سمندر کی طرف سے ہوا تیز اور ٹھنڈی ہو چلی تھی۔ رات کا ریشم بھیگ بھی رہا تھا اور مرمریں شانوں سے پھسل بھی رہا تھا۔ انگاروں پر سینکی جانے والی مچھلی کی خوشبو ہوا کی لہروں پر پھیل رہی تھی۔ ہلکی سمندری لہریں ان میز کرسیوں کے پیر چومتی تھیں جس پر میں اور فروا کھانے کے لیے بیٹھے تھے۔ کھلے آسمان تلے اس ریسٹورنٹ میں نیم روشن تاریکی جگمگ جگمگ کرتی ہمیں دیکھتی تھی۔
پہلے دو بار ترکی آنے کی وجہ سے فروا کو یہاں کی بہت سی چیزوں کا علم تھا۔ میری طرح لیوریک (Leverek) مچھلی اسے بھی بہت پسند تھی۔ ہم چل چل کر اچھے خاصے تھک چکے تھے؛ چنانچہ آدھے گھنٹے کے انتظار کے بعد جب مچھلیوں کی دو لمبی قابیں ہم دونوں کے سامنے رکھی گئیں تو مزید صبر ممکن نہیں ہورہا تھا۔ لیوریک کے ساتھ آلو کے چپس، پیاز کے لچھے، بڑے بڑے ترشے ہوئے لیموں، کھیرے کے ٹکڑے، پودینے کے پتے اور ٹماٹر کے ٹکڑے ڈش میں سلیقے سے سجے تھے۔ لیوریک کومسلّم دم سے لے کر سر تک آگ پر سینکا جاتا ہے اور مچھلی جیسی قاب میں سجا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مجھ جیسے نمک مرچ کے شائق کے لیے کچھ مسالا الگ بھی پیش کیا گیا تھا جو فروا کے لیے حیرانی اور ہنسی‘ دونوں کا سامان مہیا کیے جارہا تھا۔ ''مجھے حیرانی ہے کہ آپ کو اتنے مسالوں کے ساتھ مچھلی کا ذائقہ محسوس کیسے ہوتا ہے‘‘۔ ''اور مجھے پریشانی یہ ہے کہ نمک مرچ شامل نہ کرنے کے باوجود آپ کو لیوریک اچھی کیسے لگتی ہے‘‘۔ میرا یہ جوابی حملہ دراصل اپنے دفاع کی ایک کامیاب کوشش تھی اور اس سے پہلے کہ وہ مجھے تیز مسالوں کے نقصانات سے آگاہ کرے‘ میں نے اس کا دھیان منظر کی طرف موڑ دیا۔ ''ذرا دیکھیے پانی میں اس قلعے کا جھلمل عکس‘ پانی کا رنگ بھی سنہرا ہورہا ہے‘‘۔ میں نے دور بودرم کے قلعے کی طرف اشارہ کیا جو اتفاق سے ہمارے سامنے تھا اور پانیوں کے پار‘ سنہری سرخ روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ مچھلی نہایت مزے کی تھی اور لوازمات نے اسے مزید پُر لطف بنا دیا تھا۔ '' میٹھے میں کیا پسند ہے؟ٹرکش رائس پڈنگ کیسی رہے گی؟‘‘ میں نے پوچھا۔ ''ہاں بہت پسند ہے۔ منگوا لیں۔ لیکن کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ پڈنگ پر نمک چھڑکے بغیر اسے پسند کر لیں گے؟‘‘ یہ اتنا مزے دار اور نمکین جملہ تھا کہ بے اختیار ہم دونوں کا قہقہہ بلند ہو گیا۔
خوشی کا دورانیہ لیکن مختصر تھا۔ فروا نے بتایا کہ وہ اپنے پروگرام کے مطابق کل صبح کی فلائٹ سے استنبول اور اگلے دن دبئی واپس چلی جائے گی۔ ''مجھے ترکی آئے ہوئے دس دن ہو چلے ہیں۔ افسوس یہ کہ مزید ٹھہرنا ممکن نہیں ہے ورنہ ترکی کسی کو آسانی سے واپس جانے نہیں دیتا‘‘۔ میں بغیر کچھ کہے بیٹھا رہا۔ رائس پڈنگ آچکی تھی۔ میں نے ایک چمچ پڈنگ منہ میں ڈالی۔ فروا میرے تاثر کا انتظار کر رہی تھی۔ میںنے بھی دلی اظہار میں دیر نہ لگائی۔ ''اس اطلاع کے بعد ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی نے پڈنگ میں نمک مرچ کی پوری شیشی انڈیل دی ہو‘‘۔ قہقہہ اس بار بھی دونوں کا تھا اور زوردار تھا لیکن اس بار اس میں افسوس کا رنگ بھی شامل تھا۔ ''آپ کبھی لبنان نہیں آئے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ یہ سوال ان سوالات کی طرف رخ موڑتا تھا جو مسلسل میرے اندر کنڈلی مارے بیٹھے تھے اور میں ان کے ڈنک سے بچنا چاہتا تھا۔ بطور کالم نگار دنیا کے بڑے اخبارات پڑھتا رہتا ہوں۔ پھر چند دن پہلے ہی استنبول کی کانفرنس میں بیروت کے مندوب سے وہاں کے حالات تفصیلی طور پر جاننے کا موقع ملا تھا۔
مجھے معلوم تھا کہ لبنان گزشتہ دو سال سے ایک ایسے بھیانک بحران سے گزر رہا ہے جو مالی ہی نہیںضروری اشیا کے قحط کا بھی ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ عالمی بینک نے اس قحط کو 1850ء کے بعد بدترین قرار دیا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ لوگ صبح 4 بجے سے دو‘ تین کلومیٹر لمبی پٹرول کی قطار میں لگ جاتے ہیں اور اگر خوش قسمت ہوں تو آٹھ‘ نو گھنٹے انتظار کے بعد انہیں گزارے کے لیے پٹرول مل جانے کا امکان ہوتا ہے۔ بجلی نہ ہونے کے برابر ہے اور لبنان کے ہسپتالوں کے ڈاکٹرز نے ہسپتالوں کے کوریڈورز اور انتظامی دفتروں میں اے سی اور لائٹس بند کر دی ہیں تاکہ ڈیزل بچ سکے اور مریضوں کے کام آئے۔ ضروری اور لازمی ادویہ نایاب ہیں۔ عام لوگوں کا حال یہ ہے کہ لبنان کی آبادی کے تین چوتھائی لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ ہر کاروبار بند ہو رہا ہے۔ ضروری خوراک انتہائی مہنگی اور نایاب ہو چکی ہے۔ اور بہت سے لوگوں نے ایک وقت کا کھانا چھوڑ دیا ہے۔ دفتروں میں کاغذکی کمیابی ہے۔ 2019ء سے لبنانی پاؤنڈ‘ جسے لیرا بھی کہا جاتا ہے‘ اپنی90 فیصد قدر کھو چکا ہے۔ 2019ء میں فی ڈالر 1500 نرخ والا پاؤنڈ اب 20 ہزار فی ڈالر پر ہے۔ خوراک کی قیمتیں 400 فیصد بڑھ چکی ہے۔ لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر بھی ضروری اشیائی مثلاً ڈبل روٹی راشن پر ملتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک درمیانے درجے کے گھرانے کا، فی ماہ 6 لاکھ 75 ہزار لبنانی پاؤنڈز میں گزارا ہو سکتا ہے جبکہ اس کی آمدنی اس سے 5 گنا کم ہوتی ہے۔ یہ ہولناک حالات دل دہلا دینے کے لیے کافی تھے۔ جو سوال سانپ کی طرح پھن کاڑھ کر پھنکارتے تھے وہ میں نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لیکن اب فروا نے یہ سوال پوچھا تو میرے منہ سے نکل گیا۔ ''مجھے شوق تو بہت ہے لیکن... میں نے سنا ہے نہ پانی ہے، نہ بجلی اور نہ پٹرول۔ کیا یہ بات ٹھیک ہے؟‘‘ وہ تاریکی میں سمندر کی طرف دیکھنے لگی‘ جیسے اس نے میری بات سنی ہی نہ ہو۔ میں چپ رہا اور سوال نہیں دہرایا۔ جب کوئی سنی اَن سنی کر دے تو بہتر ہے آپ بھی ایسے ہو جائیں جیسے کبھی یہ سوال پوچھا ہی نہ تھا۔ کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ بولی ''ہاں یہ ہے تو سچ! لیکن میں اس رات کا منظر ان باتوں سے خراب نہیں کرنا چاہتی جن سے جان چھڑا کر باہر نکلی ہوں۔ میں جاب تو دبئی میں کرتی ہوں لیکن میرے لوگوں کی‘ میرے رشتے داروں کی تکلیف مجھے مسلسل رلاتی رہتی ہے‘‘۔ میں شرمندہ ہو گیا۔ میں فروا کا زخم چھیڑ بیٹھا تھا اور اب مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات بدلوں کیسے۔
لیکن بات بدلنے میں دیر نہیں لگی۔ وہ سمجھ دار تھی اور جانتی تھی کہ میری نیت اسے تکلیف دینے کی نہیں تھی۔ اس نے کہا کہ اب اٹھتے ہیں اور دوائیوں کی دکان ڈھونڈتے ہیں۔ فروا کو اور مجھے کچھ دوائیاں درکار تھیں۔ اور اس کے بعد اپنے اپنے ہوٹل واپس جانا تھا۔
'' فارمیسی کو ترکی میں ایزجانے کہتے ہیں۔ رات کے اس وقت عام دکانیں بند ہو چکی ہوں گی صرف بڑے شاپنگ مالز ہی سے دوائیاں مل سکتی ہیں‘‘۔ اس نے بتایا۔ ہم اٹھے تو وہ دکھ بھی ہمارے ساتھ ہی اٹھ کھڑا ہوا جو ہم نے انجانے میں جگا دیا تھا۔
بارِ الٰہا! کیا گزر رہی ہو گی لبنان کے لوگوں پر۔ اس کی اور میری آنکھوں میں نمی تھی اور یہ نمی سمندری ہوا کی وجہ سے نہیں تھی۔
دوائیاں ڈھونڈ لی گئیں اور میرین ڈرائیو پر چلتے چلتے ہمیں چپ سی لگ گئی تھی۔ ''آپ بودرم میرینا سے وہ بوٹ ٹرپ ضرور لیجیے گا جو قریب کے جزیروں کا ہے۔ سارا دن مزے دار گزرے گا۔ اگر میں یہاں ہوتی تو اکٹھے چلتے‘‘۔ میں چپ رہا۔ نیم سنسان، نیم روشن راستے بھی کچھ نہ بولے۔ صرف ہوا کی آوازیں تھیں جن میں ناریل کے پیڑ ہوا کے تیز جھونکوں میں لہراتے تھے اور فروا کے ریشمی بال بار بار بکھرنے لگتے تھے۔ سامنے، بالکل سامنے وہ موڑ تھا، جہاں سے ہمارے راستے جدا ہوتے تھے۔ یہ موڑ۔ خدایا! ایک ہی زندگی میں یہ موڑ کتنی بار آتا ہے۔