دورانِ تعلیم ہمارے اساتذہ اکثر کہا کرتے تھے کہ صحافت آگ کا دریا ہے‘ اس وقت چونکہ کیریئر کی شروعات تھیں‘ سو یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی کہ ایسا کیوں کہا جا رہا ہے؛ البتہ یہ یقین تھا کہ ہمارے اساتذہ کا تجربہ اور کام کئی عشروں پہ محیط ہے اور ہم جونیئرز ان سے اختلاف نہیں کر سکتے۔ میں نے ہمیشہ اپنے سینئرز کا احترام کیا ہے اور ان سے بہت کچھ سیکھا ہے؛ البتہ جب میں نے خود فیلڈ میں خاک چھاننا شروع کی تو علم ہوا کہ آگ کا دریا کسے کہتے ہیں۔ تب مجھے پتا چلا کہ صحافت کرنا آسان کام نہیں۔
اسلام آباد میں جہاز کریش کرگیا‘ اس واقعے کی کوریج کے دوران پولیس نے ہم صحافیوں پر لاٹھی چارج شروع کردیا۔ پولیس کے ڈنڈے کھائے تو اندازہ ہوا رپورٹنگ کرنا آسان کام نہیں۔ ایک کیمرہ مین کی آنکھ پر چوٹ آئی، میرا پائوں زخمی ہوا۔ شروع میں کچھ دیر تو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے‘ جب تھوڑے حواس بحال ہوئے تو دیکھا کہ ہر کوئی زخمی تھا لیکن اس کے باوجود سب نے اپنے فرائض جاری رکھے کیونکہ اس دن ہر آنکھ اسلام آباد حادثے پر اشکبار تھی اور ہمیں اپنے شہریوں کو باخبر رکھنا تھا۔ طیارہ کریش، میریٹ بلاسٹ، سیلاب اور زلزلہ‘ یہ میری زندگی کی مشکل ترین اسائنمنٹس تھیں۔ دورانِ ڈیوٹی صحافیوں کو بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں‘ ان کو دھمکیاں دی جاتی ہیں، اکثر اوقات ڈیوٹی کے کوئی اوقاتِ کار نہیں ہوتے، چھوٹے اداروں میں تنخواہ کم، خطرات زیادہ ہوتے ہیں‘ حالات اور موسم کی سختی اور ستم یہ کہ دشمنیاں بہت ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں صحافت کرنا بالکل بھی آسان کام نہیں۔ پہلے صرف اخبارات اور ایک سرکاری چینل‘ پی ٹی وی ہوتا تھا۔ اس کے بعد الیکٹرانک میڈیا کی ابتدا ہوئی، نئے چینلز آئے اور صحافت کی ہیت ہی بدل گئی۔ سوشل میڈیا کے آنے سے بولنے اور لکھنے کی آزادی مزید بڑھ گئی۔ بلاگ اور وی لاگ سے حقائق عوام کے سامنے لاتے ہیں۔
اگر ہم ماضی قریب کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اب دیدہ‘ نادیدہ سنسرشپ بہت بڑھ گئی ہے جبکہ صحافیوں پر حملوں میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کہتی ہے کہ اب تک پاکستان میں 62 صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے جن میں 2 خواتین صحافی بھی شامل ہیں جبکہ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کے مطابق یہ تعداد 138 ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران صحافیوں پر 148 سے زائد حملے ہوئے جو تشویش ناک حد تک زیادہ ہیں۔ کسی صحافی کو گولی مار دی گئی تو کسی کو اغوا کرکے قتل کیا گیا، کوئی خود کش حملے میں چل بساتو کسی کو ٹارگٹ کر کے نشانہ بنایا گیا۔ سلیم شہزاد،ولی خان بابر، موسیٰ خان خیل، مشتاق خند، ثاقب خان، عبد الحق بلوچ، رزاق گل، حاجی زئی، ملک ممتاز، محمود آفریدی، مرزا اقبال، سیف الرحمن، اسلم درانی، ایوب خٹک، عمران شیخ، مکرم خان، مصری خان،عزیز میمن، چشتی مجاہد، ہدایت اللہ خان، عامر نواب، راجہ اسد حمید، فضل وہاب، صلاح الدین، غلام رسول ، عبد الرزاق، محمد ابراہیم، ساجد تنولی، شاہد سومرو، لالہ حمید بلوچ، یہ وہ چند صحافی ہیں جو سچ کی راہ میں شہید ہوئے۔ صحافی عروج اقبال اور شاہینہ شاہین‘ دونوں کو ان کے شوہروں نے قتل کیا‘ بظاہر یہ قتل گھریلو تشدد کے نام پر ہوئے‘ ان کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ ان خواتین صحافیوں کے نام پر بل منظور ہونا چاہیے جس کا مقصد خواتین پر تشدد کا خاتمہ ہو۔
بلوچستان‘ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقے صحافیوں کے لیے ہمیشہ سے مشکل میدان ثابت ہوئے ہیں؛ تاہم صوبہ سندھ کے اندرونی علاقوں سمیت اسلام آباد میں بھی صحافت کرنا آسان کام نہیں۔ سندھ میں حالیہ سالوں میں تین صحافی قتل ہوئے ہیں۔ جتنے حملے اور تشدد کے واقعات حالیہ عشرے میں اسلام آباد میں پیش آئے‘ ان کی مثال نہیں ملتی۔ صحافیوں پر گولیاں چلائی گئیں‘ ان کو مارا پیٹا گیا‘ ہراساں کیا گیا۔ کتنے ہی صحافیوں کی نوکریاں ختم ہوگئیں‘ ان پر غیر اعلانیہ پابندیاں لگ گئیں۔ صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر کمپینز چلائی جارہی ہیں جن میں خواتین صحافیوں کو بالخصوص نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان کی کردار کشی سب سے زیادہ ہورہی ہے۔ 2021ء میں اگر صرف سوشل میڈیا کا جائزہ لیں تو شاید ہی ایسا کوئی صحافی اور اینکر ہو گا جو گالی گلوچ اور دھمکیوں سے بچ پایا ہو گا۔ سوشل میڈیا پر خواتین صحافیوں اور اینکرز کو ریپ اور تیزاب پھینکنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ یہ بہت خطرناک امر ہے کیونکہ اس سے بات کرنے کی آزادی ختم ہورہی ہے۔ پہلے ہی ہمارے ملک میں بولنے کی آزادی اتنی کم ہے اور اب سوشل میڈیا پر بھی اسے ختم ہی سمجھیں۔ خواتین صحافیوں کی تصاویر فوٹوشاپ کی جاتی ہیں‘ ان کے فون نمبرز اور گھر کا ایڈریس وغیرہ سوشل میڈیا پر پھیلا دیا جاتا ہے۔
کورونا کے باعث بھی کئی صحافی دارِ فانی سے کوچ کر گئے، جن میں اے ٹی نظامی، ارشد وحید چوہدری، الطاف قریشی، طارق محمود اور فخرالدین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھی حالیہ عرصے میں ملک کے کئی نامور صحافی جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے جن میں عارف نظامی، ڈاکٹر مغیث الدین شیخ، ضیا شاہد، رحیم اللہ یوسفزئی، سی آر شمسی، واجد شمس الحسن، ڈاکٹر اجمل خان نیازی، آئی اے رحمن اور سلیم عاصمی کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اللہ سب کو غریقِ رحمت کرے۔ صحافت کرنا، صحافی ہونا اور فیلڈ میں کام کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ صحافیوں کا معاشی استحصال کیا جارہا ہے۔ اسلام آباد میں ایک خاتون صحافی میمونہ اچانک برین ہیمرج کا شکار ہوکر چل بسی تھیں‘ نجانے صحت مند خاتون کو اچانک کیا صدمہ کھاگیا۔ حال ہی میں دو کیمرہ مین جواں عمری میں انتقال کرگئے‘ ایک اور سینئر صحافی فصیح خان دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے‘ وہ بھی ذہنی دبائو کا شکار تھے۔ خبر کی نشر و اشاعت میں اکثر صحافی خود خبر بن جاتے ہیں۔ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مسلمہ بین الاقوامی معیار کے مطابق صحافیوں کو حقوق فراہم کرے اوران پر ہونے والے ظلم و تشدد پر جامع تحقیقات کروائے اور مجرمان کو کڑی سے کڑی سزا دے۔ اس کے علاوہ صحافیوں کی حفاظت کے حوالے سے بھی بل پاس ہونا چاہیے تاکہ ان کو لائف انشورنس ملے اور اس کے ساتھ میڈیکل سمیت دیگر مراعات بھی میسر ہوں۔ صحافیوں کو ایوارڈز بھی ملنے چاہئیں اور ان کے کام کو سراہا جانا چاہیے؛ تاہم سب سے اولین جانی و مالی تحفظ ہے جس سے ہمارے یہاں صحافی محروم ہیں۔ پاکستانی صحافی اس وقت بہت مشکل حالات میں کام کررہے ہیں اور ان کیلئے زندگی بالکل بھی آسان نہیں۔ کم تنخواہیں‘ نو ڈیوٹی ٹائم‘ نو میڈیکل اور دھمکیاں‘ ان سب کے باوجود وہ حقائق اور خبریں نکال کر رپورٹ کررہے ہیں، دنیا کے سامنے سچ لارہے ہیں‘ ایسے تمام مردو خواتین کو سلام!
ہر سال 2 نومبر کو دنیا بھر میں صحافیوں پر ہونے والے جرائم سے تحفظ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد صحافیوں کو تحفظ دینا اور ان کیلئے آواز بلند کرنا ہے۔ 2 نومبر 2013ء کو دو فرانسیسی صحافیوں کو قتل کیا گیا تھا‘ جس کے بعد سے اس دن کو منانے کا آغاز ہوا اور اب ہر سال یہ دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ ریاست صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کا پردہ چاک کرے اور ان کو تحفظ فراہم کرے۔ اگر ہم پاکستان میں صحافیوں پر ہونے والے حملوں اور ان سے متعلقہ کیسز کا جائزہ لیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب تک صحافیوں کے قتل یا تشدد کے کیسز کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سلیم شہزاد کو اب تک انصاف نہیں ملا تو محراب پور کے عزیز میمن کو کیا انصاف ملے گا۔ اب میڈیا ڈویلپمنٹ بل کی تلوار صحافیوں کے سر پر لٹک رہی ہے‘ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ نجانے مزید کتنی قدغنیں لگا کر صحافت کا گلا گھونٹا جائے گا۔ ہر دور میں ایسی کوششیں ہوتی رہی ہیں؛ تاہم صحافی ہر بار مزید طاقتور بن کر ابھرے ہیں۔ صحافی برادری کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اپنے حقوق اور آزادی کے لیے سب مل کر جدوجہد کریں۔