تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     01-11-2021

تب اور اب

بغیر سوچے سمجھے کہی گئی باتیں بعض اوقات انسانوں کے دوغلے پن کو نہایت بے رحمی سے بے نقاب کرتی ہیں۔ ایک وقت میں جوشِ خطابت یا حصولِ مفادات کیلئے انسان بولتا ہے تو بس بولتا ہی چلا جاتا ہے‘ ایسے میں اُس کے ذہن میں شاید یہ سوچ پھٹکتی بھی نہیں کہ کل کو یہی باتیں اُس کے سامنے بھی آسکتی ہیں۔ دیکھا جائے تو ملکی حالات سے قطع نظر‘ موجودہ حکمرانوں کو اِس وقت جس چیز پر سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ وہ اُن کے ماضی میں دیے گئے بیانات ہیں جن میں سے اکثر باتیں بغیر سوچے سمجھے کہی جاتی رہی ہیں۔ عوام ساتھ ہوں‘ سامنے ٹی چینلز کے بے شمار مائیک پڑے ہوں‘ خطاب سننے والے بھنگڑے ڈال رہے ہوں‘ ہر طرف ہریالی نظر آ رہی ہو تو انسان ہوائوں میں اڑنے لگتا ہے۔ تب وہ ذہن میں یہ بات لانے کو تیار نہیں ہوتا کہ اگر وہ اپنے کہے پر عمل کرکے نہ دکھا سکا تو پھر اُسے تنقید بھی سہنا پڑے گی۔ اب تو وہ دور نہیں رہا کہ جب اخبارات میں شائع ہونے والے کسی بیان پر تنقید ہوتی تو آرام سے کہہ دیاجاتا تھاکہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کرشائع کیا گیا ہے۔ رپورٹر بھلے لاکھ کہتا رہتا کہ اُس نے وہی کچھ رپورٹ کیا‘ جو کچھ کہا گیا تھا مگر بیان دینے والا اپنے بیان سے صاف مکر جاتا اور یوں بیشتر صورتوں میں بات رفع دفع ہوجاتی تھی۔ اب تو ایسا کرنا ممکن نہیں رہا۔ اب تو ایک ایک لفظ‘ تصویر کے ساتھ ریکارڈ ہوتا ہے۔ جس کا جب دل چاہے اِن بیانات کو سن لے‘ اب تو منٹوں‘ سیکنڈوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے۔ ہم بھی اِس وقت کچھ ایسے ہی بیانات سن رہے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ مکافاتِ عمل پر بھی غور و فکر کا سلسلہ جاری ہے۔ جن شخصیات کے بیانات کی ریکارڈنگ ہمارے سامنے پڑی ہے‘ اِس وقت وہ تمام کی تمام اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ آج کل حکومت ایک کالعدم تنظیم کے دھرنے کی وجہ سے خائف ہے لیکن ماضی میں موجودہ حکومت کے زعما نہ صرف ایسے دھرنوں کی حمایت کرتے رہے ہیں بلکہ ان کا اپنا 126دنوں کا ریکارڈ ساز دھرنا ''تاریخ‘‘ رقم کرچکا ہے۔
نام لیے بغیر گزرے وقتوں کے چند بیانات حرف بحرف تحریر کی صورت میں پیش خدمت ہیں:ایک صاحب کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا''سارا کراچی بند ہوگا اور شہر بھر میں کوئی گاڑی نہیں چلے گی... ہمارا ایکشن پلان یہی ہے کہ پورے شہر میں کوئی گاڑی نہیں چلے گی‘‘۔ میڈیا پرسنز کی طرف سے سوال کیا جاتا ہے کہ اگر پولیس نے کوئی کارروائی کی تو؟اِس پر وہ غصے میں یہ کہتے ہوئے ایک طرف بڑھ جاتے ہیں کہ پولیس والے آئیں تو سہی میں اِن کو... ایک اور صاحب نے کہا ''اگر کسی پولیس والے نے ہمارے اسلام آبادجانے والی کسی کارکن پر ہاتھ اُٹھایایا گولی چلائی تو میں اپنے ہاتھ سے اُسے ... دوں گا‘‘۔ ایک دوسری تقریر میں فرماتے ہیں ''پہلے میں لاہور پہنچوں گا اور لاہورکو بند کروں گاجس کے بعد فیصل آباد بند کیا جائے گا، اِس کے بعد میں کراچی پہنچوں گا اور پورے شہر کو بند کردیاجائے گا‘‘۔ اس بیان پر پارٹی لیڈران اور کارکنان جوش وخروش سے نعرے لگانے لگتے ہیں‘یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہاتھوں سے دی جانے والی یہ گانٹھیں منہ سے بھی کھولنا پڑ سکتی ہیں۔ تیسرے صاحب کہتے ہیں ''مارو،مار‘ دو،جلاؤ‘ گھیراؤ‘ ملک میں آگ لگا دوں گا، بستی والوں باہر آؤ،لاٹھی اُٹھاؤ، نیزہ اُٹھاؤ، جاتی امرا کی طرف مارچ کرو کیونکہ تقریروں سے یہ نہیں جائیں گے۔ایک دوسرا کلپ بھی سامنے موجود ہے جس میں محترم فرما رہے ہیں ''میں حکمرانوں کو آخری وارننگ دینا چاہتا ہوں ورنہ اِس ملک میں(ایک کالعدم تنظیم کا نام لیتے ہیں) کی بڑی تحریک چلے گی‘‘۔
اگر آج عوا م کو جلاؤ گھیراؤ پر اُکسایا جا رہا ہے تو ماضی میں حکمران جماعت کے رہنماؤں کے بھی ایسے بے شمار بیانات سامنے آچکے ہیں۔یہ سامنے کی بات ہے کہ جب رہنما ایسے لہجوں میں بات کریں گے تو کارکنان اِن سے دوہاتھ آگے ہی جائیں گے۔سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ یہ سب کچھ کرکے ملک میں ایک غلط روایت کی داغ بیل ڈال کر جو عہدے حاصل کیے گئے، وہ کتنی دیر تک ساتھ دیں گے۔یہاں تویہ عالم ہوچکاہے کہ ساڑھے تین سالوں کے بعد ہی زمین پیروں کے تلے سے کھسکنا شروع ہوچکی ہے۔ ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں اور لہجوں کی گھن گرج غائب ہوچکی ہے۔قطع نظر ٹھیک یا غلط کی بحث کے‘ جن کو آج دہشت گرد اور عسکریت پسند قرار دینے کی باتیں ہورہی ہیں‘ کبھی وہ آنکھوں کا تارا ہوا کرتے تھے۔ شاید تب وقت کا تقاضااِسی میں پنہاں تھا اور اب حالات کچھ اور ہیں۔ دیکھا جائے تو اِن کا بھی کوئی قصورنہیں کہ یہی ہماری 'اقتداری روایت‘‘ چلی آ رہی ہے۔
تاریخ کی کتابوں میں محفوظ آخری گورنر جنرل اور پہلے صدر اسکندرمرزا کی سازشیں کسے یادنہیں؟ موصوف کے بارے میں آج بے رحم سچ یہ ہے کہ ملک کوجمہوریت سے آمریت کی طرف دھکیلنے کا پہلا قدم انہوں نے ہی اُٹھایا تھا۔ پھر جن کی اشیر باد سے یہ کھیل کھیلا گیا، صرف ایک آدھ ہفتے بعد ہی اُنہوں نے اسکندر مرزاصاحب کو بھی برطانیہ کی راہ دکھادی۔ اس بیچارے کے تووہم و گمان بھی نہیں ہوگا کہ وہ خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہا ہے۔ کیا یہی تاریخ‘ ہمارے ملک میں‘ بعد میں آنے والے ادوار میں نہیں دہرائی جاتی رہی؟ یہ تو ابھی کل کی بات معلوم ہوتی ہے کہ ''ملک وقوم کے وسیع ترین مفاد میں‘‘ بھٹو صاحب کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا، وہ بھی ایسے وقت میں جب حکومت اور 'نو ستارہ اتحاد‘ ایک معاہدے کے انتہائی قریب پہنچ چکے تھے۔ تب سول حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لیے قدرے جلد ی کرنا پڑی تھی کہ اگر معاہدہ ہوجاتا تو اقتدار پر قبضہ کرنامشکل ہوجاتا۔ پھر نوے دنوں کے لیے اقتدار میں آنے والے گیارہ سالوں تک قوم کے سینوں پر مونگ دلتے رہتے۔ اُس دور میں مخالفین کو کس کس ظلم کانشانہ نہیں بنایا گیا۔ اِسی راستے پر چلتے ہوئے پرویز مشرف صاحب بھی آٹھ‘ ساڑھے آٹھ سال تک ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔ یوں تو گزشتہ حکومت والوں نے بھی حصولِ اقتدارکے لیے ہروہ حربہ آزمایا جو اُن کے بس میں تھا اور کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اداروں میں تحفے تحائف کا رواج انہی نے ڈالا تھا۔ اپنوں کو جی بھر کرنوازاجاتا تھا۔ آج اُن میں سے بھی کچھ بیرونِ ملک ہیں اور کچھ ملک کے اندرمقدمات بھگت رہے ہیں۔بس وقت بدلنے کی دیر ہے‘ آج والے بھی کل کو یہی کچھ بھگت رہے ہوں گے لیکن سچی بات یہ ہے کہ وہ ملک کوایسی راہوں پر ڈال گئے کہ دل دہلتا رہتا ہے۔
آج کل حکومت اپوزیشن اتحاد اور ایک کالعدم تنظیم کے احتجاج سے پریشان دکھائی دیتی ہے اور ہر روز ایسے بیانات سامنے آتے ہیں کہ احتجاج کرنے والے ملک کے خیرخواہ نہیں ہیں‘یہ ملک کو ترقی کے راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں،وغیرہ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اِن بیانات پر ہنسی تو آتی ہے لیکن سر پیٹنے کو بھی جی چاہتا ہے۔ بھلا کیسے ایک چیز ماضی قریب تک تو ٹھیک تھی لیکن اب اس سے ملکی ترقی کی راہیں مسدود ہو رہی ہیں؟ اگر گزرنے کل میں دھرنا، احتجاج اور جلاؤ گھیراؤ جمہوری حق تھا تو آج لاہور سے اسلام آباد تک شاہراہوں کو اُدھیڑ کرکیوں رکھ دیا گیا ہے؟ اگر انسان سوچ سمجھ کر الفاظ ادا کرے،کوئی بھی بات منہ سے نکالنے سے پہلے خوب دیکھے بھالے، سوچے سمجھے تو شاید بعد میں اتنی خفت نہ اُٹھانی پڑے۔بلاشبہ بغیر سوچے سمجھے کہی گئی باتیں ہی انسانوں کے دہرے معیار کو بے رحمی سے بے نقاب کرتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved