تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-11-2021

دیوار

ریت کی دیوار‘ گرتی ہوئی دیوار‘ ہمارے معاشی‘ سیاسی انتظامی‘ قانونی سماجی اور معاشرتی نظام (یعنی زندگی کے ہر شعبے) کی نہ ایک مضبوط عمارت ہے اور نہ ایک ایسا مستحکم ڈھانچا جس پر ہم ایک ایسا معاشرہ تعمیر کر سکتے ہوں جو خوشی اور خوشحالی کی دولت سے مالا مال ہو‘ بلکہ وہ ایک خستہ حال دیوار بن چکا ہے۔ کالم نگار کیلئے ممکن نہیں کہ وہ 26 اکتوبر کو محمد اظہار الحق صاحب کے کالم ( ''دو نحوستیں‘‘) اور خورشید ندیم صاحب کے کالم (مسابقت کا اصل میدان) میں ایک لفظ کا بھی اضافہ کرنا مناسب سمجھے۔ میرے آج کے کالم کا مقصد میرے اُن دونوں دوستوں کی بات کو آگے بڑھانا ہے۔ جناب مجیب الرحمن شامی کی عمر صحافت کے دشت کی سیاحی میں گزری‘ انہوں نے ایک کمال کا کالم 24 اکتوبر کو لکھا۔ عنوان تھا ''کان کھول کر سن لیں‘‘ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ ہمارے جس مراعات یافتہ‘ اقتدار حاصل کرنے کیلئے ہاتھ پائوں مارنے والے‘ بڑے بڑے جلسے کرنے والے اور لمبے جلوس نکالنے والے افرادسے مخاطب تھے اُن کے کان کھل گئے؟ شامی صاحب کا خطاب بھی اتنا فصیح و بلیغ تھا۔ سو سال ہوئے جب اقبال‘ حسرت موہانی اور قائداعظم کو حکم ِاذاں ملا تھا۔ اُن سے پہلے عبید اللہ سندھی کو اور اُن سے پہلے شاہ ولی اللہ کو۔ اب ایک طرف طُوطی اور دوسری طرف نقار خانہ۔ حکمرانوں کے کانوں میں روئی اور آنکھوں پر موٹی پٹی۔ کالم لکھنے والوں کے علاوہ اور کون ہے جو معاشرے کا ہر اول دستہ بنے؟ جو کلمہ حق کہے؟ جو زہر ہلاہل کو قند نہ کہے۔جو اپنوں کے خفا ہو جانے اور بیگانوں کی ناخوشی کی ہر گز پروا نہ کرے۔حق گوئی کا جو حق تھا وہ کالم نگاروں نے ادا کر دیا۔ اس کالم نگار کو فخر ہے کہ وہ ایک ایسے اخبار میں لکھتا ہے جس کے صفحات پر اتنے دانش مند مبصرین اور ذہین تجزیہ نگار اپنے فکر انگیز خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ میری طرح ہر پڑھنے والا بے اختیار کہے کہ
گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
میرے لئے اس سے زیادہ خوشی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں بنائی گئی ایک قومی مجلس مشاورت‘جس میں ریٹائرڈ فوجی افسر‘وکلا‘اساتذہ‘ کسان‘مزدور‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز‘ مزارعین اور صحافی شامل ہیں‘ نے مجھے ایک ایسے سوالنامے پر دستخط کرنے کی دعوت دی جس میں پاکستان جمہوری تحریک ( PDM) سے مندرجہ ذیل سوال کئے گئے ہیں:
1:آپ کے پاس مہنگائی کے بڑے عذاب کا علاج کیا ہے؟ کیا آپ ایسے ٹھوس اقدامات بتا سکتے ہیں جنہیں اُٹھا کر ہم مہنگائی بیروز گاری افراطِ زر اور کھربوں ڈالروں کے غیرمکمل قرضہ سے نجات حاصل کر سکتے ہیں؟ 2:کیا اس تحریک میں شامل کسی رہنما نے آج تک اُن لوگوں سے چوری کی دولت کی وصولی کا مطالبہ کیا جن کے نام پاناما اور پنڈورا پیپرز میں آئے ہیں؟ 3:کیا PDM دیانتداری سے تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت رکھتی ہے کہ موجودہ بے حد خراب صورتحال کی بڑی ذمہ داری پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن اور ق) پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ماضی میں پاکستان پر حکومت کی؟ 4:کیا PDM مہنگائی کے خلاف صرف کھوکھلے‘ بے معنی اور گمراہ کن نعرے لگانا چاہتی ہے یا عوام دوست ماہرین معیشت سے مشورہ کر کے ایسی انقلابی اصلاحات کی تجاویز پیش کرے گی جو موجودہ معاشی بحران کی دلدل سے نکال سکتی ہوں؟
یہ کالم نگار اُن افراد میں شامل ہے جنہوں نے سول سوسائٹی کی طرف سے پہلی بار سیاسی جماعتوں کے ایک بڑے اتحاد سے وہ سوال کیا ہے جو بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مناسب ہوگا کہ سول سوسائٹی موجودہ حکومت کے دامن کو بھی (بقول غالب) حریفانہ کھینچے اور پوچھے کہ اس سے بڑھ کر اور کون سی حماقت ہو سکتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دو کروڑ افراد کو خریداری میں رعایتیں اورSubsidies دینے کو مہنگائی‘ بے روزگاری‘ افراطِ زر اور غیر ملکی قرضوں پر انحصار کا علاج سمجھ لیا جائے ؟ حکومت کو چار سوالوں کا جواب دینا ہوگا: اوّل: ہم اپنی درآمدات کو کس طرح کم کریں؟ کم سے مراد یہ ہے کہ فوراً نصف تک لے آئیں۔ دوم: ہم اپنی برآمدات کو مستقبل قریب میں کس طرح بڑھائیں؟سوم: کیا ہمارا ملک غیر ملکی قرضوں کے بغیر نہیں چل سکتا؟ کیا وزارت خزانہ کے تمام ماہرین کا یہ کام ہے کہ وہ ہمارے ہاتھوں سے کشکولِ گدائی نہ گرنے دیں؟ ہم اربوں ڈالروں کے قرضوں کو واپس کس طرح کریں گے؟ غالباً شوکت ترین صاحب کی بڑی مصروفیت یہی ہے کہ پہلے لئے گئے قرضوں کی واجب الادا قسط ادا کرنے کیلئے مزید قرض کس طرح لیا جائے؟ چہارم: ایک ایسا تفتیشی کمیشن بنایا جائے جو بتائے کہ ہم نے آج تک جتنے ارب ڈالر قرض لئے ہیں وہ کہاں خرچ کئے گئے؟ کون سے کارخانے بنے‘ کون سے آبی ذخائر تعمیر کئے گئے‘ ایک زرعی ملک نے زرعی ترقی اور زرعی پیداوار کو عالمی معیار تک لانے کیلئے کتنی سرمایہ کاری کی؟ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے‘ شمسی توانائی کو استعمال کرنے اور اپنے دریائوں کو بدترین آلودگی سے بچانے کیلئے کتنا خرچ کیا گیا ؟ وہ کون سی جونکیں ہیں جو 74سالوں سے ہمارا خون چوس رہی ہیں؟ ہماری معیشت کے ہر شعبہ پر حاوی مافیا کا حدود اربعہ کیا ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ یہی مافیا بہتری کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے؟ کیا ابھی بھی وقت نہیں آیا کہ ہم سرجوڑ کر بیٹھیں اور غور و فکر کرکے علاج ڈھونڈیں؟
آج کا کالم ''دیوار‘‘ کے لفظ سے شروع ہوا تھا‘مناسب ہوگا کہ اسے ختم کرنے سے پہلے غالب کا ایک شعر نقل کیا جائے۔
وفورِ اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے میرے دیوار و در‘ در و دیوار
ان دنوں 22 کروڑ کی آبادی میں کم از کم 20 کروڑ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ آپ صرف ایک بات سے صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کرلیں کہ ساری قوم کیلئے خوشی کی واحد خبر اپنی کرکٹ ٹیم کی کامیابی ہے۔ کالم نگار کے انگریز دوست حیران ہوتے ہیں کہ ہم کھیل میں ہار جیت کو اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں۔وہ نہیں جانتے کہ کھیل میں جیت کے علاوہ ہمارے لئے خوش ہونے کا اور کوئی وسیلہ ہے نہ جواز۔ حاصل ِکلام یہ ہے کہ ہم نے ان74 برسوں میں شاخِ نازک پر آشیانہ بنایا جو ناپائیدار نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ ہم نے ریت کی دیواروں سے اپنے گھر کو تعمیر کیا اور اب وہ گر رہی ہیں۔ ہر لحظہ منہدم ہو رہی ہیں تو ہم پریشانی کے عالم میں کبھی اپنے آپ کو اور کبھی گرتی ہوئی دیواروں کو دیکھتے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے مگر خوش قسمتی سے پانی ہمارے سروں سے اُوپر نہیں گزرا۔ مریض انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہے مگر بفضل تعالیٰ بدستور زندہ ہے۔ سانس لے رہا ہے (چاہے مصنوعی تنفس سے)۔ قوم کو سچ بتا دینا چاہئے کہ حکمران افراد میں خرابیاں ہماری بربادی کا اتنا باعث نہیں بنیں جتنا کہ ایک عوام دشمن‘ سرمایہ دارانہ‘ انگریز کا بنایا ہوا نوآبادیاتی عوام دشمن نظام۔ پڑیاں کھانے کا وقت گزر گیا‘ اب جراحی کا مرحلہ آپہنچا۔ ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہمارے عوام ہیں۔ ہمارے اساتذہ ہیں ہمارے مزدور ہیں۔ ہمارے کسان ہیں۔ ہمارے صحافی ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر وطن عزیز سے چھ ہزار میل دور قوتِ اخوت عوام۔ دوبارہ لکھتا ہوں کہ کروڑوں لوگوں کی اپنے وطن سے محبت ایک ایسی قوت ہے جو ہمیں اندھیرے سے روشنی تک لے جا سکتی ہے۔ آپ سلطانی جمہور پر یقین رکھتے ہوئے عوام کو ہر سطح پر اختیارات اور اقتدار کا مالک بنا دیں تو ہماری کایا پلٹ جائے گی۔
کالم نگار نے مندرجہ بالا تحریر میں اپنا دل چیر کر آپ کے سامنے رکھ دیا۔ یہ اُس کے دل و دماغ دونوں کی آواز ہے۔ میری روانگی کا وقت لمحہ لمحہ قریب آرہا ہے تو وطن عزیز سے چھ ہزار میل دور ریت پر گرے پڑے شخص سے ہوا پوچھتی ہے۔ آپ اس دشت میں کیوں آئے تھے وحشت کے بغیر۔آپ بتایئے میں اُسے کیا جواب دوں؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved