حکمرانوںکی تقاریر سنیں‘ ان کے مبارک ہاتھوں سے کاٹے گئے افتتاحی فیتوں کے بارے میں سوچیں‘ ان کے لاتعداد افتتاحی منصوبوں کے سنگ بنیاد دیکھیں اور اعلیٰ سول افسران کے فائلوںمیں تیار کیے گئے عوامی فلاح و بہبود اور قومی ترقی کے پروجیکٹس کا جائزہ لیں تو لگتا ہے کہ پاکستان جیسا خوش حال اور ترقی یافتہ ملک اس دنیا میں کوئی اور ہے ہی نہیں۔ پوری قوم جب بجلی بجلی کرتی ہے تو یادپڑتا ہے کہ دس سال قبل مئی2003ء میں متبادل انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ (AEDB) کے نام سے تین اعلیٰ افسران کی زیر نگرانی ایک ایسا محکمہ قائم کیا گیا تھا جس کو غریب ترین قوم کے خالی خزانے سے چھ بلین روپے دیتے ہوئے یہ درخواست کی گئی کہ آپ کے کام میں کوئی مداخلت نہیں کرے گا‘ کرنا صرف یہ ہے کہ ان چھ کھرب روپوئوں سے سولر، بائیو اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تیار کرنے ہیں۔ آج دس سال گذر چکے ہیں لیکن نہ تو کہیں متبادل بجلی ہے اور نہ ہی اس بجلی کیلئے دیا گیا وہ چھ بلین روپیہ کہیں نظر آ رہا ہے۔ 30جنوری2008ء کو نگران وزیر اعظم محمد میاں سومرو نے ملک میں توانائی کے بڑھتے ہوئے بحران سے نپٹنے کیلئے ایک پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ دس دن کے اندر رپورٹ تیار کریں تاکہ پاور سیکٹر میں دلچسپی رکھنے والے بین الاقوامی اداروں کے درمیان سندھ میں تھر کول سے بیس ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس لگانے کیلئے مقابلہ بازی کی فضا پیدا کی جائے۔ آج اس بات کو پانچ سال ہو چکے ہیں‘ نہ جانے یہ کمیٹی اور اس کی تیار کر دہ رپورٹ کہاں گئی؟۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں وزیر مملکت عمر گھمن اور ایک امریکی کمپنی AES کے چیف ایگزیکٹوBrain Miller نے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے‘ جس کے مطا بق اس امریکی کمپنی نے کوئلہ سے بجلی پیدا کرنے والا5000 میگا واٹ کا ایک پلانٹ لگانا تھا اور یہ بجلی پاکستان کو صرف2.5 سنٹ فی یونٹ مہیا کی جانی تھی۔ نہ جانے وہ معاہدہ اوروہ بجلی کہاں غائب ہو گئی؟2006ء ہی میں جنرل پرویز مشرف نے کوہستان میں کاگا ہائیڈرو پروجیکٹ، آزاد کشمیر میں منگلا سے اوپر کریت پتن پروجیکٹ، اسریت کدم ہائیڈرو پروجیکٹ، چکوٹھی ہٹیاں پروجیکٹ، کالام سوات ہائیڈل پروجیکٹ، سہرا ، شو گواور شوش گائی ہائیڈل پاور پروجیکٹ پر کام کی منظوری دی۔ یہ کل9 ہائیڈل پاور منصوبے تھے جن سے1849 میگا واٹ بجلی حاصل ہونی تھی۔ ان میں سے تین پاور پلانٹس کے لیے ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے قرضے کی سہولت بھی فراہم کر دی تھی (ان میں سے منگلا سے اسریت پاور پلانٹ کا وزیر اعظم نواز شریف نے پندرہ جولائی کو افتتاح کیا ہے) جنرل پرویز مشرف کے منظور کردہ ان9 پاور پلانٹس میں سے باقی آٹھ نہ جانے کہاں غائب ہو گئے ہیں؟ گزشتہ دو سالوں سے پاکستان کی معیشت اور اس ملک کے عوام جس عذاب سے دو چار ہیں اس کے لیے تو ان میں سے کوئی ایک منصوبہ ہی مکمل کر لیا جاتا تو یہ حالت نہ ہوتی جو اس وقت ہے کیونکہ پاکستان کو صرف تین سے چار ہزار میگا واٹ بجلی کی کمی کا سا منا ہے۔ پانچ سے دس سال پہلے کیے گئے معاہدوں کے ان تمام پروجیکٹس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سنجیدہ سعی کی جاتی تو اس وقت پاکستان بجلی ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہوتا۔ ملکی انتظامی معاملات کا گراف اس قدر نیچے گرا دیا گیا ہے کہ اب ہم بھارت اور تاجکستان سے بجلی خرید نے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کی سیا ست اور معیشت‘ دونوں کا دارو مدار آج صرف اور صرف توانائی پر ہے۔ انتخابات میں پیپلز پارٹی اگر چاروں شانے چت زمین پر لوٹ کر رہ گئی تھی تو اپنی کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اور صرف بجلی کی خوفناک لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے تھی۔ جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد پی پی کی حکومت نے26 اگست2009ء کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 1500 میگا واٹ کے چودہ نئے رینٹل پاور پلانٹس لگانے کی منظوری دی۔ حکومت تو ختم ہو گئی لیکن بجلی کے بحران کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ ہمارے حکمران اپنے منصوبے بناتے اور بگاڑتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا ہمارے ہر عمل کو باریک بینی سے دیکھ رہی ہو تی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج سے کوئی سات سال قبل ایشیائی ترقیاتی بینک جیسے عالمی ادارے کو بھی تنگ آ کر یہ کہنا پڑا: ’’اگر آپ نے پاور سیکٹر میں اصلاحات اور ترقی کے اصلی اور قابل عمل منصوبے شروع نہ کیے تو پاکستان بہت جلد دیوالیہ ہو جائے گا اور اس کی مشکلات اس قدر بڑھ جائیں گی کہ پھر کوئی ملک مدد کو نہ آ سکے گا‘‘ ہمارے ملک میں بد قسمتی سے لوٹ مار کرنے کے لیے بیوروکریسی دلکش نتائج کی یقین دہانی کے ساتھ بڑے بڑے منصوبے سامنے لا تی ہے۔ جیسا کہ پہلے لکھ چکا ہوں اسی طرح کا ایک ادارہ AEDB‘ یعنی متبادل توانائی ڈویلپمنٹ بورڈ کے نام سے قائم کیا گیا۔ اس ادارے کاریکارڈ دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ کاغذوں میں درجنوں کے حساب سے پروجیکٹ بنائے گئے لیکن نتیجہ وہی صفر ہے۔ 2004ء میں دس ملین روپے کی لاگت سے ’’بائیو ڈیزل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پروگرام‘‘ پانچ ملین روپے سے فیول سیل ریسرچ پروجیکٹ‘ چار ملین روپے سے Hydro Kaplan Turbinesکی تنصیب کا پائلٹ پروجیکٹ کی منصوبہ بندی کی گئی۔ 19 جون 2005ء کو اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے 3.90 ملین روپے کی لاگت سے اسلام آباد سے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ناریاں کھوریاں گائوں کو سولر بجلی کی فراہمی کیلئے سولر الیکٹریفکیشن پلانٹ کا افتتاح کیا ۔2005ء میں ایک سو ملین کی لاگت سے ہر صوبے کے 100 گھروں میں سولر پروجیکٹ کی تنصیب کا اعلان کیا گیا۔ 2006ء میں21.43 ملین کی لاگت سے بائیو ڈیزل پروڈکشن پلانٹ‘ 2006ء ہی میں39.80 ملین روپے سے سولر تھرمل پلانٹس کی ٹیکنالوجی کا حصول‘ 2006ء میں تین ملین کی لاگت سے الیکٹرک وہیکل کی تیاری،4.03 ملین روپے سے ایک کے وی کے فیول سیل وہیکل کی فراہمی۔ 2006ء میں دو صد ملین روپے سے مائیکرو ونڈ ٹربائنز کی تنصیب۔200 ملین روپے سے پاکستان کے دس شہروں میں\'\'WASTE ENERGY PLANTS\'\' کی فزیبلٹی۔ 2006ء میں50.35 ملین روپے سے سولرگھربنانے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔2006 ہی میں پاکستان کے کچھ دیہات کو887.71 روپے کی بھاری لاگت سے بجلی فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا اور یہ ذہن میں رکھیں کہ یہ بجلی روایتی تیل پانی کے استعمال سے نہیں بلکہ سولر اور ہوا جیسے متبادل ذرائع سے فراہم کرنی تھی۔ آج یہ منصوبے کہیں نظر نہیں آتے۔ ایشیائی ترقی بینک نے2004- 2007ء میں5.73 ملین ڈالر انرجی ڈویلپمنٹ بورڈ کی ترقی کے لیے دیئے۔ یہ سب ملا کر چھ بلین روپے خرچ کیے جا چکے ہیں لیکن ان 6 بلین روپوئوں کے بدلے میں اس ملک کو ایک میگاواٹ بجلی بھی نہیں مل سکی!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved