تحریر : عبداللہ بابراعوان تاریخ اشاعت     01-11-2021

Criminals in Politics …(2)

سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنے پہلے فیصلے میں بھارت کی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس میں ڈاکٹر راجندر پرساد کی ایک تقریر سے چند الفاظ چُن کر لکھے۔ 26نومبر 1949ء کو ڈاکٹر راجندر نے کہا تھا '' کسی ملک کی ویلفیئر اس بات پر انحصار نہیں کرتی کہ اس کا آئین اس کے بارے میں کچھ کہتا ہے یا خاموش ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ملک چلانے والے لوگ‘ اُن کا کردار اور طرزِ عمل ہی یہ فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘
اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ Men in Authority‘ جن کو عرفِ عام میں کسی سوسائٹی کے منیجرز بھی کہا جا سکتا ہے‘ وہ معصوم نہ ہوں تب بھی مجرم نہیں ہونے چاہئیں۔
نان سٹیٹ ایکٹر‘ جو بے آباد‘ گزرگاہوں سے پرے‘ دریا کے کچے کناروں کے ساتھ سرکنڈوں میں چھپ کر رہتے ہوں‘ وہ بسیں لوٹیں یا ارد گرد کے باسیوں کو‘ اُنہیں کچے کے ڈاکو کہا جاتا ہے۔ پکے کے ڈاکو اُنہیں کہا جاتا ہے جن کے پاس ملک کی زمامِ اقتدار آ جائے اور وہ اہلِ وطن سے وفاداری اور قوم کے خزانے کی حفاظت کا حلف اُٹھانے کے بعد اُسے ہی لوٹنا شروع کر دیں۔
پانامہ کیسز کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ آف پاکستان سے یہ تاریخی ریمارکس آئے کہ ہر بڑی دولت کے پیچھے بڑا جرم چھپا ہوتا ہے۔ جن ممالک میں سیاست لمیٹڈ کمپنی کی طرز سے ''فیملی بزنس‘‘ بن جائے‘ وہاں بڑی سیاست کے پیچھے Money and Muscle‘ دونوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔ جسے یقین نہ آئے وہ 10 موسٹ پاورفل ماب باسز آف آل ٹائم دیکھ لے۔ ان ٹاپ 10 میں 1925ء سے 1931ء تک امریکہ کی ریاست ایلی نائے کے مشہور شہر شکاگو کا رہائشی ایل کاپون آتا ہے جو 1899ء میں نیو یارک شہر میں پیدا ہوا اور جس نے بچپن میں ہی جیمز سٹریٹ بوائز کا گینگ جوائن کر لیا تھا۔ ایل کاپون کا گُرو جانی ٹاریو تھا‘ جو اُسے شکاگو لے گیا۔ 1929ء میں ویلنٹائن ڈے پر ایل کاپون نے اپنے مخالفوں کو شکاگو کی سڑکوں پہ برسر عام پھانسیوں پر لٹکا دیا‘ مگر کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ جانی ٹاریوکے لمبے ہاتھ اقتدار کے بڑے گھروں تک پہنچے ہوئے تھے۔ عین اسی طرح کچے کے چھوٹو گینگ اور شہر لاہور کے ٹاپ 10 گینگسٹرز کی کہانیوں سے پرنٹ اور سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے۔
انڈین سپریم کورٹ نے رام بابو سنگھ ٹھاکر بنام سنیل اروڑا کیس میں دائر کی گئی توہین عدالت کی درخواست پر تاریخ ساز‘ لینڈ مارک فیصلہ دیا۔ جسٹس آر ایف نریمان کے صادر کردہ فیصلے کے پیراگراف نمبر دو میں ایک بہت اہم بنیادی نکتہ اٹھایا گیا۔ جسٹس نریمان نے لکھا کہ کریمنلائزیشن آف پالیٹکس اِن انڈیا کے حوالے سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان 'کریمنلز اِن پالیٹکس‘ کے بارے میں عام بھارتی شہری تک صحیح معلومات اور تفصیلات نہیں پہنچ سکتیں۔ جسٹس نریمان اس بات پر حیران ہوئے کہ انفارمیشن کے سارے فلڈ گیٹ کھل جانے کے بعد بھی اس حوالے سے ملک میں انفارمیشن گیپ کیوں موجود ہے؟ ظاہر ہے اس کا سبب Money and Muscle کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اسی مقدمے میں‘ جو ایک انتخابی تنازع کے بارے میں تھا‘ انفارمیشن گیپ کو دور کرنے کے لیے چار راستے تجویزکیے۔
پہلا راستہ: ہر انتخابی امیدوار الیکشن کمیشن کے پاس کاغذات نامزدگی دائر کرتے وقت Bold Letters میں اپنے خلاف موجود مقدمات کی واضح تفصیلات درج کرنے کا پابند ہو گا۔
دوسرا راستہ: اگر کوئی امیدوار کسی سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہا ہو‘ چاہے وہ مرد ہو یا عورت‘ تو وہ ٹکٹ کی درخواست میں اپنے خلاف درج مقدمات اور پینڈنگ کیسز کی تفصیل لکھ کر متعلقہ سیاسی جماعت کو پیش کرنے کا پابند ہو گا۔
تیسرا راستہ: ایسی پولیٹیکل پارٹی جس سے کریمنل ریکارڈ رکھنے والا یا کوئی سزا یافتہ شخص ٹکٹ مانگنے کی درخواست دے گا ایسی صورت میں ملک کی ہر سیاسی پارٹی اس مرحلے پر قانوناً پابند ہو گی کہ وہ متعلقہ امیدوار کے کریمنل ریکارڈ کی تمام تفصیلات اپنی پارٹی کی ویب سائٹ پر واضح طور پر پوسٹ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ ہر ووٹر یہ تفصیلات دیکھ سکے۔
چوتھا راستہ: کریمنل پینڈنگ کیسز یا سزا یافتہ ہونے کا یکارڈ رکھنے والا امیدوار اور متعلقہ پولیٹیکل پارٹی اس بات کی پابند ہو گی کہ وہ ایک ڈیکلریشن جاری کرے‘ پھر پارٹی ایسے ڈیکلریشن کو سب سے زیادہ اشاعت اور سرکولیشن رکھنے والے اخبارات میں خاص طور سے انتخابی حلقے کے علاقوں میں امیدوار کے کریمنل ریکارڈ اور سزا یافتگی کو نشر کرنے کی پابند ہو گی۔ ایسا ہر امیدوار اور سیاسی جماعت‘ دونوں الیکٹرانک میڈیا پر بھی انتخابی امید وار کے کریمنل ریکارڈ اور سزا یابی کی تفصیلات کو Wide پبلسٹی دینے کے پابند ہوں گے۔
سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنے حکم کی مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ بڑے پیمانے پر اس پبلسٹی سے عدالت کی مراد یہ ہے کہ ایسا ہر امیدوار کاغذات نامزدگی دائر کرنے کے ساتھ ہی کم از کم تین دفعہ الیکٹرانک میڈیا پر کریمنل پینڈنگ کیسز اور سزا یابی کی ساری تفصیلات بڑے پیمانے پر نشر کروانے کا پابند ہو گا۔ عدالت میں الیکشن کمیشن آف انڈیا کی جانب سے جو تفصیلات سامنے رکھی گئیں‘ اُنہوں نے ملک میں تہلکہ مچا دیا۔ مثال کے طور پر سپریم کورٹ کے سامنے تفصیلات سے یہ بات پہلی بار ریکارڈ پر آ گئی کہ گزرے ہوئے چار جنرل الیکشنز کے دوران ڈرا دینے والی حد تک کریمنلز ان پالیٹکس کی تعداد میں اضافہ ہوتا آیا ہے۔
2004ء میں 24 فیصد ممبرز آف پارلیمنٹ کے خلاف کریمنل کیسز پینڈنگ پڑے ہوئے تھے۔ 2009ء میں کریمنلز اِن پارلیمنٹ کی تعداد بڑھ کر 30 فیصد تک جا پہنچی۔ 2014ء میں پارلیمنٹ آف انڈیا کے 34 فیصد ممبرز فوجداری مقدمات کے مجرم نکل آئے۔ سپریم کورٹ آف انڈیا کہتی ہے کہ آنے والے سالوں میں یہ تعداد پھر کبھی کم نہ ہو سکی؛ چنانچہ 2019ء کے تازہ الیکشن میں پارلیمنٹ آف انڈیا کے 43 فیصد ایم پیز فوجداری مقدمات کے مجرم نکلے۔
انڈین سپریم کورٹ یہیں نہیں رُکی‘ آرٹیکل 129 اور 142 کے تحت اپنے اختیارات بروئے کار لاتے ہوئے ووٹ اور ووٹر دونوں کو عزت دینے کے لئے الیکشن کمیشن‘ الیکشن ٹریبونلز اور ہائی کورٹس یا ریٹرننگ آفیسرز سمیت سب کو ایک روڈ میپ کا پابند کر ڈالا۔ اس روڈ میپ کے چھ نکات کی تفصیل پڑھنے کے قابل ہے۔ اوّلین نکتے میں سپریم کورٹ نے سینٹرل اور سٹیٹ الیکشنز‘ دونوں لیول پر تمام سیاسی جماعتوں کو پابند بنا دیا کہ وہ اپنے ہر امیدوار کے خلاف پینڈنگ کریمنل کیسز‘ اُن کی نوعیت‘ مقدمے میں لگائی گئی دفعات‘ اُن سے ملنے والی ممکنہ سزا‘ جرائم کی تفصیل کے ساتھ ساتھ یہ بھی لکھے اور پارٹی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے کہ کیا امید وار کے خلاف فردِ جرم عائد ہو چکی یا نہیں۔ مقدمے کا نمبر کیا ہے اور وہ کس ضلع کی کون سے عدالت میں ٹرائل کے کس مرحلے پر زیر سماعت ہے۔ یہاں سے پبلک انٹرسٹ جوڈیشل اِزم کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا ہے۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved