خاکسار کی نواسی سجیحہ دو سال کی ہوچکی ہے۔ چلنا سیکھ لیا ہے، بولنا ابھی سیکھا نہیں مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ بول لیتی ہے۔ اکیسویں صدی کے بچوں کا معاملہ یہ ہے کہ بولنا سیکھنے سے بہت پہلے ہی یہ بہت کچھ بولنا سیکھ لیتے ہیں! اِن کی اِس خصوصیت پر رشک بھی آتا ہے اور شرمندگی بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ سال خوردہ نسل میں بہت سے ایسے ہیں جو ساٹھ‘ ستر سال کی عمر میں بھی بولنا نہیں سیکھ پائے! لوگ ڈیڑھ‘ دو سال کے بچوں کو بولنا سکھانے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اِس کی کچھ خاص ضرورت نہیں۔ بولنا وہ سیکھ ہی لیں گے۔ ضرورت تو اُن پر توجہ دینے کی ہے جو عمر کے آخری مرحلے میں بھی بولنے کے نام پر محض ستم ڈھاتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ کوئی اُنہیں کسی جبری کلاس میں بھرتی کرکے ''بالالتزام‘‘ بولنا سکھائے!
زمانہ خواہ کوئی ہو‘ بچوں کا اپنا زمانہ ہوتا ہے جو اِدھر اُدھر کے زمانوں سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ زندگی کو اپنی اصل مطلوبہ حالت میں یعنی بھرپور راحت و شادمانی کی کیفیت سے سرشار دیکھنا ہو تو بچوں سے معاملت بڑھائیے۔ بچوں کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے جو بیرونی اثرات قبول کرنے کے معاملے میں خاصی بخیل واقع ہوئی ہے۔ کون کہتا ہے کہ بچوں کی سوچ نہیں ہوتی؟ بڑی یا ڈھلی ہوئی عمر کے 'بچوں‘ نے بھلے ہی بولنا نہ سیکھا ہو اور سوچے سمجھے بغیر ہی جیے جارہے ہوں، حقیقی بچے سوچنے سے مجتنب نہیں رہتے۔ ہاں! سوچنے کے معاملے میں تمام بچے ایک دوسرے کی نقالی کرتے پائے جاتے ہیں کیونکہ سب کی سوچ یکساں دکھائی دیتی ہے۔ بچے خالص ڈکٹیٹرانہ انداز سے سوچتے ہیں یعنی کم و بیش ہر معاملے میں اپنی مرضی چلاتے ہیں اور جو کچھ بھی کرتے ہیں اُس کے طریقے کا تعین بھی خود ہی کرتے ہیں! بچوں کی ''ڈکٹیٹری‘‘ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ضد پر آئیں تو ایک دنیا کو اِدھر سے اُدھر کردیں، اکھاڑ پچھاڑ کا بازار گرم کردیں، سبھی کچھ اُلٹ پلٹ دیں۔ روٹھ جائیں تو مَنتے بہت مشکل سے ہیں۔ دھرنے دینے والے تو تھوڑی سی بات چیت سے بہل جاتے ہیں یا پھر انتظامیہ کے ڈرانے دھمکانے پر مطالبات سے باز آجاتے ہیں لیکن اگر بچے دھرنا دینے پر آئیں تو پھر ''مذاکرات‘‘ کے ادوار چلانا پڑتے ہیں اور یہ پوری طرح پھر بھی نہیں مَنتے۔ بات بات پر مچلنے کی عادت تو ہماری نواسی میں بھی خوب پائی جاتی ہے۔ اور بچوں کے مزاج کا سارا حسن مچلنے ہی میں پایا جاتا ہے۔ سجیحہ کے مچلنے کا معاملہ تو ہم کسی نہ کسی طور یعنی چاکلیٹ وغیرہ کی مدد سے سنبھال لیتے ہیں، ہاں بولنے کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے۔ وہ اٹک اٹک کر بولتی ہے گویا سوچ سمجھ کر الفاظ زبان تک لاتی ہو۔ اگر ریکارڈ کرنے کو کوئی جملہ دہرانے کو کہیے تو وہ پورے جملے میں دو تین بار اِس طور اٹکتی ہے جیسے بعض آڈیوز سے الفاظ حذف کیے جاتے ہیں! اگر وہ کسی کے لیے مبارک باد کا صوتی پیغام محفوظ کراتی ہے تو بھی اِس طور کہ سننے والے کو ایک جملے کے پیغام میں بہت کچھ بین السطور بھی سُنائی دیتا ہے!
کسی بھی معاشرے کا اصل ورثہ اور سرمایا آنے والی نسل ہے۔ یہی نسل ہمارے اجتماعی وجود کو آگے بڑھائے گی، اِس پاک سرزمین کا نظم و نسق اور کاروبارِ حیات سنبھالے گی۔ لازم ہے کہ آنے والی نسل کو آنے والے زمانوں کے لیے بھرپور انداز سے تیار کیا جائے۔ تعلیم و تربیت سے ہٹ کر بھی بہت کچھ ہے جو بچوں کا حق ہے اور وہ اُنہیں ملنا ہی چاہیے۔ بے فکری کا زمانہ ہر بچے کا انتہائی بنیادی حق ہے۔ والدین کے لیے بچوں کا وجود کامرانی و شادمانی کا خزانہ ہوتا ہے۔ اس خزانے کو پانا ہی کافی نہیں۔ اس کا حق بھی تو ادا کرنا ہوتا ہے۔ بچپن ہر طرح کے غیر ضروری دباؤ اور فضول بندشوں سے آزاد ہونا چاہیے۔ بچپن نام ہی بے فکری کا ہے۔ بے فکری ہی سے بچوں کے مزاج کا حُسن نکھرتا ہے، چلبلا پن ابھرتا ہے، شوخی پنپتی ہے، شگفتگی مہکتی ہے، بے باکی پروان چڑھتی ہے، پُرلطف خود سَری آگے بڑھتی ہے اور ایک دنیا کو اپنے آغوش میں لیتی ہے۔ بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے میں بے فکری کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ والدین اِس نکتے پر کم توجہ دیتے ہیں۔ بھرپور بے فکری بالعموم اُسی وقت ممکن ہے جب مالی حالت اچھی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ بچوں کی شخصیت صرف قابلِ رشک مالی حالت ہی سے پنپ سکتی ہے۔ کم آمدن یا کم مالی وسائل والے گھرانوں کے بچے بھی معیاری زندگی کے لیے تیار کیے جاسکتے ہیں مگر اِس میں محنت زیادہ لگتی ہے۔ بچوں کے لیے ماحول ہی سب کچھ ہوتا ہے اور وہ ماحول سے بہت کچھ لینا چاہتے ہیں۔ اُن کی پسند کی بیشتر اشیا کا حصول ممکن بنایا جانا چاہیے، بالخصوص ایسی اشیا کا جو اُنہیں تعلیم و تربیت کے مرحلے میں غیر معمولی حد تک معاونت کرسکتے ہوں۔
ہر دور کم و بیش ہر عمر کے انسانوں کے لیے بعض نئے تقاضے لے کر آتا ہے۔ اس معاملے میں بچے انوکھے نہیں کہ اُن پر یہ اصول یا کلیہ منطبق نہ ہو۔ بچوں کو وقت اور ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے قابل بنانے کے لیے والدین کو اچھی خاصی تیاری کرنا پڑتی ہے۔ محض زیادہ کمانے سے یہ گمان پیدا نہ ہو کہ بچوں کو سب کچھ مل گیا۔ بچے سب سے بڑھ کر آزادی، بے فکری اور ہلکی پھلکی آوارگی چاہتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُنہیں اُسی وقت مل سکتا ہے جب ماحول میں تناؤ نہ ہو۔ اگر حالات کی روش ناگزیر طور پر تناؤ پیدا کرتی ہو تب بھی والدین کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ بچے اُس کی زد میں نہ آئیں۔ بچپن بچوں کی مرضی کا ہونا چاہیے۔ ابتدائی چار پانچ سال تو ایسے ہونے چاہئیں کہ بچے خود کو مختلف معاملات میں شہنشاہ سمجھیں یعنی جو وہ چاہیں‘ وہ آسانی سے مل جائے۔ ہاں! 'کھلاؤ سونے کا نوالہ مگر دیکھو شیر کی نظر سے‘ والا اصول نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ بچہ جب چلنا اور بولنا سیکھتا ہے تب پورے ماحول کو اپنی مٹھی میں بند کرنا چاہتا ہے۔ وہ دیکھ اور سمجھ تو سب کچھ رہا ہوتا ہے مگر بعض معاملات میں کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتا۔ ایسے تمام معاملات کا فہم حاصل کرکے بچے کی بے بسی کو دور کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ بچوں کی نفسی الجھنوں اور مزاج کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے لازم ہے کہ والدین مطالعہ کریں، بچوں کو سمجھنے کی کوشش کریں اور ماہرین کی آرا کی روشنی میں بچوں کے لیے متوازن شب و روز یقینی بنانے کی طرف جائیں۔ خوش و خرم رہنا صرف بچوں کا کام نہیں۔ یہ سب کچھ تو بڑوں پر بھی لازم ہے۔ اُن کے شب و روز بھی بوجھل نہیں ہونے چاہئیں۔ بچے ہم سے کچھ سیکھیں اِس سے بہت پہلے ہمیں اُن سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ بچوں کی سی بے فکری اور شادمانی ہمارے مزاج کا بھی حصہ ہونا ہی چاہیے۔ جینے کا مزا تب ہے کہ جب دل و دماغ پر کوئی غیر ضروری اور غیر منطقی دباؤ یا تناؤ نہ ہو۔ فکری، نفسی اور حِسی ساخت پر زبردستی کا دباؤ نہ ہو تو معیاری زندگی ممکن بنانا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ بچوں کو فرحاں و شاداں رکھنا کسی بھی مرحلے یا درجے میں ناممکن نہیں۔ اِس کے لیے تھوڑی سی کوشش کرنا ہوتی ہے۔
اولین ترجیح اس بات کو دی جانی چاہیے کہ بچے ابتدائی پانچ سات سال تک کسی بھی حوالے سے کوئی دباؤ محسوس نہ کریں۔ وہ جو چاہیں کھائیں‘ پئیں، جو کچھ بولنا چاہیں بولیں۔ عمر کے اِس مرحلے میں بچوں کے لیے جتنی آزادی اور سُکون ممکن بنایا جاسکے گا وہ اُتنے ہی کامیاب انسان بن کر ابھریں گے۔ سجیحہ بھی عمر کے بہترین اور پُرلطف مرحلے سے گزر رہی ہے۔ دعا ہے کہ اُس کے سنہرے دن پوری آب و تاب اور تمکنت کے ساتھ گزرتے رہیں۔ بھرپور مسرت بچوں کا بنیادی حق ہے اور اس حق کی اہمیت کو محسوس کرنا ہمارا فرض ہے۔ ہم اپنا فرض بطریقِ احسن نبھائیں گے تو آنے والی نسل اپنے حصے کا کام ڈھنگ سے کر پائے گی۔ پروین شاکر نے کہا تھا ؎
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
بچوں کو اِتنا بھی چالاک نہیں ہونا چاہیے۔ معصومیت اُن کا بنیادی جوہر ہے۔ اُن کا عہدِ معصومیت پورے منطقی دورانیے کا ہونا چاہیے۔