پانچ جولائی 2017ء کو جب ضیاء الحق کے مارشل لاء کو یاد کرتے ہوئے وزیراعظم ہائوس سے اس پر پتھروں کی بارش کی جا نے لگی تو حکومت کے اتحادی‘ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق کی حمیت جاگی۔ اپنی پشت میں لگنے والے بیان بازی کے تیر کو دیکھ کر انہوں نے یہی کہا ہو گا: یو ٹو بروٹس؟ اس سے قبل (اس وقت کے) وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف 17 جون کو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کے بعد جب میڈیا سے گفتگوکر رہے تھے تو انہوں نے اپنے خاندان کی کہانی سناتے ہوئے کہا کہ 2 جنوری1972ء کو اتفاق فائونڈری کی شکل میں بھٹو حکومت نے جب ہماری عمر بھر کی کمائی چھین لی تو ہمارے پاس کچھ بھی باقی نہیں بچا تھا۔ اب بڑے میاں صاحب کی جانب سے ضیاء الحق کے مارشل لاء کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو اعجاز الحق نے کہا: میاں صاحبان جنرل ضیاء پر گند اچھالتے ہوئے بھول گئے کہ1978ء میں خصوصی طور پر اتفاق فائونڈری بے شمار مراعات کے ساتھ ان کے والد میاں شریف مرحوم کے حوالے کی گئی تھی۔
اعجاز الحق کے اس شکوے نے بہت سی پرانی کہانیوں کو تازہ کر دیا تھا۔صرف اتفاق فائونڈری ہی بھٹو حکومت نے نہیں قومیائی تھی، بے شمار صنعتیں اس وقت قومی تحویل میں لی گئی تھیں۔سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو تمام بڑی صنعتوں کو قومیا لیا گیا تھا۔یہ صنعتیں بنیادی طورپر 22بڑے خاندانوں کی ملکیت تھیں اور ان صنعتوں کو قومیانے کی وجہ یہ تھی کہ ان خاندانوں کو سرکار نے سرکاری زمینیں الاٹ کر کے اور آسان شرائط پر بینکوں سے بھاری رقوم دلواکر ''صنعتکار‘‘ بنایا تھا۔ ملکی تاریخ بتاتی ہے کہ 1950ء کی دہائی میں شروع ہونے والی یہ سرپرستی ایوب دور میں اپنے عروج پر پہنچی اور اُسی دور کی ''معاشی ترقی‘‘ پر تحقیق کرتے ہوئے معروف معیشت دان ڈاکٹر محبوب الحق نے 1967ء میں ایک مقالہ لکھا جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ سرکاری سرپرستی کی بدولت صرف22خاندان ہمارے ملک میں جاری ہرکاروبار کے اجارہ دار بن چکے ہیں اوران کا اجارہ فقط صنعتوں تک محدود نہیں رہا بلکہ ہر شعبۂ زندگی کو اپنے قبضے میں لے چکا ہے۔ چند سالوں بعد جب ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تو سوشلزم کا نعرہ بلند کیا اور اعلان کیا کہ وہ 22خاندانوں کی اجارہ داری ختم کریں گے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد‘ 2جنوری 1972ء کو صنعتوں کو قومیانے کا عمل شروع ہوا اور پہلے فیز میں فولاد، سٹیل، ہیوی انجینئرنگ، الیکٹریکل انجینئرنگ موٹر ٹریکٹر، بجلی کی پیداوار، ترسیل اور تقسیم، گیس اور آئل ریفائنری کی صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا۔ یکم جنوری 1974ء کو بینک اور مالیاتی اداروں کو قومیانے کی منظوری دی گئی اور 13 بڑے بینکوں، 12 انشورنس کمپنیوں، 2 پٹرولیم کمپنیوں اور 10 شپنگ کمپنیوں کو سرکاری تحویل میں لیا گیا۔ تیسرے مرحلے میں 2000 کے لگ بھگ کاٹن جننگ، رائس اور فلور ملوں کو قومی ملکیت میں لیا گیا۔ جو کمپنیاں اور ادارے تحویل میں لیے گئے ان میں ایک مشہورِ زمانہ کمپنی‘ بٹالہ انجینئرنگ کمپنی بھی تھی‘ جو بیکو کے نام سے معروف تھی۔ یہ ایئر فورس کیلئے کچھ پرزے بھی تیار کرتی تھی جبکہ اس کی تیار کردہ سائیکلیں اپنی مضبوطی کی وجہ سے پورے ایشیا میں مشہور تھیں۔ اس کے مالک پاکستان نیوی کے پہلے نیول چیف چودھری محمد صدیق کے بھائی چودھری محمد لطیف تھے۔
5 جولائی1977ء کو جب ضیا الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا تو ایک سال بعد‘ ضیاء الحق کے خصوصی حکم پر اس وقت کے وفاقی وزیر پیداوار اور نجکاری جنرل سعید قادر نے اتفاق فائونڈری کو میاں محمد شریف اور ان کے بھائیوں کے حوالے کیا۔ جیسے ہی اتفاق فائونڈری کو شریف برادران کو لوٹانے کی خبریں باہر آئیں تو بیکو کے مالکان نے بھی اپنی کمپنی واپس پانے کی کوششیں شروع کر دیں جس پر نجکاری کمیشن کی جانب سے انہیں کہا گیاکہ ریکارڈ کے مطابق اس وقت کمپنی کے ذمے مختلف بینکوں کے چالیس کروڑ روپے واجب الاداہیں‘ اگر آپ واجبات کی مکمل ادائیگی کرنے کے علا وہ کمپنی میں کام کرنے والے 8 ہزار ملازمین کی نوکریوں کو برقرار رکھنے پر رضا مند ہو جائیں تو کمپنی آپ کے حوالے کر دی جائے گی۔ بیکو کے مالکان نے کہا کہ 2 جنوری1972ء کی جب کمپنی کو قومی تحویل میں لیا گیا تھا‘ اس وقت اس پر کسی بھی بینک یا ادارے کا ایک روپے کا قرضہ بھی نہیں تھا، لہٰذا ہم چالیس کروڑ کیوں ادا کریں؟ اس پر بیکو کی تحویل مسترد کر دی گئی۔ آج نواز لیگ کی جانب سے ضیاء الحق سے برأت کا اعلان کیا جاتا ہے حالانکہ یہ وہی ضیاء الحق تھے جنہوں نے کابینہ کی منظوری کے بغیر اتفاق فائونڈری شریف برادران کولوٹا دی تھی۔
بیکو کے مالک سی ایم لطیف نے کچھ ہاتھ پائوں مارے تو انہیں علم ہوا کہ نہ صرف اتفاق فائونڈری کے ذمے جو قرض تھا، وہ معاف کر دیا گیا ہے بلکہ انہیں چالیس کروڑ کے لگ بھگ خصوصی سرکاری گرانٹ بھی دی گئی ہے۔ اس پر انہوں نے دوبارہ سعید قادر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ ہمارے ساتھ یہ تفریق کیوں کی جا رہی ہے؟ اتفاق فائونڈری کو اس کے سابق مالکان کے حوالے کرتے ہوئے ان کے یونٹ پر واجب الادا چالیس کروڑ روپے کا قرضہ معاف کرنے کے علا وہ‘ ایک اطلاع کے مطا بق انہیں اتنی ہی رقم خصوصی ا مداد کی شکل میں بھی دی گئی ہے۔ قانون سب کیلئے ایک ہونا چاہئے‘ اس میں تفریق کیوں؟ ہمارا کیا قصور ہے کہ ہمیں اس رعایت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جب بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کے سابق مالکان کا اصرار بڑھا تو سعید قادر نے ان کے سامنے ایسی شرائط رکھیں جو قطعی نامناسب تھیں۔ سعید قادر نے کہا کہ بیکو کے ذمہ اس وقت چالیس کروڑ روپے کا قرضہ ہے‘ جسے اس کے سابق مالکان کو ادا کرنا ہو گا، اس کے علا وہ بیکو میں کام کرنے والے 8 ہزار ملازمین کی نوکریوں کو بھی اسی طرح‘ انہی مراعات کے ساتھ جاری رکھنا ہو گا۔ بیکو مالکان نے کہا کہ یہ چالیس کروڑ روپے کا قرضہ بیکو کے ذمے نجکاری کے وقت واجب الادا نہیں تھا‘ بلکہ بعد ازاں پی پی پی حکومت کی جانب سے مسلط کئے جانے والے لوگوں کی نااہلیوں اور اپنوں کو نوازنے کی وجہ سے کمپنی خسارے کا شکار ہوئی لہٰذا یہ قرضہ ہم کیوں ادا کریں؟پھر وہ اس بات پر بھی حیران تھے کہ ان کے یونٹ میں تو نجکاری سے قبل 6000 افراد کام کر رہے تھے‘ یہ 2 ہزار مزید کہاں سے آ گئے؟ تاہم سی ایم لطیف نے سعید قادر کواپنے ہاتھ میں پکڑی فائل دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ دیکھئے اتفاق فائونڈری کو اس کے سابق مالکان کے حوالے کرتے ہوئے چالیس کروڑ روپے کا قرضہ نہ صرف معاف کیا گیا بلکہ انہیں یہ اختیار بھی دیا گیا کہ وہ فائونڈری میں کام کرنے والے تمام ملازمین کو فارغ کر دیں یا جن کو چاہیں‘ برقرار ر کھیں جبکہ ان کے مقابلے میں ہمیں آٹھ ہزارملازمین اور چالیس کروڑ کے قرضوں کو قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
یہ بات جب اخبارات تک پہنچی تو پریس میں بھی دبی دبی زبان میں شور مچنا شروع ہو گیا کہ مارشل لا حکومت کا یہ یکطرفہ فیصلہ کیوں؟ بھٹو حکومت نے تو سینکڑوں کے حساب سے صنعتی یونٹ ملک بھر سے قومی ملکیت میں لیے تھے جن میں بڑے بڑے ٹائیکون بھی شامل تھے لیکن اب تک کسی ایک یونٹ کو بھی اس کے مالکان کو واپس نہیں لوٹایا گیا‘ پھر کیا وجہ ہے کہ صرف اتفاق فائونڈری کو ہی بھر پور فائدے کے ساتھ اس کے سابق مالکان کے حوالے کیا گیا؟ بیکو مالکان نے زیادہ احتجاج کیا تو سعید قادرنے چودھری لطیف کو بتایا کہ یہ سب کچھ میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ یہ سب کچھ صدر ضیا کی خصوصی ہدایات پر ہو رہا ہے، آپ مجھ پر ناراض ہونے کے بجائے اپنی یہ شکایات اپنے دا ماد میاں وحید سے کیوں نہیں کرتے جو خاتونِ اول کے فرسٹ کزن ہیں‘ آپ ان سے بات کریں اور یقین مانیں کہ جیسے ہی اوپر سے حکم ملے گا آپ کا صنعتی یونٹ بھی مذکورہ تمام مراعات کے ساتھ واپس کر دیا جائے گا لیکن بیکو مالکان نے یہ کہہ کر خاتونِ اول یا صدر ضیا کی سفارش کرانے سے انکار کردیا کہ سفارش ناجائز کام کیلئے کرائی جاتی ہے‘ ہم تو اپنا جائز حق مانگ رہے ہیں۔ یہ ہے اتفاق فائونڈری کے قومیائے جانے کی وہ کہانی جس کے باعث شریف خاندان ''دیوالیہ‘‘ ہو گیا تھا اور اس کے پاس ''کچھ باقی نہیں بچا تھا‘‘۔