مکہ کی وادیوں میں جب رسولِ رحمتﷺ نے نعرۂ حق بلند کیا تو اس معاشرے میں ایک ہلچل پیدا ہو گئی۔ کفر کی ساری قوت کے باوجود نعرۂ حق نے سرزمین عرب کو ہلا کر رکھ دیا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اپنی مسدس میں اس کا نقشہ یوں کھینچا ہے۔ ؎
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادی
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
آنحضورﷺ کی دنیا میں آمد اور پھر دعوتِ حق کے آغاز کا نقشہ ماہر القادری مرحوم نے بھی بہت خوب صورت انداز میں اپنے اشعار میں کھینچا ہے۔ ؎
کچھ کفر نے فتنے پھیلائے کچھ ظلم نے شعلے بھڑکائے
سینوں میں عداوت جاگ اٹھی انساں سے انساں ٹکرائے
پامال کیا برباد کیا، کمزور کو طاقت والوں نے
جب ظلم و ستم حد سے گزرے تشریف محمدؐ لے آئے
اسلام کی دعوت نے اہلِ کفرو شرک کی نیندیں حرام کر دیں۔ وہ آنحضورﷺ اور آپ کے صحابہ کے خلاف یوں بپھر کر بھڑک اٹھے جیسے بھڑ کے چھتے میں کسی نے پتھر مار دیا ہو۔ یہ تمام حالات سیرت کی کتابوں میں تفصیلاً بیان ہوئے ہیں۔ قرآنِ پاک میں بھی جگہ جگہ ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ ) نبی اکرمﷺ اور دینِ حق کے شدید مخالف بلکہ جانی دشمن تھے۔ ادھر قریش مکہ بھی آپﷺ کے خون کے پیاسے اور آپ کے قتل کے منصوبوں میں مصروف تھے۔ ایسے میں مکی زندگی میں ان اہلِ کتاب کے اکسانے پر قریشِ مکہ نے حضور اکرمﷺ سے تین سوال پوچھے:
(1) اصحابِ کہف کون تھے؟
(2) خضر کون تھے؟
(3) ذوالقرنین کون تھے؟
سورۂ کہف میں ان تینوں سوالوں کے جوابات دیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ قریشِ مکہ اور اہلِ کتاب کی اسلام دشمنی اور مسلمانوں کے صبر واستقامت کی مناسبت سے ہر قصہ کو نہایت مؤثر اور دلنشین انداز میں بیان کرنے کے بعد انہی کفار پر منطبق کردیا گیا ہے۔ تینوں واقعات انتہائی دلچسپ، ایمان افروز اور معلومات افزا ہیں۔ سورۃ الکہف میں ترتیب واران کے جواب دیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے اصحابِ کہف کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ یہ ایک کافرانہ معاشرے اور کفروظلم کے نظام میں رہنے والے چند نوجوان تھے۔ انہوں نے کفر کے نظام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ایک اللہ پر ایمان لا کر ثابت قدمی کے ساتھ اس پر ڈٹ گئے۔
آج کی نشست میں اصحابِ کہف کے ایمان افروز واقعات ہمارا موضوع ہیں۔ مکہ میں اہلِ ایمان اسی جذبے کے ساتھ ظلم و ستم برداشت کر رہے تھے، جس طرح اصحابِ کہف نے سخت حالات کا مقابلہ کیا۔
اصحابِ کہف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سچے اور مخلص پیروکار تھے۔ رومی شہنشاہ دقیانوس‘ جس نے 249ء سے 251ء تک حکومت کی‘ حضرت مسیح علیہ السلام کے پیروؤں کا سخت دشمن تھا۔ اس نے اپنے دور میں ظلم وستم کی انتہا کر دی تھی۔ پورے ملک میں جب اس نے عیسائیت (عیسائیت تو عرفِ عام کی وجہ سے لکھ دیا ہے وگرنہ وہ دین‘ وحدانیت کا علمبردار دینِ حق اسلام ہی تھا) کا نام لینے والوں کا خاتمہ کر دیا تو یہ چند مسلم نوجوان اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے شہر سے نکل کر پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے۔ ان کے بارے میں قرآن نے کہا ہے:
''اِنَّھُمْ فِتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ وَزِدْنٰـھُمْ ھُدًی‘‘
یعنی وہ چند نوجوان تھے جو اپنے ربّ پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی‘‘۔ (الکہف: 13)
ان نوجوانوں کو دین سے والہانہ محبت اور اللہ رب العزت سے بے پناہ لگاؤ تھا۔ انہوں نے عزم کر لیا تھا کہ راہِ حق سے روگردانی نہیں کریں گے اور اس کو انہوں نے خوب نبھایا۔ وہ پہاڑ کے ایک غار میں جا چھپے اور وہاں ﷲ تعالیٰ نے انہیں سلایا تو ایسا کہ تین صدیاں آرام سے سوتے رہے۔ ﷲ تعالیٰ ان کی کروٹیں بدلتا رہا‘ کبھی بائیں جانب‘ کبھی دائیں جانب۔ وہ ﷲ کے ہو گئے تھے تو ﷲ کی شفقت بھی ان کے لیے بے پایاں تھی۔ اللہ نے اپنے ان مخلص اور مظلوم بندوں کا کتابِ عظیم الشان میں جس محبت و شفقت کے ساتھ تذکرہ فرمایا ہے، وہ ایمان کو تازہ کر دیتا ہے اور انسان جھوم اٹھتا ہے۔ مائیں اپنے شیرخوار بچوں کی نیند کے دوران ان کی کروٹیں کس محبت کے ساتھ بدلتی ہیں! ان خوش نصیب نوجوانوں کی کروٹیں خالقِ کائنات بدلتا تھا۔ سبحان اللہ! کتنے بلند نصیب ہیں یہ نوجوان!
اصحابِ کہف کی تعداد مختلف بتائی گئی ہے؛ تاہم زیادہ معتبر قول یہ ہے کہ وہ سات تھے اور ان کے ساتھ آٹھواں ان کا کتا تھا۔ یہ کتا غار کے منہ پر پاؤں پھیلائے سوتا رہا اور تین صدیوں کے دوران جو بھی کبھی اس راستے سے گزرا اس پر خوف طاری ہو گیا اور کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ غار کے اندر جھانک کر دیکھے۔ یہ کتا بھی کتنا عظیم تھا جو اہلِ حق کے ساتھ پوری طرح وفادار ثابت ہوا اور اس کا ذکر اللہ نے اپنی آخری کتاب میں فرمایا۔ ان نوجوانوں نے اپنے شہر سے نکلتے ہوئے سوچا تھا کہ ظالم بادشاہ نے تو دینِ حق کا نام لینے والوں اور توحید پر ثابت قدمی دکھانے والوں کو ختم کر دینے کی قسم کھا رکھی ہے۔ اب ہمیں خدا کے بھروسے پر یہاں سے نکل جانا چاہیے اور ایمان کی حفاظت کے لیے کسی غار میں پناہ لینی چاہیے۔
ظاہر ہے کہ یہ فیصلہ کوئی آسان کام نہ تھا مگر حلاوتِ ایمانی، بندگانِ حق کو ہر مشکل گھاٹی عبورکرنے کے قابل بنا دیتی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ کی نصرت ہر گام حاصل رہتی ہے۔جب وہ شہر سے نکلے جا رہے تھے تو اس وقت انہوں نے خدا سے یہ دعا مانگی تھی ''اے مولائے کریم ہمیں اپنی رحمت سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے۔‘‘ ﷲ تعالیٰ نے ان کی دعاسن لی‘ انہیں بڑی شفقت اور محبت سے غار میں سلائے رکھا۔
''نُقَلِّبُھُمْ ذَاتَ الْمَیِنِ وَذَاتَ الشِّمَالِ‘‘
یعنی ''ہم انہیں دائیں بائیں کروٹ دلواتے رہتے تھے‘‘۔ (الکہف: 18)
ذرا اندازہ کیجیے ان اللہ والوں کی خوش نصیبی کا جو اللہ کا ہو جائے، اللہ اس کا ہو جاتا ہے۔ سورۂ بقرہ میں ارشاد فرمایا
''فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلَا تَکْفُرُوْنَ‘‘
ترجمہ: میرا ذکر کرو تو میں تمہارا ذکر کروں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور ناشکرے نہ بنو۔ (البقرہ: 152)
تین صدیوں میں ملک میں بڑے انقلاب رونما ہو گئے۔ حکومت کی مشینری میں بہت بڑا تغیر آ گیا۔ دقیانوس جیسے اسلام دشمن کی جگہ تھیوڈوسیس ثانی برسرِاقتدار تھا جس نے دینِ عیسوی قبول کر لیا تھا۔ اگرچہ اس حکمران اور رعایا کا عقیدہ بھی حق کے خلاف تھا اور وہ اللہ کی توحید اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت پر ایمان رکھنے کی بجائے تثلیث کے قائل تھے۔ گویا ایک گمراہی کے بعد اب دوسری گمراہی میں قوم گرفتار تھی۔ اصحابِ کہف بیدار ہوئے تو انہیں یوں محسوس ہوا جیسے تھوڑی دیر پہلے سوئے تھے۔ انہیں بھوک لگ رہی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک ساتھی کو شہر کی جانب بھیجا کہ چھپ چھپا کر جائے اور خاموشی سے کوئی کھانا خرید کر لے آئے۔
اس نوجوان کے پاس تین صدیوں کاپرانا سکہ دیکھ کر دکاندار حیران رہ گئے۔ بہت جلد ہی یہ معاملہ کھل گیا اور پتا چلا کہ یہ تو وہی لوگ ہیں جو دین کی حفاظت کے لیے ہجرت کر گئے تھے۔ ان کے بارے میں سب لوگ نسلاً بعد نسل سنتے آئے تھے کہ شہر سے چند نوجوان گم ہوئے تھے، ابھی تک ان کا کوئی اتاپتا نہیں۔ اب یہ عقدہ کھلا تو بادشاہ اپنے درباریوں کے ساتھ غار کے دہانے پر پہنچا۔ اصحابِ کہف تھوڑی سی دیر تک بیدار رہے‘ اہلِ ملک سے بات چیت بھی کی اور پھر ہمیشہ کے لیے سو گئے۔
بعض مورٔخین کے مطابق یہ واقعہ اِفْسُس شہر میں پیش آیا۔ اس کے کھنڈارات ترکی کے شہر سمرنا سے 20‘25 میل دور پائے جاتے ہیں۔ دراصل اُس دور میں یہودیوں کے فرقہ صدوقیہ نے آخرت کا انکار کر دیا تھا اور یونانی فلسفے کے زور سے وہ اس دعوے کوثابت کر دیتے تھے کہ مرنے کے بعد کوئی نئی زندگی نہیں ہے۔ اس واقعے نے‘ جس میں تین صدیوں تک سلانے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے اصحابِ کہف کو بیدار کر دیا تھا‘ ان کے باطل نظریے کی قلعی کھول دی اور ثابت کر دیا کہ ﷲ تعالیٰ کو قدرت حاصل ہے کہ وہ طویل عرصے کے بعد دوبارہ زندگی دے سکتا ہے۔
''جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزیں ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ''اے پروردگار! ہم کو اپنی رحمتِ خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے‘‘۔ (الکہف: 10)
یہ دعا جو عالی ہمت جوانوں نے آج سے صدیوں پہلے مانگی تھی‘ آج بھی بالکل تر وتازہ ہے۔ آج بھی جب کبھی کوئی مشکل اہلِ حق کے راستہ میں آ جائے اور وہ اصحابِ کہف جیسے جذبۂ صادق کے ساتھ یہ دعا حضور ربانی میں پیش کریں تو وہاں سے خودبخود معاملات کی درستی کا سامان مہیا کر دیا جاتا ہے۔ اس دعا سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ حق کو اپنے ایمان وضمیر کی حفاظت کے لیے پہلے خود کمربستہ ہونا پڑتا ہے پھر اپنا معاملہ سپرد خدا کر کے مطمئن ہو جانے کی منزل آتی ہے۔ انفرادی اور ذاتی معاملات و مشکلات میں بھی یہ دعا بندۂ مومن کا بہت بڑا سہارا ہے۔ کوئی بھی معاملہ انفرادی ہو یا اجتماعی (حق کے خلاف اور انصاف کے منافی نہ ہو) جب کسی انسان کے سامنے آ جائے تو وہ اس معاملے کو ذہن میں یاد کر کے حضوری قلب کے ساتھ یہ دعا مانگے۔ امید ہے ان شاء ﷲ دعا قبول ہو گی۔