اس بار ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا آغاز ہی سنسنی خیز تھا۔ برِصغیر کے دو روایتی حریف پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ جب بھی یہ دونوں ممالک میچ کھیلتے ہیں سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچاکھچ بھر جاتا ہے، سڑکیں خالی ہو جاتی ہیں اور گھروں اور ریستورانوں میں لوگ ٹیلی ویژن کے گرد پروانوں کی طرح اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میچ بہت دلچسپ تھا‘ جس میں پاکستان نے بھارت کو دس وکٹوں سے شکست دے دی۔ ٹورنامنٹ کا ایک اور دلچسپ میچ پاکستان اور نیوزی لینڈ کا تھا جو کانٹے کا مقابلہ تھا۔ اس میچ میں راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے نوجوان حارث رؤف نے اپنی تیز ترین گیند بازی سے نیوزی لینڈ کی چار وکٹیں اڑا کر پاکستان کو فتح دلائی تھی۔ حارث رؤف کو مین آف دی میچ کا اعزاز ملا۔ کسے معلوم تھا کہ راولپنڈی کے گلی کوچوں میں کھیلنے والا یہ نوجوان اتنی تیزی سے کامیابیوں کے زینے طے کرتا ہوا قومی ہیرو بن جائے گا۔ سکرین پر حارث کو دیکھ کر مجھے راولپنڈی سے جُڑے بہت سے چہرے یاد آ گئے جو اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں پر ٹیپ بال سے کھیلتے کھیلتے قومی ٹیم کا حصہ بنے اور پاکستان کا نام روشن کیا۔ مجھے یاد ہے میں نے راولپنڈی کلب سٹیڈیم میں پہلا میچ اس وقت دیکھا جب میں پہلی جما عت میں پڑھتا تھا۔ میچ دیکھنے کیلئے میں اپنے بڑے بھائیوں کے ہمراہ آیا تھا۔ اس کے بعد مجھے یاد نہیں کہ راولپنڈی میں کوئی کرکٹ میچ ایسا تھا جو میں نے سٹیڈیم میں نہ دیکھا ہو۔ ان دنوں کرکٹ راولپنڈی کی ہواؤں میں گھل مل گئی تھی۔ بعد میں مجھے کچھ عرصہ راولپنڈی کے گورنمنٹ کالج اصغر مال میں پڑھانے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں وہاں پروفیسر اشتیاق شاہ بھی پڑھاتے تھے۔ اشتیاق شاہ صاحب کرکٹ کے شیدائی تھے۔ خود بھی بہت اچھے کرکٹر تھے اور نوجوان کرکٹرز کے گرُو تھے۔ کتنے ہی کرکٹرز اصغر مال کالج کی نرسری سے نکلے اور قومی سطح پر تناور درخت بن گئے۔ کالج میں فیصل بلاک کے سامنے کرکٹ گراؤنڈ تھا‘ جہاں میں نے مستقبل کے کتنے ہی روشن ستاروں کو کھیلتے دیکھا۔ انہی میں ایک لڑکا شعیب اختر تھا جس کی گیند بازی کی رفتار دیدنی تھی۔ اسے کرکٹ کا جنون تھا اور اسی جنون اور محنت نے ایک دن اسے قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بنا دیا۔ راولپنڈی کے پرانے علاقے مورگاہ سے اٹھنے والا یہ نوجوان شہرت کے آسمان پر روشن ستارہ بن کر چمکنے لگا۔ وہ منظر کرکٹ کے شیدائیوں کو اب تک یاد ہے جب شعیب اختر‘ جسے دنیا ''راولپنڈی ایکسپریس‘‘ کے نام سے جانتی ہے‘ نے اپنی دو گیندوں پر بھارت کے سٹار بیٹسمینوں راہل ڈریوڈ اور سچن ٹنڈولکر کو آؤٹ کیا تھا‘ اور سچن ٹنڈولکر توشعیب کی پہلی بال پر بولڈ ہوگیا تھا۔ شعیب اختر کی تمام زندگی سخت محنت، کامیابیوں اور تنازعوں کی زندگی تھی جس کا احوال شعیب نے اپنی کتاب Controversially yours میں بیان کیا ہے۔
اصغر مال کے اسی میدان میں میں نے مسعود انور کو کھیلتے دیکھا‘ جو کالج ٹیم کا اوپننگ بیٹس مین تھا اور جس کی بیٹنگ تکنیک کا خوبصورت نمونہ تھی۔ بعد میں مسعود انور اپنی بہترین کارکردگی کی بنیاد پر پاکستان ٹیم میں اوپنر کی جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ راولپنڈی کے ذکر سے مجھے فاسٹ باؤلر سہیل تنویر یاد آگیا جس کا تعلق راولپنڈی کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ 6 فٹ تین انچ کے اس نوجوان نے جب قومی ٹیم میں شمولیت اختیار کی تو سب کو چونکا دیا۔ بائیں ہاتھ سے باؤلنگ کرنے والے اس نوجوان کا باؤلنگ ایکشن یکسر مختلف اور انوکھا تھا۔ وہ چھوٹے سے رن اپ سے باؤلنگ کرتا اور اس کی تیزی سے گھومتی بال کو بیٹسمین سمجھنے سے قاصر تھے۔ راولپنڈی کی انہیں گلیوں سے اٹھنے والا ایک اور سپن باؤلر نذیر جونیئر تھا جسے عالمِ جوانی میں تو کوئی چانس نہ مل سکا، بہت دیر سے جب اسے قومی ٹیم میں شرکت کا موقع ملا تو اس نے پہلی ہی اننگز میں 9 رنز دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرکے سب کو حیران کر دیا۔ نذیر جونیئر رائٹ آرم آف بریک باؤلر تھا اور ویسٹ انڈیز کے دورے میں اس نے عظیم بیٹسمین رچرڈ کو کئی بار آؤٹ کیا۔ نذیر جونیئر نے 14 ٹیسٹ میچ اور چار ون ڈے میچز کھیلے۔ پاکستان کے معروف آل راؤنڈر اظہر محمود بھی راولپنڈی کے گلی کوچوں میں کھیلے۔ ان دنوں اظہر محمود اپنی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ بعد میں اظہر پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہوئے اور پھر انگلش کاؤنٹی ''سرے‘‘ میں بھی اپنی کارکردگی کا جادو جگایا۔ وہ پاکستانی ٹیم کے کوچ بھی مقرر ہوئے۔
راولپنڈی ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ کسی ابھرتے ہوئے کھلاڑی کی شہرت دنوں میں ہر طرف پھیل جاتی تھی۔ ایسا ہی ایک نوجوان محمد وسیم تھا جس کی بیٹنگ کے چرچے ہر طرف تھے۔ اپنی غیرمعمولی کارکردگی سے وہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا۔ بعد میں وہ ٹی وی پر کرکٹ کا مبصر بنا اور راولپنڈی میں کرکٹ اکیڈمی بھی شروع کی۔ پھر راولپنڈی کے ایک نوجوان محمد نواز کی باؤلنگ ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ جلد ہی وہ سلیکٹرز کی نگاہ میں آ گیا جہاں اب اسے ٹیسٹ میچز اور ایک روزہ میچ کھیلنے کے مواقع مل رہے ہیں۔
بہت کم لوگوں کے علم ہوگا کہ پاکستان کے مایہ ناز وکٹ کیپر اور بیٹسمین معین خان بھی راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ون ڈے میچز میں انہوں نے دو سو کیچ پکڑے اور تین ہزار رنز سکور کیے۔ بعد میں پاکستانی ٹیم میں سلیکٹر اور ہیڈ کوچ رہے۔ معین خان کے بڑے بھائی محمد ندیم خان بھی راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے دو ٹیسٹ میچ اور دو ایک روزہ میچ کھیلے۔ وکٹ کیپنگ کا ذکر آیا تو مجھے راولپنڈی کے ندیم عباسی کا دھیان آ گیا۔ وہ KRL کی طرف سے کھیلتے تھے اور پھر انہیں پاکستان کی قومی ٹیم میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ ندیم عباسی نے پاکستان کی قومی ٹیم میں کھیلتے ہوئے تین میچز کھیلے۔
راولپنڈی کی کرکٹ کی تاریخ میں ایک اہم نام میراں بخش کا ہے۔ میراں بخش آف سپنر باؤلر تھے جنہوں نے 1955 میں دو ٹیسٹ میچ کھیلے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ انہوں نے پہلا میچ 47 برس کی عمر میں کھیلا۔ راولپنڈی کی کرکٹ کی کہکشاں میں بہت سے اور روشن نام بھی ہیں جن میں ایک نام عمر امین کا ہے جس نے ایشیا کپ اور ٹیسٹ میچ کھیلے۔ نوید اشرف جس نے دو ٹیسٹ اور ٹی ٹونٹی میچوں میں حصہ لیا۔ ڈنکن شارپ جس نے 1950-60 میں میچ کھیلے۔ ایک اور نام راجہ آصف محمود کا ہے جس نے پاکستان کی طرف سے دو ایک روزہ میچ کھیلے۔
جن نوجوانوں کو پاکستان کرکٹ ٹیم میں جگہ نہ ملی وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے مختلف ممالک کی قومی ٹیموں کا حصہ بن گئے۔ ان میں عابد حسین (سری لنکا) پرویز اقبال، عثمان افضل (انگلینڈ)، خرم نواز اور مظہر خان (عمان ) ایلک جارج ڈیویز (سکاٹ لینڈ) وقاص برکت الیاس گل، ناصر محمود اور حبیب امجد (ہانگ کانگ) عبدالجبار، قیصر علی (کینیڈا) اور ثقلین حیدر (یو اے ای) شامل ہیں۔
اب سوچتا ہوں تو ذہن میں کیسے چہرے روشن ہو جاتے ہیں‘ جو راولپنڈی کی کہکشاں کا حصہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سکول اور کالج کرکٹ کی ابتدائی تربیت گاہیں تھیں جہاں ان ہیروں کی تراش خراش ہوتی تھی، گلیوں اور سڑکوں پر کھیلتے ہوئے یہ جنوں پیشہ نوجوان اپنی محنت اور مہارت کی بدولت شہرت کی بلندیوں پر پہنچے۔ آج سکرین پرحارث رؤف کی تیز باؤلنگ کو دیکھ مجھے راولپنڈ ی کے گلی کوچے یاد آ گئے اور پھر ان سے جُڑے وہ روشن چہرے جو کرکٹ کے میدان میں اپنے وطن کا نام روشن کررہے ہیں اور جن پر پوری قوم کو ناز ہے۔