احسن بھون سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اس شان سے منتخب ہوئے ہیں کہ گزشتہ دس سال کے دوران کوئی کامیاب امیدوار ان کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب سے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اس ''وقوعے‘‘ کو تین عشروں سے زائد گزر چکے ہیں، کوئی صدر اتنے بڑے مارجن سے کامیاب نہیں ہوا۔ انہوں نے 1548 ووٹ حاصل کئے جبکہ ان کے مقابل سردار لطیف کھوسہ کو 920 ووٹ مل پائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں امیدواروں کا سیاسی تعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔ اس میں مزید دلچسپی یوں پیدا ہو جاتی ہے کہ احسن بھون جب گوجرانوالہ سے لاہور منتقل ہوئے تو انہوں نے اپنی وکالت کا آغاز سردار لطیف کھوسہ کے چیمبر ہی سے کیا۔ اسے استادی اور شاگردی کا رشتہ بھی کہا جا سکتا ہے اور شراکت داری کا تعلق بھی کہ ایک ہی چیمبر میں کام کرنے والے جونیئر اپنے سینئر کے رفیق کار سمجھے جاتے ہیں۔ احسن بھون کا تعلق حافظ آباد سے ہے۔ یہیں کے ڈگری کالج سے انہوں نے اپنی ''سیاست‘‘ کا آغاز کیا۔ پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن سے لو لگائی، جنرل ضیاالحق کا دور تھا۔ ان کی جوانی جمہوریت کی دیوانی ہوگئی۔ طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لیتے اور اپنا کِلہ مضبوط کرتے رہے۔ وکیل بنے تو گوجرانوالہ میں فوجداری قانون کے ماہر چودھری غلام رسول باٹھ کے چیمبر میں قدم رکھا۔ وہاں سے لاہور پہنچے تو کھوسہ صاحب کے ہاں رونق افروز ہوئے، پھراپنا جھنڈا لہرایا اور اب تک لہراتے چلے جارہے ہیں۔
احسن بھون پیپلزپارٹی کے ''انقلابی‘‘ جتھے میں شامل سمجھے جاتے تھے، جبکہ سردارلطیف کھوسہ زرداری کارواں میں نمایاں ہیں۔ پارٹی رہنمائوں کے مقدمے لڑتے لڑتے سیاست کے ایوانوں میں بالا ہوگئے۔ سینیٹر بنے، گورنر پنجاب مقرر ہوئے۔ چودھری اعتزاز احسن اور فاروق نائیک کے بعد پیپلزپارٹی کا قانونی دفاع کرنے والوں میں انکا نام نمایاں ہے۔ احسن بھون وکیلوں کی سیاست میں کھوگئے، انہوں نے یہاں الیکشن پرالیکشن لڑا اور شاید ہی کوئی ادارہ ہو جس کا انتخاب انہوں نے لڑا ہو اور کامیابی حاصل نہ کی ہو۔ پنجاب بار کونسل، لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، پاکستان بار کونسل، ہر جگہ ان کا طوطی بولتا رہا اور اب سپریم کورٹ بار میں اس کی گونج سنائی دے گی بلکہ سنائی دے رہی ہے۔ احسن بھون لاہور ہائیکورٹ کے جج بھی مقرر ہوئے تھے، لیکن یہاں انکا پالا جسٹس افتخار چودھری سے پڑگیا۔ انہوں نے پی سی او کا حلف اٹھانے کی پاداش میں جن ''برادر ججوں‘‘ کو دھکا دیا ان میں احسن بھون بھی شامل تھے۔ وہ اوران جیسے دوسرے دستور کی دفعہ 209 کی دہائی دیتے رہ گئے، لیکن کسی نے ان میں سے کسی کی ایک نہ سنی۔ وہ جوایک امریکی چیف جسٹس نے کہا: 'یہ درست ہے عدالت دستورکے تحت کام کرتی ہے، لیکن دستورکیا ہے، یہ بھی عدالت ہی بتاتی ہے‘؛ چنانچہ دستور کی وہی تشریح معبتر ٹھہری جو عدالت عظمیٰ نے کرڈالی۔
احسن بھون واپس اپنے چیمبر جا پہنچے اوروکیلوں کی سیاست میں سرگرم ہوگئے۔ عاصمہ جہانگیر گروپ کا حصہ بنے اورقائدانہ کردار سنبھال لیا۔ گزشتہ کئی برسوں سے وکیلوں کی سیاست میں دوجماعتی نظام قائم ہوچکا ہے۔ ایک طرف عاصمہ (مرحومہ) سے منسوب انڈی پنڈنٹ گروپ ہے، تو دوسری طرف عالی مرتبت حامد خان کا ''پروفیشنل گروپ‘‘۔ دونوں میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے شامل ہیں، لیکن وکلا اداروں کو وہ اس سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ حامد خان تحریک انصاف کے بانیوں میں سے ہیں۔ دونوں خان جو ایک زمانے میں ایک دوسرے کی ضرورت تھے، اب ایک دوسرے سے بے نیاز ہوچکے ہیں؎
تمہیں غیروں سے کب فرصت، ہم اپنے غم سے کب خالی
چلو بس ہو چکا ملنا، نہ تم خالی نہ ہم خالی
حامد خان کی اولین ترجیح بھی وکیلانہ سیاست ہے، تحریک انصاف ان کیلئے اوروہ تحریک انصاف کیلئے بھولی بسری کہانی ہیں۔ احسن بھون کو پیپلزپارٹی اور پیپلزپارٹی کو وہ بھی بھلا چکے ہیں، اگرچہ یہ فاصلہ معاندانہ نہیں‘ لیکن بہرحال ہے۔ اعظم نذیر تارڑ سے احسن بھون کا پرانا یارانہ ہے۔ علی ظفر ایڈووکیٹ بھی ان سے دور نہیں ہوسکے۔ پیپلزپارٹی کے ''فرسودہ‘‘ جیالے بھی انکے ساتھ پائے جاتے رہے لیکن نون لیگ نے گج وج کے بھون کا ساتھ دیا بلکہ پیپلزپارٹی کے سرکاری امیدوار سردارلطیف کھوسہ تھے۔ آصف زرداری، بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ ان کے ساتھ کھڑے تھے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار یوں بھی اہم ہوگیا ہے کہ عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد عدلیہ اپنے معاملات میں خود مختار ہوچکی ہے، ججوں کی تقرریوں میں پارلیمنٹ کا کردار بھی نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ سووموٹو اختیارات کے استعمال نے بھی سوالات کھڑے کررکھے ہیں۔ بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے کے نام پر ایسے ایسے فیصلے صادر ہوئے، جن پر خود بنیادی حقوق چیخ اٹھے ہیں۔ ان معاملات پرغور کرنے اور کسی نتیجے تک پہنچنے کی بنیادی ذمہ داری اگرچہ پارلیمنٹ کی ہے، تاہم سیاستدانوں کی خود غرضیوں نے اس کا کردار محدود کررکھا ہے۔ اس لئے سپریم کورٹ بار سے توقع لگائی جاتی ہے کہ وہ نہ صرف ججوں کی تقرری کے معاملے میں، اور سووموٹو کے استعمال کے معاملے میں رہنمایانہ کردار ادا کرے گی، بلکہ جلد انصاف کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے بھی کوشاں ہوگی۔ قوم کو انصاف کے نام پر تحریک انصاف تو مل گئی لیکن انصاف کب ملے گا، اس سوال کا جواب ایک سال کیلئے احسن بھون اور انکے نومنتخب رفقاء کے ذمے ہے۔
پرویز ملک، خدمت اور وفا کا پیکر
پرویز ملک مرحوم پانچ بار لاہور سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ان کے حلقے تبدیل ہوتے رہے لیکن ان کی سیاسی وفاداری تبدیل نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) سے جڑے اور اسی کے ہورہے۔ 1997ء میں اسی کی ٹکٹ پرپہلی بار منتخب ہوئے تھے اورآخری سانس لی توبھی معزز ایوان میں مسلم لیگ ہی کی نمائندگی کررہے تھے۔ لاہور کے شہریوں نے بھی انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا۔ وہ جس حلقے میں امیدوار بن کر پہنچے، ووٹروں نے ان کا پُرجوش استقبال کیا اور ثابت کردیا کہ لاہور مسلم لیگ(ن) کا ایسا قلعہ ہے جس میں شگاف نہیں ڈالا جا سکتا۔ پرویز ملک اس قلعے کے محافظوں میں تھے، مردانہ وار مورچے پر ڈٹے رہے۔ ان کی اہلیہ شائستہ پرویز ملک اور بیٹے علی پرویز ملک بھی قومی اسمبلی کے ارکان ہیں۔ شریف خاندان کے بعد اس طرح کا اعزاز شاید ہی کسی دوسرے گھرانے کے حصے میں آیا ہو۔ پرویزملک ایک بڑے باپ کے بیٹے تھے، جسٹس ملک محمد اکرم لاہور ہائیکورٹ میں رہے‘ پھر سپریم میں رونق افروز ہوئے۔ انکے ایک بھائی ملک عبدالقیوم سول لاء میں اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں اور دوسرے بھائی ڈاکٹر جاوید اکرم پاکستان کے انتہائی ممتاز معالجین میں شمارہوتے اور انکے دست شفا سے فیضیاب ہونے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں میں ہوں گے۔ پرویز ملک صنعتکار تھے، لیکن ان کا دل مزدوروں کیلئے دھڑکتا تھا۔ پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کے منصوبے بناتے رہے اور لاہور چیمبر آف کامرس میں وہ اور ان کی اہلیہ اس حوالے سے سرگرم رہیں۔ ان کا مزاج دھیما تھا، نرم الفاظ استعمال کرتے، نرم لہجے میں بولتے، مخالف بھی انکی عزت کرتے تھے، وہ سیاست برائے خدمت کے قائل تھے۔ پرویزملک اپنے ساتھیوں کیلئے، اپنے کارکنوں کیلئے اور تمام اہلِ سیاست کیلئے یہ پیغام دے گئے ہیں کہ اپنی جگہ پر کھڑے رہنے والے ہی دلوں میں گھر بناتے ہیں اور یاد رکھے جاتے ہیں۔ لاہور شہر پرویز ملک کو بھلا نہیں پائے گا۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں شائع ہوتا ہے)