سردیاں اب لاہور کی دہلیز پر ہیں۔ فضا میں خنکی رچنے لگی ہے اور سردیوں کی خوشبو ہوا کے جھونکوں کے ساتھ دستک دیتی ہے۔ یہ خزاں کا موسم ہے۔ لاہور میں اگرچہ خزاں اتنی خوبصورت نہیں ہوتی جتنی شمالی اور سرد علاقوں میں لیکن پھر بھی اس موسم میں ہرے پیڑ نارنجی اور زرد لباس اوڑھنے لگتے ہیں۔ ہری گھاس پر زرد پتوں کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ پتاور کمال خوبصورت ہوتے ہیں، کسی پھولوں کے ڈھیر کی طرح۔ شرط یہ ہے کہ ہم اس کی خوبصورتیوں کو دیکھ سکیں اور اس کی اور اپنی مماثلت محسوس کر سکیں:
کبھی جھانک تو کسی برگ زرد کی آنکھ میں
کوئی آشنا تجھے دیکھتا نظر آئے گا
ایئرکنڈیشنرز اور پنکھوں کا شوروشغب کم ہوا ہے تو زندگی بھی کچھ پُرسکون ہونے لگی ہے۔ کبھی سردیوں کی شاموں اور راتوں پر غور کریں کتنی پُرسکون ہوتی ہیں دوسری راتوں کے مقابلے میں۔ ایئرکنڈیشنرز اور پنکھے تو الگ، ٹریفک اور جانوروں کو بھی چپ سی لگ جاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے قدرت نے ہر چیز پر سائلنسر فٹ کردیا ہے۔ بجلی کا استعمال کم ہوتا ہے تو ایک خوشی یہ بھی شروع ہو جاتی ہے کہ اب جان لیوا بلوں سے چند ماہ کیلئے چھٹکارا مل جائے گا۔ اب عام طور پر عادتیں بگڑ گئی ہیں اور آسائشیں جسم کو لگ چکی ہیں۔ یہ آسائشیں ہر ماہ اپنی قیمت گردن پر خنجر رکھ کر وصول کرلیتی ہیں۔ گرمی کے تمام مہینے گرمی اور بل بھگتتے گزرتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر ہوشربا ٹیکس بھی۔ اس مرتبہ دفتر کا سالانہ پراپرٹی ٹیکس آیا تو وہ پچھلے سال سے بہت زیادہ تھا۔ پہلے تو ایکسائز انسپکٹر کو فون کرنے پڑے کہ مہربان! کسی وقت اس اضافے کی وضاحت کرنے تشریف لائیے۔ خدا خدا کرکے اس نے دفتر کو رونق بخشی اور ایک نوٹیفکیشن کی کاپی ہاتھ میں تھما دی کہ حضور! ہمارا کیا قصور ہے‘ پڑھ لیجیے کہ گورنمنٹ نے اس سال کمرشل پراپرٹیز پر 60 فیصد ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ آپ احتجاج کریں، جلوس نکالیں، بیان دیں، کچھ بھی کریں ہمارا کوئی واسطہ نہیں‘ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ سرکاری محکموں کا یہ ٹکا سا جواب اگرچہ غیرمتوقع نہیں ہوتا لیکن ہر بار خون کے اشتعال اور بے بسی کے غصے پر قابو پانا مشکل ہے‘ اور یہ اشتعال اور غصہ صرف پراپرٹی ٹیکس سے متعلق نہیں‘ اب تو زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہے۔ یوٹیلٹی بل ہوں، گوشت سبزی پھل کی خریداری ہو یا گاڑی کا پٹرول۔ ہر طرف سے یہی غصہ اور بے بسی گھیر لیتے ہیں۔ آخر بندہ جائے بھی کہاں: ؎
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
میکشی بھی جرم ہے اور خود کشی بھی جرم ہے
ذرا دیکھیے بات کن خوبصورتیوں کے ذکر سے شروع ہوئی تھی اور کن عذابِ جاں مسائل کی طرف مڑ گئی۔ قصور ہمارا بھی نہیں۔ زندگی کی یہ تلخیاں ایسی اعصاب اور ذہن پر حاوی ہوئی ہیں کہ خوب صورتیوں سے لطف اندوز ہونے کا ہر موقعہ ضائع ہو جاتا ہے ورنہ بھلا بتائیے! یہ سیاست، دھرنے، بیانات پر بات کرنے کا موسم ہے بھلا؟ یہ تو گلابی جاڑوں سے لطف اندوز ہونے کا موسم ہے۔ یہ موسم تو ان تبدیلیوں پر بات کرنے کا موسم ہے جو اکتوبر اور نومبر میں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ ایسے میں سیاست پر بات کرکے کون منہ کا ذائقہ خراب کرے۔
اکتوبر تو الکلی اور اس کے ادبی میلے کو یاد کرنے کا موسم ہوتا ہے۔ الکلی (Ilkely) جوشمالی انگلینڈ میں ویسٹ یارک شائر (West Yorkshire) کا ایک قصبہ ہے۔ یہ اکتوبر کا آخر ہے اور اکتوبر میں الکلی کا ادبی میلہ اپنی گہما گہمی کی مہک میں مست ہوتا ہے۔ اس ادبی میلے پر پہلے لکھ چکا ہوں۔ جیسے میں دیکھ رہا ہوں کہ الکلی آڈیٹوریم میں ادیبوں، شاعروں کا جمگھٹا ہو گا اور ادب کے شائقین مضامین، نظمیں اور غزلیں سن رہے ہوں گے۔ مینور ہاؤس ہیری ٹیج میوزیم ) (Manor House museum اور آڈیٹوریم کے سامنے سڑک کے پاردریا میں اترتی سیڑھیوں پر کچھ لوگ بیٹھے ہوں گے اور سفید راج ہنسوں، برّاق بطخوں اور نیلی گردن، جامنی پروں والی مرغابیوں کو آہستگی سے دریا میں تیرتے دیکھ رہے ہوں گے۔ زندگی ویسی ہی شانت اور شیتل ہوگی جیسے دریائے وہارف (River wharfe) کا پانی۔ اس منظرکو میں بالکل سامنے دیکھ سکتا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اب بھی سب کچھ ویسا ہی ہوگا جیسا ہمارے سامنے تھا۔ ایک سرخ رنگ کا پرندہ درخت پر بیٹھا ہوگا جیسے کوئی شاخ پر کھلا ہوا پھول ہو۔ بالکل اسی طرح جیسے اس دن تھا۔
یہ رت تو مہاجر پرندوں کے استقبال کی رت ہے۔ وہ رت جب شمال سے جنوب کی طرف اڑان بھرتے قریب قریب دس لاکھ مہاجر پرندے افغانستان، قازقستان کے راستے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آتے ہیں۔ یہ گرین روٹ یا انڈس فلائی وے ان کا راستا ہے جہاں میٹھے پانیوں سے بھری منگلا، ہالے جی، کینجھر، حمل کچری، لنگ اور ہادیرو سمیت بہت سی جھیلیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔ نقرئی کونجیں، براق سارس، خاکستری تلور، قرمزی گردنوں والی مرغابیاں، جامنی سرخاب، سفید ہنس، سرمئی مگ، لمبی ٹانگوں والی قازیں۔ طرح طرح کے پرندے سروں کے اوپر سے ڈاروں کی شکل میں آڑی ترچھی قوسیں بناتے گزرتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے اندر وہ نظام نصب ہے جو انہیں ایک خاص سمت میں، خاص ترتیب سے اڑنا سکھاتا ہے۔ انسان بھی کیا ہے۔ نہ ان کی طرح مکان بنا سکتا ہے نہ نقل مکانی کرسکتا ہے۔
یہ موسم تو سردی کو خوش آمدید کہنے کا موسم ہے۔ عام طور پر اکتوبر نومبر میں لاہور اور بالائی پنجاب میں بارشیں نہیں ہوتیں اور یہ مہینے اسی لیے بڑے اجتماعات کے لیے موزوں سمجھے جاتے ہیں لیکن شمال سے آنے والی سرد ہواؤں کے ساتھ ایک بارش اس سردی کو گھر کے اندر لا کھڑا کرے گی جس کا انتظار ستمبر سے شروع ہوجاتا ہے۔ لاہور کی ہی بات نہیں پورے ملک میں سردی کا انتظار رہتا ہے کیونکہ سردی اپنے ساتھ بہت سے تحفے لے کر آتی ہے۔ ایک نہیں بے شمار تحفے۔ لاہور میں یہ موسم بہت سی خوشخبریاں اور بہت سے تحفے لے کر آتا ہے۔ گرمیوں کے پھل کم ہوتے ہوتے نظر آنا بالکل ختم ہوجائیں گے۔ شہنشاہ آم تو اپنا تام جھام سمیٹ کر کئی ماہ سے رخصت ہوہی چکے ہیں۔ اکا دکا ٹھیلوں پر سنگھاڑے نظر آنے لگے ہیں۔ اس موسم کی خاص سوغات شکرقندی اور سنگھاڑے بھی ہیں۔ خشک میوے کی ریڑھیاں اور دکانیں سجنا شروع ہوجاتی ہیں۔ تلی ہوئی مچھلی کی مشہور دکانوں پر رات کے وقت رونق شروع ہوجاتی ہے۔ کشمیری چائے پر رات کو محفلیں جمنے لگیں گی۔ کافی شاپس مقبول ہونے کے باوجود لاہور کے روایتی ثقافت کا اس طرح حصہ تو نہیں بنیں جیسے چائے کے ڈھابے اور فٹ پاتھوں پر بنے قہوے کے اڈے، لیکن ایک بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے لڑکیاں برانڈڈ کافی شاپس پر جاتے ہیں اور کافی تیزی سے یہ کافی لاہوری مزاج کا حصہ بن رہی ہے۔ انگاروں پر سینکے ہوئے گوشت کی اشتہا انگیز مہک سرد فضا میں سرِ شام شروع ہوجاتی ہے۔ باربی کیو ویسے تو سال بھر چلتا ہے لیکن سردیوں میں ان دکانوں کا کاروبار اپنے عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
کیسی بدقسمتی ہوتی ہے جو ہماری مجبوریاں، ترجیحات اور ذمے داریاں مل کر ہم پر مسلط کردیتی ہیں۔ ان گلابی جاڑوں سے، ان خنک مہک والے دنوں سے، ان زرد پتاوروں کے حسن سے منہ موڑ کر ہم دھرنوں، سیاستوں، بلوں اور ٹیکسوں میں یہ نایاب وقت گزار رہے ہیں اور یونہی گزار دیں گے۔ لاکھوں کا ساون ضائع ہونا اور دو ٹکیاں دی نوکری دونوں ساتھ ساتھ۔ کوئی نقصان سا نقصان ہے؟ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے؟