طاقت کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ زیادہ بروئے کار لاؤ تو مصیبت اور کم طاقت بروئے کار لاؤ تو مصیبت۔ دنیا نے یہ تماشا بارہا دیکھا ہے۔ کوئی ملک اگر چاہے کہ عسکری قوت کے بغیر ترقی کرے تو ایسا کرنا پہاڑ کو چیرنے جیسا ہے۔ اس وقت یورپ ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہے۔ امریکا اور یورپ نے مل کر کم و بیش پانچ سو سال تک دنیا پر حکومت کی ہے۔ یورپ میں جہالت کا خاتمہ ہوا، نشاۃِ ثانیہ کا دور شروع ہوا تو ایک نئی طرزِ زندگی کی ابتدا ہوئی۔ روشن خیالی نے الحاد اور مذہب بیزاری کو بھی جنم دیا۔ انسان مادّے کا غلام ہوکر رہ گیا۔ اس کے نتیجے میں مذہبی، معاشرتی اور روحانی اقدار کو خیرباد کہنے والے حالات پیدا ہوئے۔ امریکا اور یورپ کو باقی دنیا پر اپنی بادشاہت قائم کرنے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا حل انہوں نے طاقت کے ذریعے نکالا۔ یورپ کے متعدد ممالک صدیوں تک آپس میں لڑتے رہے۔ بیسویں صدی کی آمد پر امریکا اور یورپ کے معاملات اس حد تک بگڑے کہ وسیع البنیاد جنگوں کے بغیر انہیں درست کرنا ممکن نہ رہا۔ یوں دو عالمگیر جنگوں کی راہ ہموار ہوئی اور ان دونوں جنگوں کے نتیجے میں دنیا کچھ کی کچھ ہوگئی۔
یورپ چار‘ پانچ صدیوں کے دوران جن مراحل سے گزرا اُن سے اُس نے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ کا عام باشندہ طاقت کے بے محابہ استعمال سے گریز کرتے ہوئے ایسی زندگی بسر کرنے کا خواہش مند ہے جس میں طاقت ہی سب کچھ نہ ہو۔ یورپ میں علمی سطح بھی بلند ہے اور اخلاقی سطح بھی۔ بیشتر یورپی معاشرے آج بھی اپنی جڑوں سے منسلک ہیں۔ اُن کی کوشش ہے کہ بھرپور ترقی کے ساتھ ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جاتا رہے کہ دُنیا انہیں قبول کرتی رہے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب وہ طاقت کے اندھا دھند استعمال پر یقین رکھنے کے بجائے اخلاقی اقدار کی بنیاد پر معیاری زندگی بسر کرنے کو حتمی مقصود قرار دیں۔ یورپ نے اپنے لیے علم و فن کا راستا چُنا۔ بیشتر یورپی ریاستیں چاہتی ہیں کہ جدید ترین علوم و فنون میں غیر معمولی پیشرفت کے ذریعے اپنے لیے طاقت پیدا کریں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ صنعت، تجارت اور مالیات کے شعبوں میں بھی اپنے وجود کو منوانے پر کمربستہ ہیں۔ اس معاملے میں وہ امریکا کے نقوشِ قدم پر چلنے سے صاف گریز کر رہی ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہر شعبے میں اپنی برتری یقینی بنانے کے لیے امریکا نے جو کچھ کیا اُس کے شدید منفی اثرات سے یورپ ناواقف نہیں۔
اہلِ یورپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے امریکا کی روش اپنائی تو صرف تباہی اور بربادی ہاتھ آئے گی۔ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے۔ دو عالمگیر جنگوں نے یورپ کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ ایک طرف تو بنیادی ڈھانچا تباہ ہوا اور دوسری طرف کئی یورپی معاشرے منقسم ہوکر رہ گئے۔ یہ سب کچھ انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن تھا جس سے یورپی معاشروں نے کم و بیش پانچ عشروں کی ان تھک محنت کے ذریعے نجات پائی۔ بیسویں صدی کا بیشتر حصہ یورپی ریاستوں نے اندرونی اور بیرونی‘ دونوں سطحوں پر شدید کشیدگی اور پریشانی کے ساتھ اور اُن سے نبرد آزما ہوتے ہوئے گزارا۔ اب یورپ طے کرچکا ہے کہ امریکا کی طرح طاقت کے بے لگام استعمال کے ذریعے باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے کی کوشش نہیں کرے گا۔
یورپ کے بیشتر معاشروں میں مجموعی طور پر فلاحی ریاست کا تصور خوب پروان چڑھ چکا ہے۔ جدید ترین تعلیمی، تکنیکی اور تجارتی و مالیاتی اداروں کے ذریعے انہوں نے اپنے آپ کو باقی دنیا کے لیے ایک روشن مثال بنانے پر غیر معمولی توجہ دی ہے۔ آج یورپ جدید ترین معاشرتی اور ثقافتی رجحانات اور علمی و تکنیکی معاملات میں باقی دنیا کے لیے ماڈل کا سا درجہ رکھتا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوگیا۔ عشروں کی محنت کے بعد یہ منزل آئی ہے۔ تو کیا یورپ چاہے گا کہ یہ سب کچھ کسی جواز کے بغیر، یونہی ہاتھ سے جاتا رہے؟ یقینا نہیں!
اس وقت یورپ کا ایک بنیادی مسئلہ دفاع ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک وہ اپنے دفاع کے لیے امریکا پر منحصر رہا ہے۔ یورپی طاقتوں نے اپنی افواج کھڑی کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ اُن کی پوری توجہ دو عالمگیر جنگوں کے نتیجے میں واقع ہونے والی تباہی کے شدید منفی اثرات سے بچنے اور بنیادی ڈھانچا دوبارہ کھڑا کرنے پر مرکوز رہی۔ معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کے قیام کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ یورپ کے دفاع کا معاملہ امریکا کے ہاتھ میں دے دیا جائے اور دے دیا گیا۔ یورپی طاقتوں نے اس کی قیمت بھی ادا کی۔ نیٹو فورسز کے اخراجات کا بوجھ یورپی ریاستوں نے خوب اٹھایا ہے۔ سرد جنگ کے دور میں اور اس کے بعد یورپ کی سلامتی یقینی بنائے رکھنے کی ذمہ داری امریکا کی رہی ہے۔ یورپ نے اس حوالے سے امریکا کو خوب‘ خوب ادائیگیاں کی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُس نے ہر معاملے میں امریکا کا ہر فورم پر ساتھ دیا ہے‘ یا یوں کہیے کہ ساتھ دینا ہی پڑا۔
اب یورپ کو احساس ہوچلا ہے کہ امریکا کا ساتھ دیتے رہنے کی پاداش میں جو کچھ اُس نے بھگتا ہے روش تبدیل نہ کرنے پر وہی کچھ مزید بھگتنا پڑے گا۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا سے الگ ہوکر یا دوری اختیار کرتے ہوئے یورپ اپنی سلامتی کیونکر یقینی بنائے گا۔ برطانیہ، فرانس، جرمنی اور چند دیگر یورپی ممالک جدید ترین علوم و فنون کے میدان میں بہت آگے ہیں۔ جدید ترین ہتھیاروں کی تیاری میں بھی وہ امریکا سے کم نہیں۔ خلائی تحقیق کے شعبے میں بھی یورپ نے اپنا آپ کو منوایا ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی یورپی ملک اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی بڑے خطرے کا تنِ تنہا سامنا کرسکے۔ اپنی اپنی بھرپور افواج تیار کرنے پر یورپی طاقتوں نے کئی عشروں کے دوران خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ آج تیزی سے بدلتی ہوئی علاقائی اور عالمی صورتِ حال کے تناظر میں غیر معمولی نوعیت کی دفاعی حکمتِ عملی مرتب کرنا بیشتر یورپی ریاستوں کے لیے انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ یورپ مخمصے کا شکار ہے۔ ایک طرف امریکا ہے جس کا ساتھ دینے کی پاداش میں وہ بارہا خوار ہوا۔ افغانستان، عراق اور شام اِس کی واضح مثال ہیں۔ دوسری طرف چین اور دیگر ابھرتی ہوئی ریاستیں ہیں۔ یورپ اِن سب کے ساتھ اچھے تعلقات استوار رکھنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ امریکا سے مکمل کنارا کشی سے بھی بچنا چاہتا ہے۔ اس وقت یورپ اس پوزیشن میں نہیں کہ امریکا کو اپنے معاملات سے مکمل طور پر دور رکھے۔ امریکا نے ایسے حالات پیدا کیے ہیں جن میں یورپ کے لیے اُس پر منحصر رہنا کم و بیش ناگزیر ہے۔ یورپ کے اہلِ دانش دن رات سوچ بچار میں مصروف ہیں کہ امریکا پر انحصار کا طوقِ گلے سے کیونکر اتار پھینکیں۔ یہ کوئی ایسا آسان کام نہیں کہ راتوں رات ہو جائے۔ امریکی قیادت نے بہت چالاکی سے اپنے آپ کو بیشتر یورپی معاملات میں یوں گوندھ رکھا ہے کہ اب الگ ہونا کم و بیش ناممکن دکھائی دے رہا ہے۔