تحریر : آصف عفان تاریخ اشاعت     01-11-2021

ایک رسیدی کالم

ہمارے ہاں پبلک ریلیشننگ کرنے والے ہوں یا ورکنگ ریلیشن شپ کے لیے موافق حالات اور ماحول پیدا کرنے والے‘ دنیا داری نبھانے والے ہوں یا دل داری اختیار کرنے والے‘ خدمات کا اعتراف کرنے والے ہوں یا تعاون کا‘ اشرافیہ کی ضیافتوں اور محفلوں میں شرکت کے تذکرے کرنے والے ہوں یا سہولت کاری اور تابع داری سے لے کر اطاعت گزاری‘ ستائشِ باہمی اور تعلق اجاگر کرنے والے‘ رسیدی کالموں کی روایت عام ہے۔ اکثر احباب اور قارئین کا شکوہ ہے کہ آپ کو ستائشی کالم لکھتے ہوئے کیوں موت پڑتی ہے؟ حلقہ احباب میں مجھے ایک اور الزام کا سامنا بھی اکثر رہتا ہے کہ میں ڈپریشن پھیلانے کے علاوہ حالات کا ماتم بہت کرتا ہوں۔ ان سبھی کا اعتراض ہے کہ حالات پہلے ہی کیا کم مایوس کن ہیں کہ میں مایوسیوں کے سائے اس قدر بڑھا دیتا ہوں کہ ہر طرف اندھیرا ہی چھایا دکھائی دیتا ہے۔ میرا انہیں ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ ملامتی حالات میں ماتمی کالم ہی لکھا جا سکتا ہے۔
مجھ پر اعتراض اُٹھانے والوں میں اکثر انسانی حقوق کے چیمپئن بن کر یہ مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناتے حکومت عوام کو کم از کم اُن بنیادی ضرورتوں سے تو محروم نہ کرے جو بحیثیتِ انسان ان کا حق ہے۔ میں جواباً ان سے یہ کہتا ہوں کہ انسانی حقوق تو انسانوں کے لیے ہوتے ہیں‘ تمہارے مسیحا اور نجات دہندہ حکمران تمہیں انسان ہی کب سمجھتے ہیں؟ جب یہ تمہیں انسان کے مرتبے پر فائز کر دیں گے‘ اُس دن شاید تمہیں وہ انسانی حقوق بھی مل جائیں گے‘ جن کا تم واویلا کرتے ہو۔
بنیادی اشیائے ضروریہ اور چولہے کے درمیان فاصلے اس قدر بڑھتے چلے جائیں کہ دیگر معمولاتِ زندگی تو درکنار دو وقت کی روٹی کا باقاعدگی سے حصول محال ہو جائے۔ تعلیم اور صحت سرکار کی ترجیحات میں دور دور تک دکھائی نہ دے۔ تھانے ہوں یا دیگر سرکاری ادارے سبھی میں داد رسی کے لیے آنے والوں کو ذلت‘ دھتکار اور پھٹکار کے سوا کچھ نہ ملتا ہو‘ ایسے حالات میں کالے کو سفید اور اندھیرے کو اُجالا کیسے لکھ دوں؟ کالے کرتوت اور اندھیر نگری میں پھیلے ان اندھیروں کو اُجلا سویرا کیسے کہہ سکتا ہوں؟ جب میں یہ دیکھوں کہ میرے وطن کے باسی خوراک کی قلت کا شکار ہیں تو میں خاموش تماشائی کیسے بنوں؟ جب میں یہ مشاہدہ کروں کہ ایک زرعی ملک ہونے کے باوصف پاکستان گندم اور چینی سمیت کھانے پینے کی متعدد اشیا دوسرے ممالک سے منگواتا اور اس پر اپنا قیمتی زرِ مبادلہ خرچ کرتا ہے تو میں اپنے ہونٹ کیسے سی لوں؟ جب میں یہ دیکھوں کہ میرے وطن کے نومولود خوراک کی قلت کے باعث پوری جسمانی گروتھ سے محروم ہوتے جا رہے ہیں تو میں خوشی اور مسرت کے شادیانے کیسے بجا سکتا ہوں؟ جب میں یہ دیکھوں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے میرے ہم وطنوں کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کے لیے جان و تن کا رشتہ قائم رکھنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے تو میں اطمینان بھرے کالم کیسے لکھوں؟ جب میں یہ دیکھوں کہ دودھ کے نام پر میرے ہم وطنوں کو زہر پلایا جارہا ہے اور کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ کرنے والوں کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں تو میں اپنی آنکھیں بند کیسے کر لوں؟ جب میں یہ دیکھوں کہ سرکاری دفتروں میں لوگوں کے جائز کام بھی رشوت دیئے یا کوئی تگڑی سفارش ڈھونڈے بغیر نہیں ہو سکتے تو میں 'سب ٹھیک ہے‘ کا نعرہ کیسے بلند کر دوں؟ لیکن یہ بات میرے لیے اور سب کے لیے خوش آئند ہے کہ ان سبھی ماتمی حالات کے تاریک اندھیروں میں کہیں کہیں ایسے جگنو بھی پائے جاتے ہیں جن کی روشنی ان تاریکیوں میں نہ صرف غنیمت ہے بلکہ شاید ایسی ہی روحوں کی وجہ سے انسانیت اور اس سے جڑے سبھی تقاضے آج بھی زندہ ہیں۔
تمہید کچھ طویل ہوتی چلی جا رہی ہے تاہم آج مجھے بھی ایک اعترافی اور رسیدی کالم لکھنا پڑگیا ہے اور یہ لکھتے ہوئے مجھے کوئی موت نہیں پڑی اور نہ ہی میرے دل اور ضمیر پر کوئی بوجھ ہے‘ کیونکہ یہ کالم کسی فرمائش پر نہیں ایک قرض کی ادائیگی اور سماجی خدمات کی رسید کے طور پر لکھ رہا ہوں۔ گورنر ہائوس میں ایک پُر وقار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اپنی ہی حکومت بالخصوص صدر مملکت عارف علوی کا شکریہ ادا کر رہے تھے کہ میرے لیے یہ مقام شکر ہے کہ ہماری حکومت نے وفاقی ٹیکس محتسب کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا ہے اس کے بارے میں بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تقرری سے اس اہم منصب کے قد اور اعتبار میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ ایف بی آر اور کسٹمز سمیت محصولات کے دیگر اداروں اور متعدد چیمبرز آف کامرس کے اعلیٰ عہدے داروں کے علاوہ مختلف شعبہ جات کی اہم شخصیات کے ساتھ خاکسار بھی اس تقریب میں شریک تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ٹیکس دہندگان خود اعتراف کر رہے تھے کہ نئے ٹیکس محتسب کی تقرری کے بعد ٹیکس نظام کی ظالمانہ اور بد لحاظ پالیسیاں دم توڑتی نظر آتی ہیں‘ اب ہم بلیک میل ہونے کے بجائے ٹیکس محتسب سے رجوع کرتے ہیں اور بلا تاخیر انصاف پر مبنی فیصلوں سے کاروباری حلقے خاصے مطمئن ہیں۔ نئے ٹیکس محتسب سے تعلق دو چار برس کی بات نہیں یہ ربع صدی کا قصہ ہے۔ صحافت کے ابتدائی سالوں میں ان سے لاہور ائیرپورٹ پر پہلی ملاقات ہوئی تھی جہاں وہ اسسٹنٹ کلکٹر کسٹم تعینات تھے۔ پھر یہ ملاقات گہرے روابط میں بدلتی چلی گئی۔ کسٹمز اور ایف بی آر سمیت کئی شعبوں میں رائج آلودہ سسٹم کے باوجود کلیدی عہدوں پر ذمہ داری نبھاتے ایسے لگتا تھا گویا سمتِ مخالف میں چلے جا رہے ہوں۔ شاندار ریکارڈ کے ساتھ باعزت ریٹائرمنٹ کے بعد وفاقی ٹیکس محتسب کے منصب پر ان کی تقرری کھلا پیغام ہے کہ حکومت ٹیکس دہندگان کے حقوق کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔ یاد رہے یہ سنجیدگی پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔اندرون سندھ کے علاقوں میں انہوں نے کمال کر دکھایا‘ تھر کے صحرا میں گھاس اگانے سے لے کر گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار تک کامیاب تجربہ کیا اور بارہ سو کنویں تعمیر کر کے تھر کے بے کس اور لاچار عوام کی زندگیوں کو سیراب کر دیا۔ ایسے میں ان کا تھر کے لق و دق صحرا میں ہریالی‘ پانی کی فراہمی‘ علاج معالجہ اور سکولوں کا قیام یقینا ایک ناقابل یقین اور گرانقدر کارنامہ ہے۔ ''تھر گرین‘‘ کا سلوگن بظاہر ان کے ''جنون‘‘ کی نشانی ہے۔ وہ تئیس کتابوں کے مصنف ہیں‘ اور ان کی خدمات کے اعتراف میں تھر کے اس مسیحا کو حکومت پاکستان نے ستارہ امتیاز سے بھی نوازا ہے۔ اعلیٰ سرکاری عہدہ‘ مراعات اور اپنی سماجی اور سرکاری حیثیت سے بے نیاز یہ صاحب اگر تھر کے صحرا کو سرسبز اور سیراب کر کے بے کس عوام کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے مسیحا بن کر جا سکتے ہیں تو بے پناہ وسائل کی حامل حکومتی مشینری یہ کام کیوں نہیں کر سکتی؟
چلتے چلتے ایک اور رسید بھی دیتا چلوں کہ وزیراعلیٰ کے نئے معاون خصوصی بھی حکومتی ترجمان کے منصب کے قد اور اعتبار میں اضافے کا باعث ہیں۔ ماضی میں اس منصب پر رہنے والے اکثر اپنی ذات کے بت میں گم ہو کر رہ گئے تھے۔ کسی کو ذاتی تشہیر کی لت پڑ گئی تھی تو کوئی خود وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار بن کر اپنے ایجنڈے پر گامزن تھا۔ حکومت پنجاب کی ترجمانی کے نام پر شریف فیملی اوردیگر اپوزیشن کی پروموشن نہیں کرتے۔ صرف ترجمانی کرتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved