مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ سمجھتے سمجھتے یہ دن آ گئے… نوازشریف وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا ہے کہ ’’مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ سمجھتے سمجھتے یہ دن آگئے‘‘ اس لیے سارا کام رُکا ہوا ہے کیونکہ جب تک مسائل سمجھ میں نہ آئیں انہیں حل کیسے کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ مسائل کو سمجھنے کے لیے ایک پندرہ رُکنی کمیٹی قائم کردی ہے جس کی سربراہی میں نے اپنے سپرد کی ہے کیونکہ یہ سمجھداری کا کام ہے اور میں دوسروں کے ساتھ مل کر یہ کام زیادہ سہولت سے کر سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجلی اور گیس چوروں کو یورپ اور امریکہ کی طرح جیلوں میں بھیجیں گے‘‘ جس سے ملک کو یورپ اور امریکہ کے برابر لانے کا آغاز ہو جائے گا‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے فیصلے واپس نہیں ہونے چاہئیں‘‘ کیونکہ فیصلوں کو واپس ہونے کی بہت بُری عادت پڑی ہوئی ہے جسے چھڑوانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’کہنے کو کچھ ہوگا تو قوم سے خطاب کروں گا‘‘ جبکہ فی الحال تو کہنے کو یہی کچھ تھا کہ کہنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’بجلی نہیں تو کچھ بھی نہیں‘‘ کیونکہ اندھیرے میں تو پیٹ بھر کے کھانا بھی نہیں کھایا جا سکتا۔ آپ اگلے روز مشترکہ مفادات کونسل اور سینئر صحافیوں سے خطاب کر رہے تھے۔ گرفتار کرنا ہے تو کر لیں‘ خرچہ بھی بچ جائے گا… گیلانی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ’’اسلام آباد میں ہوں‘ گرفتار کرنا ہے تو کر لیں‘ خرچہ بھی بچ جائے گا‘‘ واضح رہے کہ یہ بیان پہلے بیان سے کافی مختلف اور نرم ہے کہ جس میں ہمت ہے آ کر گرفتار کر لے‘ کیونکہ اب نیب کے طور پر کچھ بدلے بدلے سے نظر آ رہے ہیں جبکہ وزارت ختم ہونے کے بعد اس قدر قلّاش ہوگیا ہوں کہ اگر واپسی کا کرایہ بھی بچ جائے تو لاکھ غنیمت ہے‘ البتہ اسلام آباد کے پوش علاقے میں رکھنے کے لیے جو عمارت حاصل کی گئی ہے‘ ایک بار اس کا معائنہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ میرے شایانِ شان ہے بھی یا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’الزام تو سب پر لگتے رہتے ہیں‘‘ لیکن آج تک کوئی الزام کسی پر ثابت نہیں ہوا کیونکہ یہ کام ہی اتنی کاریگری سے کیا جاتا ہے کہ کوئی مشکل ہی سے سراغ لگا سکتا ہے‘ حتیٰ کہ اگر کوئی اس کام میں دنیا بھر میں مشہور ہو جائے تو بھی اسے ثابت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سیاستدانوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں ہوتی رہتی ہیں‘‘ حالانکہ وہ یہ کام عبادت سمجھ کر کرتے ہیں اور انہیں سجدے سے اُٹھنے کا موقعہ ہی نہیں ملتا۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس سے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ پٹواری اور تھانہ کلچر تبدیل کردیں گے… شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ’’پٹواری اور تھانہ کلچر تبدیل کردیں گے‘‘ جس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پٹواری کلچر‘ تھانہ کلچر میں تبدیل ہو جائے اور تھانہ کلچر پٹواری کلچر میں‘ کیونکہ دونوں میں ویسے بھی کوئی زیادہ فرق نہیں ہے کیونکہ عوام کے ساتھ دونوں کا عاجزانہ رویہ ایک جیسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’کرپشن کے خاتمے اور قانون کی بحالی سے پنجاب کو مثالی صوبہ بنائیں گے‘‘ لیکن سب سے پہلے اس کا موقعہ خیبر پختونخوا کو دیں گے تاکہ وہ اسے مثالی صوبہ بنائے اور اس کے بعد ہم بھی یہ کارنامہ سرانجام دے سکیں‘ اگرچہ پنجاب تو پہلے ہی ایک مثالی صوبہ ہے اور محکمہ پولیس‘ مال‘ تعلیم اور صحت وغیرہ اس کی روشن مثالیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’ملک کو روشنیوں میں لائیں گے‘‘ اور اگر بجلی بحران اسی طرح جاری رہا تو یہ کام کسی دوسرے طریقے سے کرنے کی کوشش کریں گے‘ مثلاً ملک کو کسی ایسے ملک میں لے جائیں گے جہاں روشنیوں کی فراوانی ہو۔ انہوں نے کہا کہ ’’سابق حکمرانوں نے توانائی کے مسئلے پر توجہ نہیں دی‘‘ جبکہ ہم توجہ ضرور دے رہے ہیں‘ آگے اس کی مرضی ہے‘ یہ حل ہوتا ہے یا نہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں مختلف وفود سے ملاقات کر رہے تھے۔ صدارتی امیدوار پر اتفاق ہونا چاہیے… فضل الرحمن جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ’’صدارتی امیدوار پر اتفاق ہونا چاہیے‘ لیکن یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے کیونکہ اگر قوم میرے مسئلے پر متفق نہیں ہو سکی تو صدارتی امیدوار کا معاملہ تو اس سے بہت معمولی مسئلہ ہے حالانکہ اس عاجز کی اشک شوئی کے لیے حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو متحد ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پیپلز پارٹی نے رابطہ کیا ہے لیکن ہم بھی حکومتی بنچوں پر بیٹھے ہیں‘‘ لیکن حکومت کو اس کا بھی کوئی خیال نہیں ہے جبکہ اپوزیشن کے پاس ہماری خدمت کے لیے ویسے ہی کچھ موجود نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی ہی خدمت کر کر کے ہانپ رہی ہے‘ میرے یا کسی اور کے لیے اس نے ماشاء اللہ کچھ باقی رہنے ہی نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’وہ دونوں فریقوں کی متحدہ امیدوار لانے کی کوششوں میں تعاون کریں گے‘‘ تاکہ کامیابی کی صورت میں دونوں دھڑے میری ان خدمات کو یاد رکھیں اور خاکسار کی تشویشناک صورتِ حال پر بھی غور کریں۔ انہوں نے کہا کہ ’’دونوں بڑی جماعتوں میں مفاہمت ہونی چاہیے‘‘ جیسا کہ سابقہ دور میں اتحادی جماعتوں اور اپوزیشن کے درمیان مکمل مفاہمت کا دور دورہ رہا ہے جس سے متعلقین نہال بھی ہوئے اور حکومت کو اپنی مدت بھی پوری کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ فون کلچر کا دور دورہ…! ایک اخباری اطلاع کے مطابق اگلے روز اینٹی سمگلنگ کسٹم کی ٹیم نے تھیٹر کی اداکارہ ماہ نور کے گھر پر چھاپہ مار کر نان کسٹم گاڑی قبضے میں لے لی لیکن ایک فون کال آنے پر چھوڑ دی۔ تفصیلات کے مطابق ٹیم نے خفیہ اطلاع پر چھاپہ مار کر گاڑی برآمد کر لی جو کافی عرصے سے اداکارہ کے استعمال میں تھی لیکن ایک فون کال پر کسٹم کے افسران کو واپس آنا پڑا اور گاڑی اداکارہ کے گھر میں ہی رہنے دی گئی۔ کسٹم کے ذرائع نے بتایا ہے کہ لاہور کی ایک سیاسی شخصیت کے کہنے پر گاڑی چھوڑی ہے۔ اداکارہ کا خفیہ معاشقہ اس شخصیت سے چل رہا ہے۔ پہلے بھی ایک دفعہ چھاپہ مار کر گلشن راوی میں گاڑی پکڑی گئی تھی مگر تب بھی اداکارہ نے گاڑی چھڑوالی تھی۔ ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے‘ ماسوائے اس کے کہ میرٹ اور قانون کی پاسداری کے دعویدار حکمرانوں کے لیے یہ صورتحال چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج کا مطلع نہیں کہ تیرے اشارے نہیں سمجھتا ہوں سمجھ تو لیتا ہوں‘ سارے نہیں سمجھتا ہوں
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved