تحریر : بیرسٹر حمید باشانی تاریخ اشاعت     31-10-2021

عوام کے مصائب کا ذمہ دار کون ہے؟

پاکستان کے بڑے معاشی اور سماجی مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں لوگ عموماً اپنے اپنے نظریات اور خیالات کے مطابق کسی بڑی شخصیت کا نام لے لیتے ہیں‘ لیکن اگر شخصیات سے ہٹ کر ان مسائل کا ذمہ دار کسی نظام کو ٹھہرایا جا سکتا ہے، تو وہ ''نیو لبرل ازم‘‘ ہے‘ لیکن اگر پاکستان کے عوام سے پوچھا جائے کہ نیو لبرل ازم کیا ہے؟ تو شاید ان کی اکثریت نے کبھی زندگی میں یہ لفظ سنا ہی نہ ہو۔ اگر سنا بھی ہو تو وہ یقین سے نہیں بتا سکیں گے کہ یہ کیا چیز ہے، اور ان کی زندگی کے مسائل سے اس کا کیا تعلق ہے۔ یہ عام لوگوں میں سیاسی و سماجی علم و شعور کی کمی کا اظہار ہے۔ اس بات کے لیے بھی کسی ثبوت کی چنداں ضرورت نہیں کہ جس ملک میں جتنی زیادہ علم و شعور کی کمی ہو گی، وہ ملک اتنا ہی زیادہ پسماندہ ہوگا۔ اس کے معاشی اور سماجی مسائل اتنے ہی گہرے اور گمبھیر ہوں گے۔ یہ کوئی ایک دو ملکوں کی بات نہیں، بلکہ غربت اور جہالت کا جو پرانا اور چولی دامن کا ساتھ ہے، اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
تاریخ میں جہاں کہیں بھی معاشی اور سماجی طور پر پسماندہ معاشرے میں کوئی تبدیلی اور انقلاب آیا، تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ رہی ہے کہ وہاں کے رہنماؤں نے سب سے پہلے عوام کو علم و شعور کے ہتھیاروں سے مسلح کیا۔ اس علم و شعور کی بنیاد پر ان کو کسی ایسی انقلابی تحریک یا سیاسی پارٹی سے جوڑا، جو ان کے معاشی و سماجی مسائل سے واقف تھی، اور ان کے خاتمے کے لیے ایک واضح پروگرام رکھتی تھی۔ عوام کو اس پروگرام کے بارے میں آگاہ کیا گیا۔ پارٹی لیڈرشپ کے تحت عوام کی سیاسی تعلیم کا بندوبست کیا گیا۔ اس بندوبست کے تحت ان کو سمجھایا گیا کہ ان کے اصل مسائل کیا ہیں۔ ان کی غربت اور پسماندگی کے اسباب کیا ہیں، اور ان سے چھٹکارے کا طریقہ کیا ہے۔ اس طرح عوام شعوری طور پر کسی پارٹی یا تحریک کے پرچم تلے جمع ہو کر اس کے منشور کی روشنی میں سماج میں تبدیلی کے لیے منظم ہوئے اور اس سارے عمل سے گزرنے کے بعد پارٹی یا تحریک میں اپنا کردار ادا کیا۔
دنیا میں اس عمل کے بغیر نہ تو صحیح معنوں میں کوئی انقلاب برپا ہوا، اور نہ ہی عوام کی زندگیوں میں کوئی قابل ذکر تبدیلی آئی‘ لیکن پاکستان کا مقدمہ اس تھوڑا زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہاں تبدیلی کی تحریکیں تو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں۔ پارٹیوں کا یہ عالم ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی پارٹیاں کم اور لمیٹڈ کمپنیاں زیادہ بن چکی ہیں‘ یا پھر جدید قبائل کی شکل اختیار کر چکی ہیں، جن کو مورثی مفادات کے آئینے میں کمرشل بنیادوں پر چلایا جاتا ہے۔ عوام کے آگے جوابدہی سے انکار، تاحیات پارٹی صدارت، اس صدارت کی نسل در نسل منتقلی، ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل اس کی ادنیٰ مثالیں ہیں۔ ان حالات میں عوام کی تعلیم و تربیت تو کیا خود پارٹی لیڈر مطلوبہ سیاسی علم و شعور نہیں رکھتے، جو ایک سیاسی لیڈر کے لیے لازم ہے۔
میں نے اوپر نیو لبرل ازم کی مثال دی تھی جو ہمارے دور کا اہم ترین معاشی و سیاسی نظریہ ہے۔ اس باب میں عوام کو ایک طرف رکھیے۔ صرف ان لوگوں کو ہی لیجئے جو صرف ہائی سکول یا کالج سے فارغ التحصیل نہیں، بلکہ ان کے پا س یونیورسٹی کی ڈگریاں ہیں۔ ان سے اگر پوچھا جائے کہ نیولبرل ازم کیا ہے، تو جو جوابات سننے کو ملتے ہیں، وہ دماغ چکرا دینے والے ہوتے ہیں۔ ایک مقبول عام جواب یہ ہوگا کہ نیولبرل ازم بے راہروی اور گمراہی کا نظام ہے۔ یہ سوال لے کر کچھ اور آگے بڑھیں تو کوئی اسے فحاشی اور عریانی کا نظام قرار دے گا۔ کوئی اسے کفر الحاد سے جوڑے گا۔ کوئی آپ سے الٹا یہ سوال کرے گا کہ نیولبرال ازم پر بات کرنے سے پہلے یہ تو بتائیں کہ لبرل ازم کیا ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ یہ سب جوابات غلط اور گمراہ کن ہیں۔ ان جوابات کا لبرل ازم اور اس کے تصورات سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہے‘ لیکن یہ تمام جوابات اس تلخ حقیقت کے عکاس ہیں کہ ہمارے ہاں نظام تعلیم کس قدر فرسودگی اور زوال کا شکار ہے اور یونیورسٹی گریجویٹ کا مطالعہ اور علم کس قدر محدود ہوتا جا رہا ہے۔ دنیا کے اہم ترین موضوعات پر ان کا علم کتنے گمراہ کن تصورات اور فرسودہ تعصبات پر مشتمل ہے۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام کا ایک نیا اور حیران کن موڑ ہے۔ اگر ہمارے یونیورسٹی گریجویٹس کو نیولبرل ازم کے بارے میں کوئی پتہ نہیں جو ہمارے دور کا مروجہ نظام ہے، تو زندگی کے دیگر معاشی و سماجی نظاموں کے بارے میں ان کی معلومات کیا ہوں گی‘ اور وہ زندگی کو درپیش معاشی و سماجی مسائل پر کیا نقطہ نظر رکھتے ہوں گے۔
ہماری موجودہ اور حالیہ زندگی کے جتنے بڑے مسائل ہیں، ان کا تعلق کسی نہ کسی طریقے سے جا کر نیولبرل ازم سے ملتا ہے۔ اس کی ایک بڑی مثال دو ہزار سات اور آٹھ کا عالمی معاشی بحران ہے‘ جب نیولبرل ازم کی ناکامی سے دنیا کا معاشی نظام ہل کر رہ گیا تھا۔ دولت کی دوسرے ممالک میں منتقلی ہمارے دور کا ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی ایک مثال ہمارے ہاں پانامہ پیپرز کی شکل میں سامنے آئی تھی، اور ابھی حال ہی میں اس کی ایک اور جھلک پنڈورا پیپرز میں بھی دکھائی دی تھی، جن پر آج کل پُراسرار خاموشی کا پردہ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں صحت و تعلیم کے شعبوں میں ایک بحرانی کیفیت ہے، جس کا زیادہ واضح اظہار کورونا بحران کے دوران ہوا، مگر حقیقت میں یہ بحران بہت پہلے کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ دنیا میں بچوں کی غربت کا مسئلہ دن بدن شدت اختیار کرتا جا رہا ہے‘ اور یہ صرف غریب اور پسماندہ ممالک میں ہی نہیں ہو رہا، بلکہ ترقی یافتہ اور خوشحال ممالک میں بھی یہ مسئلہ خوفناک شکل میں بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح دنیا میں ماحولیاتی تباہی میں شدت بھی ایک بڑا گمبھیر مسئلہ ہے، جو دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک تباہ کن شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں نفرت اور نسلی امتیاز پر مبنی شدت پسند سیاست کے رجحانات اور مقبولیت میں اضافہ بھی ایک ایسا ہی مسئلہ ہے ، جس کا سامنا غریب اور امیر ممالک کے عوام کو یکساں طور پر ہے۔
ہم دنیا میں ان مسائل کو الگ الگ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ سب مسائل آپس میں کہیں نہ کہیں جڑے ہوئے ہیں، اور ان کا تعلق بالآخر جا کر نیولبرل ازم کے فلسفے سے جڑتا ہے‘ لیکن ہم اس کو بطور فلسفہ سمجھنے اور تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ نیو لبرل ازم کے بارے میں غریب عوام کا جاننا اس لیے ضروری ہے کہ ان کی غربت، بے روزگاری، مہنگائی اور طبقاتی لوٹ کھسوٹ کا تعلق نیو لبرل ازم سے ہے۔ لبرل ازم کی وجہ سے عوام صرف معاشی مسائل کا شکار ہی نہیں‘ ان کے بے شمار سماجی اور نفسیاتی مسائل کا تعلق بھی اسی نظام سے بنتا ہے۔ مغربی سماج میں ڈپریشن، سوشل فوبیا، خود کشیاں، تنہائی اور بے سکونی جیسے مسائل اسی نظام کی دین ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved