تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     04-11-2021

شکنجہ کسا جا رہا ہے!

دشمن کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ سب کو ایک ہی طریقے سے ختم نہیں کیا جاتا۔ کچھ زہر سے مر تے ہیں تو کچھ گُڑ سے!
لیبیا کو ختم کرنا تھا تو اس کے لیے خاص قسم کی تکنیک استعمال ہوئی۔ عراق کو مارنا تھا تو مہلک ہتھیاروں کا جھوٹا الزام لگا کر صدام حسین کو ختم کیا۔ پھر سنی شیعہ تفریق کو ہوا دی۔ کرد زیادہ تر سُنی ہیں مگر انہیں قومیت کی بنیاد پر عربوں کے سامنے کھڑا کر دیا۔ جس کی گردن میں جو پھندہ فّٹ آیا، ڈال دیا! کہیں فرقہ واریت! کہیں قومیت! مراکش اور شرق اوسط کے ملکوں کو بادشاہی نظام کے ذریعے قابو کیا۔ پارلیمنٹ کا دخل نہ پریس کا ٹنٹا۔ بادشاہ یا کسی طاقتور شہزادے کو پکڑا اور کٹھ پتلی بنا لیا۔ جمہوریت کے چیمپئن بنتے ہیں مگر جہاں اپنے استعماری مقاصد بادشاہت کے ذریعے پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں وہاں بادشاہت کی حمایت کر ڈالی! کسی بادشاہ نے آنکھیں دکھائیں تو وہاں پیٹ میں جمہوریت کا مروڑ اٹھنے لگا۔ شام کو کمزور کرنے کے لیے مختلف ترکیب آزمائی۔ شام اور عراق دونوں لہو تھوک رہے ہیں۔ ایسی آگ لگائی جو کسی کے تصور میں نہ تھی۔ ایران کو جاں بلب کرنے کے لیے ایک نیا فارمولا ایجاد کیا کہ ایٹمی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟ اسرائیل تو جیسے داماد ہے‘ جو چاہے کرے۔ علاقے کا غنڈہ ہے اور بڑے صاحب کا خاص دوست! وہ بے شک ایٹمی تجربات کرے، کوئی مضائقہ نہیں۔ فرانس اور برطانیہ بھی ایٹمی طاقتیں ہیں مگر انہیں چودہ خون معاف ہیں۔ ایران پر پابندیاں لگا دیں تاکہ سسک سسک کر مرے اور مر مر کے جیے! ترکی کو یورپی یونین میں نہ آنے دیا۔ جب جی چاہا، ترکی کے کُردوں کو بغاوت پر اکسا دیا۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں چونکہ روس کے دائرۂ اثر میں ہیں اس لیے اطمینان ہے کہ روس اس معاملے میں اپنا ہی اتحادی ہے۔ روس سے بڑے صاحب کے لاکھ جھگڑے ہوں مگر مسلمانوں کو نقصان پہنچانا ہو تو دونوں شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ روس ان ریاستوں کی پوری طرح نگرانی کر رہا ہے اور ثقافتی، لسانی اور عسکری اعتبار سے انہیں باقی مسلمان ممالک کے نزدیک نہیں آنے دے رہا!
رہے مصر اور پاکستان تو انہیں زندہ درگور کرنے کے لیے ایک اور نسخہ نکالا گیا‘ اور وہ ہے آئی ایم ایف والا نسخہ۔ مصر بھی اسی شکنجے میں کسا جا رہا ہے جس میں پاکستان! مگر ان دنوں پاکستان پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ اب آئی ایم ایف کے ذریعے مارنا ہو تو اس کا ایک خاص طریقہ ہے! طویل اور مرحلہ وار! یہ برسوں پر نہیں، عشروں پر محیط ہوتا ہے۔پہلے بجٹ کم کرایا جاتا ہے ۔ ٹیکس بڑھائے جاتے ہیں۔ بجلی، گیس، پانی کی قیمتیں زیادہ کی جاتی ہیں۔ پھر جب ان اقدامات کے ذریعے غربت میں اضافہ ہوتا ہے تو آئی ایم ایف کہتا ہے کہ غربت کم کرنے کی تجاویز بھی اس کے پاس ہیں؛ چنانچہ Poverty alleviation programs شروع کرائے جاتے ہیں جس کا مطلب ہے قرض میں مزید اضافہ!
جس ملک کو آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک کے زہر سے مارنا ہو تو پہلے وہاں اپنے گماشتے چھوڑے جاتے ہیں۔ یہ گماشتے دساور کے نہیں بلکہ اسی ملک کے ہوتے ہیں۔ یہ کبھی کھلم کھلا تو کبھی اندر سے اس استعماری ادارے کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ انہیں اُن اداروں تک رسائی دی جاتی ہے جہاں ملک کی مالیاتی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں۔ یہ دی گئی ہدایات کے مطابق پالیسیوں کا رخ تبدیل کرا دیتے ہیں اور ملک کو آئی ایم ایف کے دروازے پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں کم کرنا، آئی ایم ایف کا خاص ہتھیار ہے۔ اپریل 2000 میں اسی ادارے کے ماتحت ایکOverseas Development Council کی ٹاسک فورس بنائی گئی جس نے رپورٹ تیار کی۔ اس رپورٹ کو پڑھ کر انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ پہلے غربت، ایک منصوبے کے تحت، بڑھائی جاتی ہے۔ پھر غربت کم کرنے کے منصوبے پیش کیے جاتے ہیں، یوں حکومت کا جو نظام ہے اس کے اندر گھسا جاتا ہے۔ پاکستان کی وزارت خزانہ کے اندر، ایک طویل عرصہ سے، آئی ایم ایف کے نمائندے براجمان ہیں۔ پاکستان میں ایک اور کام کیا گیا ہے جو پہلے یہاں کبھی نہیں گیا۔ آئی ایم ایف کے ایک مستقل ملازم کو سٹیٹ بینک کا گورنر لگا دیا گیا ہے۔ یہ صاحب پہلے مصر میں آئی ایم ایف کے نمائندے کی حیثیت سے تعینات تھے۔
اگر آنکھیں کھلی ہیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ پاکستان کو کس طرح شکنجے میں کسا جا رہا ہے۔ روپے کی قدر کم کی گئی۔ اب ڈالر کے مقابلے میں ایک سو ستر سے اوپر ہے۔ کیا عجب، ٹارگٹ اسے تین سو تک لے جانا ہو۔ پٹرول کی قیمت مسلسل بڑھائی جا رہی ہے۔ ملک کی تاریخ میں ایک سو سینتیس روپے فی لٹر کی قیمت اس سے پہلے کبھی بھی نہیں تھی۔ شنید ہے‘ سات روپے فی لٹر کا اضافہ مزید تیار ہے۔ ایک دو ماہ تک قوم کو بتایا جائے گا کہ وزیر اعظم اضافے کی تجویز کو نہیں مان رہے۔ اس کے بعد یہ اضافہ کر دیا جائے گا۔ ماضی میں بھی یہی ہوا۔ پہلے بچے کو لولی پاپ دیا جاتا ہے پھر اسے چپت رسید کی جاتی ہے۔ چپت کا پروگرام پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی۔ یہ دو ہتھیار اس استعماری ادارے کے مضبوط ترین پھندے ہیں۔ یہ ملک کے گلے میں ڈال کر کسنا شروع کیا جاتا ہے۔ ملک ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ پھر بجلی اور گیس کی قیمت میں اضافہ، ٹیکسوں کی ظالمانہ بھرمار! بجٹ کی تیاری سے لے کر ترقیاتی منصوبوں کی تیاری تک، ہر کام میں مداخلت! ملک کی خود مختاری عملاً ختم ہو جاتی ہے۔ پاکستان کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ مہنگائی کو وہاں تک لے جایا جائے گا جہاں عوام کے پاس سڑکوں پر آنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہو گا۔ بد امنی کا عفریت باہر نکل آئے گا۔ یہ وہ موقع ہو گا جب یہ عالمی ادارے تمام اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو ڈکٹیٹ کریں گے۔ اصل ہدف پاکستان کی ایٹمی قابلیت ہے۔ اقتصادی طور پر بے بس کرنے کے بعد چھری پھیری جائے گی۔ ہاں! اگر وہ مسبّب الاسباب غیب سے بچا لے تو اور بات ہے!
سٹیٹ بینک کے گورنر کی یہ عجیب و غریب منطق الیکٹرانک میڈیا پر سب نے سنی کہ روپے کی قدر میں کمی کا فائدہ تارکین وطن کو ہوا ہے کہ باہر سے ڈالر بھیجیں گے تو ان کے روپے زیادہ بنیں گے! ارے بھائی! ان روپوں کی قدر ہی کیا رہ گئی ہے۔ کل ردّی خریدنے والا رو رہا تھا کہ ردّی تولنے والا سکیل نواز شریف کے زمانے میں ایک سو ستر روپے کا تھا۔ اب چار سو تیس روپے میں مل رہا ہے‘ یعنی دو سو فی صد سے بھی زیادہ! ایک بڑے ترقی یافتہ ملک کے بڑے شہر سے ایک دوست بتا رہے تھے کہ اُن کے شہر میں تحریک انصاف کی تنظیمیں عملاً ختم ہو چکی ہیں۔ حمایت کا گراف تیزی سے نیچے جا رہا ہے۔ امریکہ میں بھی اس گراف کا رُخ نیچے کی طرف ہو چکا ہے۔ یہ اور بات کہ وہاں کے تارکین وطن کی آنکھیں بہت آہستہ آہستہ کھل رہی ہیں۔ پوری آنکھیں کھلیں گی مگر کچھ دنوں کے بعد۔ شکنجہ تو اُن لوگوں کے گرد کسا جا رہا ہے جو ملک کے اندر ہیں! سنیے! ہڈیاں ٹوٹنے کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved