تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     01-11-2021

حالات کو زیادہ خراب کیسے کیا جائے؟؟

حکومتیں حماقتوں کا ارتکاب کرتی ہیں جب کہ فرد اپنے فیصلے عقل مندی سے کرتا ہے۔
گلستانِ سعدی اور قابوس نامہ کے علاوہ حکمرانوں کو ایک اور کتاب جو ضرور پڑھنی چاہیے، وہ خاتون امریکی تاریخ دان باربرا ٹَک مَین کی شہرۂ آفاق تصنیف 'حماقتوں کا مارچ‘ ہے‘ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران ایسی کتابیں پڑھتے ہیں؟ بلکہ زیادہ معقول سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے حکمران کتابیں پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ لیاقت علی خان اپنے آخری سفر کے دوران بین الاقوامی تاریخ پر لکھی ہوئی، اُس وقت کی، تازہ ترین کتاب پڑھ رہے تھے۔ بھٹو صاحب کتابیں پڑھتے تھے۔ بے نظیر بھٹو بھی۔ ان کے بعد جو آئے، ان کے بارے میں کہنے کی نسبت کچھ نہ کہنا بہتر ہے۔ باربرا ٹک مین کی طرف واپس آتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ حکومتوں کے مقابلے میں فرد کے فیصلے دانش مندانہ ہوتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک فرد جب فیصلہ کرتا ہے کہ بزنس کون سا کرے، بچوں کی شادیاں کہاں کرے، مکان کیسا بنائے، تو خوب سوچ سمجھ کر اور معاملات کی تمام جہتوں کو پیشِ نظر رکھ کر کرتا ہے۔ حکومتوں کے فیصلے اس کے مقابلے میں احمقانہ ہوتے ہیں۔ آپ نجی ایئر لائنوں کا مقابلہ قومی ایئر لائن سے کر کے دیکھ لیجیے۔ سرکاری سٹیل مل کو دیکھ لیجیے۔ نجی شعبے میں سٹیل کا کاروبار خوب نفع کما رہا ہے۔ صنعتوں کو قومیانے کے فیصلے پر غور کیجیے۔ بے پناہ نقصان ہوا۔ ملک کئی عشرے پیچھے چلا گیا۔ جنرل ضیا کے فیصلے نے ملک کو غیر ملکیو ں سے، اسلحہ سے اور منشیات سے بھر دیا۔ موجودہ حکومت کے فیصلوں پر غور کیجیے۔ سیاحت کے محکمے کے تیس سے زیادہ موٹل بند کر دیے گئے ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی کا سربراہ جس طرح لگایا گیا، کیا اُس طرح نجی شعبے میں ہو سکتا ہے؟
موجودہ منظرنامہ دیکھ لیجیے۔ ایسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ سر پیٹنے کو دل کر رہا ہے۔ کالعدم تنظیم کے حوالے سے جو وزرا بیان پر بیان دے رہے ہیں اور دیتے رہے ہیں، کیا ان میں سے کسی ایک کو بھی جناب وزیر اعظم اپنے ہسپتال یا اپنی یونیورسٹی کا انتظام سونپ سکتے ہیں؟ نہ صرف یہ کہ وزرا کے بیانات ایک دوسرے کے بیانات سے متصادم ہیں بلکہ ایک ہی وزیر کے بیانات ایک دن کچھ اور، دوسرے دن کچھ اور ہیں۔ صرف اسی حقیقت پر غور کیجیے کہ جن صاحب نے قوم کو اطلاع دی کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ جو معاہدہ حکومت نے کیا تھا اور جس پر دو وفاقی وزرا نے دستخط کیے تھے، اس معاہدے کا علم وزیر اعظم کو نہیں تھا، آپ کا کیا خیال ہے کہ نجی شعبے میں ایسا بیان دینے والے شخص کے خلاف کوئی ایکشن نہ ہوتا؟ مذہبی امور کے وزیر نے برملا اسے جھوٹ قرار دیا اور کہا ہے کہ ان کی (یعنی وزیر مذہبی امور کی) مجال نہیں کہ وزیر اعظم کو بتائے بغیر کوئی معاہدہ کریں۔
فرض کیجیے آپ کی ایک فیکٹری ہے جس میں کچھ ہزار ورکر کام کر رہے ہیں۔ آپ نے اس کا چیف منیجر یا منیجنگ ڈائریکٹر رکھنا ہے۔ کیا آپ کسی ایسے شخص کو اس حساس کام کے لیے منتخب کریں گے جو پچھلے چند برسوں میں کئی ملازمتیں چھوڑ چکا ہے؟ کیا آپ اس کے ماضی کی بنیاد پر اس کا پروفائل نہیں بنائیں گے؟ موجودہ بحران کے تناظر میں جو حکومتی عمائدین پیش منظر پر چھائے ہوئے ہیں، وہ کئی پارٹیوں کی مسافرت طے کر کے، اور کئی حکومتوں کا پانی پی کر اس حکومت میں شامل ہوئے ہیں۔ کیا وہ اس بحران کے حوالے سے موزوں ترین شخصیات ہیں؟ موجودہ حکومت میں، گنتی ہی کے سہی، مگر ایسے افراد ضرور موجود ہیں جو اس بحران کے دوران ابلاغ کی ذمہ داری بہتر طور پر نبھا سکتے تھے‘ مگر Right man for the right job پر عمل کرنا یہاں بہت مشکل ہے۔ یہ تو ایک سائنس ہے۔ پوری سائنس! یہی تو وہ رکاوٹ ہے جو اس ملک کی ترقی کے راستے میں حائل ہے۔ جس کام کے لیے الف موزوں ہے وہاں جیم کو بٹھا دیا جاتا ہے اور الف کو جو کام سونپا جاتا ہے وہ اس سے کوئی مناسبت نہیں رکھتا! کون انکار کر سکتا ہے کہ متضاد بیانات کی وجہ سے حکومت خجالت کا سامنا کر رہی ہے۔ مگر ذرا ٹھہریے! خجالت بھی تب ہوتی ہے جب اسے محسوس کیا جائے۔ محسوس کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو تو کہاں کی خجالت!
ایک عذرِ لنگ یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ٹیم اچھی نہیں! تو کیا کسی نے یہ ٹیم زبردستی مسلط کی ہے؟ خود ہی تو وزیر اعظم نے یہ ٹیم چنی ہے اور تشکیل دی ہے۔ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے اور حکمران اپنی ٹیم سے! پچاس سے زیادہ افراد کے بجائے پندرہ بیس افراد کابینہ میں ہوتے مگر ایسے کہ ایک ایک فرد بیس بیس کے برابر ہوتا۔ ایسے کہ جن کی مناسبت، موزونیت، لیاقت، تجربہ اور اخلاص شک و شبہ سے ماورا ہوتا۔ ایسا ہوتا تو سارا منظرنامہ ہی مختلف ہوتا۔ جب تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو سب سے بڑی دلیل ہی اس کے حق میں یہی تھی کہ سب کو آزما لیا ہے تو تحریک انصاف کے لیڈر کو بھی آزما لیا جائے۔ مگر شومئی قسمت کہ جب تحریک انصاف کو حکومت ملی تو چُن چُن کر اُن افراد کو ذمہ داریاں سونپی گئیں جو ایک بار نہیں بار بار آزمائے جا چکے تھے۔ وہی پرانے چہرے!! مرغانِ باد نما کے ڈھیر لگا دیے گئے۔
اندرونی بحران طاقت سے نہیں، حکمت سے نمٹائے جاتے ہیں۔ اپنے عوام پر طاقت کا استعمال جمہوریت کا نہیں آمریت کا شاخسانہ ہے۔ دھمکی والی جو زبان جنرل پرویز مشرف نے اکبر بگتی کے لیے استعمال کی تھی، اس زبان سے گریز کرنا چاہیے۔ نیت صاف ہو تو مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘ لیکن اگر طرز عمل یہ ہو کہ معاہدہ کیا جائے، پھر اس معاہدے کو خاطر ہی میں نہ لایا جائے، وعدے پورے ہی نہ کیے جائیں تو اس پس منظر میں مذاکرات کی کامیابی کے امکانات کم ہوتے ہیں۔ پھر مردانِ کار ایسے جو پانی ڈالنے کے بجائے آگ کو ہوا دیں، متضاد بیانات دیں اور اشتعال انگیز باتیں کریں، جن کی ساکھ ہی نہ ہو اور جن پر اعتبار ہی کوئی نہ کرے!
اصل مسئلہ وہ دیوار ہے جو حکمران اپنے ارد گرد کھڑی کر لیتے ہیں۔ ایک حصار ہے جو ان کے گرد باندھ دیا جاتا ہے۔ اصل صورت حال سے انہیں جان بوجھ کر بے خبر رکھا جاتا ہے۔ حکمران اپنی اس مصنوعی دنیا میں گُم ہو جاتے ہیں اور مست رہتے ہیں۔ اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لیے مفاد پرست مصاحب غلط مشورے دیتے ہیں۔ پھر جب طوفان سر پر آتا ہے تو کمال معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ لوگ برہم کیوں ہیں؟ اسی معصومیت سے ہمارے وزیر اعظم نے کل کہا ہے کہ غربت کم ہو گئی ہے۔ پہلے زمانوں کے بادشاہ بھیس بدل کر شہروں میں پھرتے تھے تو اس میں یہی حکمت تھی کہ اپنی آنکھوں سے حالات دیکھیں اور اپنے کانوں سے عوام کی باتیں سنیں۔ مغربی ممالک کے حکمران برگر خریدنے کے لیے قطار میں کھڑے ہوتے ہیں یا اپنا سودا سلف بازار سے خود خریدتے ہیں تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی زلہ خوار یا چرب زبان یا دروغ گو انہیں اصل حالات سے بے خبر نہیں رکھ سکتا۔ ناروے کا وزیر اعظم عوام کے خیالات جاننے کے لیے بھیس بدل کر ٹیکسی چلاتا رہا اور مسافروں کی باتیں سنتا رہا۔ خلفائے راشدین کی یہی وہ روایات ہیں جو دوسروں نے اپنا لیں اور کامیاب ٹھہرے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved