت۔ اُنہیں اپنے سے اوپر بھی دیکھنا پڑتا ہے اور نیچے بھی۔ اور زندگی اِسی اُدھیڑ بُن میں گزر جاتی ہے۔ اپنے ماحول پر نظر ڈالیے تو اندازہ ہوگا کہ جن کے ذہن اٹک جائیں اُن کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ جب ذہن میں کوئی بھی معاملہ واضح نہ ہو تب بہت کچھ الجھ کر رہ جاتا ہے۔ انسان کتنی ہی کوشش کر گزرے‘ جب ذہن الجھا ہوا ہو تو کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پاتا اور معاملات پیچیدہ تر ہوتے جاتے ہیں۔ اپنے قریبی حلقوں میں بھی آپ انہیں غیر معمولی حد تک ناکام ہی پائیں گے جن کے ذہن الجھے ہوئے ہوں اور جو کسی بھی اعتبار سے متوازن زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔ کم و بیش ہر معاملے میں وہی لوگ کچھ کر پاتے ہیں جو اپنے ذہن کو غیر ضروری خیالات، تصورات اور تاثرات سے پاک رکھنے میں کامیاب ہو پاتے ہیں۔ ماحول سے جو کچھ مل رہا ہوتا ہے وہ ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ہم ڈھیلے پڑ جائیں یعنی ذہن کو صاف اور واضح رکھنے پر متوجہ نہ ہوں تو معاملات کے نصیب میں صرف الجھنا رہ جاتا ہے۔ نفسی اور عصبی امور کے ماہرین اِس نکتے پر زور دیتے ہیں کہ ذہن کو کسی بھی حال میں آزاد و بے لگام نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ مقناطیس کی طرح ہوتا ہے۔ اگر توجہ نہ دی جائے تو یہ ماحول میں رونما ہونے والی بہت سی بے ڈھنگی اور لاحاصل باتوں کو اپنی طرف کھینچتا رہتا ہے اور کبھی کبھی تو خود اُن کی طرف کھنچا جاتا ہے۔ یہ عمل ذہن کو بوجھل کرتا جاتا ہے۔ مکان بہت بڑا ہو اور سامان کم ہو تو بھی چیزیں ترتیب کے بغیر رکھنے سے اچھی خاصی جگہ ضائع ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف چھوٹے سے مکان میں ترتیب اپنانے سے اچھا خاصا سامان کھپ جاتا ہے۔ ذہن کا بھی یہی معاملہ ہے۔ اگر ہم دنیا بھر کے اچھے، بُرے خیالات کو قبول کرتے چلے جائیں تو دیکھتے ہی دیکھتے ذہن کی سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت ماند پڑتی جاتی ہے۔
ذہن پر پڑنے والا بوجھ کہیں نہیں جاتا بلکہ ایک جگہ پڑے پڑے بگاڑ پیدا کرنے لگتا ہے۔ ذہن سے کسی بھی چیز کو مستقل طور پر حذف نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ہم چاہیں کہ ذہن کسی چیز یا معاملے کے بارے میں نہ سوچے تو اُسے کسی اور کام پر لگانا پڑتا ہے۔ ذہن کا رُخ موڑے بغیر ہم بہتری کی امید نہیں رکھ سکتے۔ جو کچھ ہمیں حواس کے ذریعے ملتا ہے‘ وہ اُس کے فلٹر سے گزرتا ہے۔ ذہن ہی طے کرتا ہے کہ کسی معاملے کو کتنی دیر سامنے رکھنا ہے اور کب اُسے طاقِ نسیاں پر رکھنا لازم ہے۔ یہ کام بھی ذہن اپنے طور پر نہیں کرتا بلکہ ہم اُسے کام پر لگاتے ہیں۔ جو لوگ باغبانی کا شوق رکھتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر یومیہ بنیاد پر پانی نہ دیا جائے تو پودے سُوکھنے لگتے ہیں اور معاملہ صرف پانی تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ پودوں کے پہلو میں کچھ چیزیں خود رَو بھی ہوتی ہیں یعنی خود بخود اُگتی جاتی ہیں۔ فالتو گھاس اور کانٹوں کو ہٹانا پودوں کی نشو و نما کے لیے لازم ہے۔ بالکل اِسی طور ذہن کے پردے سے بھی غیر ضروری چیزوں، باتوں اور معاملات کو ہٹانا لازم ہے۔ اگر ہم اِس معاملے میں تساہل برتیں تو باغ ڈھنگ سے پنپ نہیں پاتا اور کلیوں کے کھلنے پر بھی دِل نہیں کھل پاتے۔
کامیاب افراد کی داستانِ حیات پڑھیے تو اندازہ ہوگا کہ وہ ڈھنگ سے جینے کے قابل اُسی وقت ہو پائے جب انہوں نے طے کیا کہ ذہن کو ایک طرف رکھنا ہے۔ ذہن بیک وقت بہت سے معاملات میں الجھا ہوا ہو تو کچھ سوچنا تو دور کی بات‘ سمجھ بھی نہیں پاتا۔ ہمارا ذہن ماحول سے ملنے والی معلومات کا معقول، متوازن اور کارآمد تجزیہ اُسی وقت کر پاتا ہے جب اُس پر غیر ضروری معاملات اور باتوں کا بوجھ نہ ہو اور وہ کسی بھی ضروری معاملے کو مطلوب تناسب سے وقت دینے کی پوزیشن میں ہو۔ تعلیم کا حصول ہو یا پیشہ ورانہ ندگی کی سرگرمیاں، معاشرتی معاملات ہوں یا ثقافتی مشاغل‘ ہم ڈھنگ سے اُسی وقت کچھ کر پاتے ہیں جب ذہن 'بیچ کے بے چاروں‘ کی طرح اٹکا ہوا نہ ہو اور مطلوب نتائج یا فیصلے تک پہنچنے کی کوشش میں زیادہ الجھن محسوس نہ کرے۔
دنیا کے معاملات الجھتے ہی جارہے ہیں۔ اب کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں یعنی سب سمندر میں ہیں اور جو کچھ سمندر میں واقع ہوگا وہ سب کا مقدر بنے گا۔ ایسے میں لازم ہوگیا ہے کہ زندگی بہت سوچ سمجھ کر گزاری جائے۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں سب سے بڑھ کر جس چیز کو سمجھنا اور متوازن رکھنا ہے وہ ہے ذہن۔ ذہن میں پیدا ہونے والی معمولی نوعیت کی الجھنیں بھی کبھی کبھی بہت بڑی خرابی کا ذریعہ ثابت ہوتی ہیں۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب ہم لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں یعنی ذہن کو بے لگام چھوڑ دیتے ہیں۔ ذہن کی کوئی واضح سمت متعین نہ کرنے سے بہت سے غیر ضروری معاملات ہماری طرف آتے ہیں اور ہم اُن میں الجھتے جاتے ہیں۔ ماحول ہمیں الجھنوں سے دوچار کرنے پر تلا رہتا ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ بھی ہمارے ذہن ہی میں ابھرنے والا ایک تاثر ہے۔ جو کچھ ماحول میں ہو رہا ہے وہ چند ایک معاملات میں تو شعوری کوشش کا نتیجہ ہے۔ مجموعی طور پر جو کچھ رونما ہو رہا ہے وہ ہمارے حق میں ہے نہ خلاف۔ اگر ہم ذہن کو آزاد چھوڑ دیں تو وہ ماحول سے ایسی بہت سی باتیں قبول کرے گا جن سے اُصولی طور پر ہمارا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ ایسے میں ذہن خواہ مخواہ بھرتا چلا جائے گا اور یوں اُس کی کارکردگی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔ متعدل، متوازن اور مستحکم زندگی اُسی وقت ممکن ہے جب ہم شعوری سطح پر فعال رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی ٹھانیں اور جو کچھ بھی ہمارے کام کا نہیں اُس سے ذہن سے کو دور رکھیں۔ ہر دور میں وہی لوگ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے اپنے ذہن کو فالتو اشیا کا گودام بننے سے روکا، فضول معاملات کو اپنی طرف آنے سے روکا۔ جن معاملات سے ہمارا کوئی تعلق نہ ہو اُنہیں ذہن سے دور رکھنا لازم ہے کیونکہ ایسا کرنے ہی سے ہم اپنی ذہنی صلاحیت اور توانائی کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ غیر معمولی کامیابی ہر دور میں ایک بڑا مسئلہ، غیر معمولی دردِ سر رہی ہے۔ دوسروں سے ہٹ کر کچھ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ بہتر کارکردگی کیلئے ذہنی یکسوئی ناگزیر ہے۔ ہم ذہنی یکسوئی کی منزل تک اُسی وقت پہنچ سکتے ہیں جب یہ طے کرلیا جائے کہ ذہن کی صلاحیت و سکت کو کسی بھی فضول کام میں ضائع نہیں ہونے دینا۔ یہ فیصلہ ایسا آسان نہیں ہوتا جیسا دکھائی دیتا ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم بیچ کے بے چارے نہ بنیں یعنی ذہن کو کام پر لگانا اور اُس سے کام لینا سیکھیں۔ وہ زمانہ لَد گیا کہ جب انسان معاشی پہلو کے ساتھ ساتھ زندگی کے دوسرے بہت سے پہلوؤں کو بھی آسانی سے نبھا لیتا تھا۔ اب زندگی کی قیمت بڑھ گئی ہے۔ شہری زندگی میں انسان زندگی بسر کرنے کی قیمت ادا کرتے کرتے ہی دنیا سے چلا جاتا ہے۔ گنجائش کہاں ہے کہ فضول معاملات کو زندگی پر مسلط ہونے دیا جائے؟ یعنی لازم ہے کہ ذہن پر غیر ضروری بوجھ نہ پڑنے دیا جائے۔