تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     04-11-2021

قصہ ایک شہرِ قدیم کا …(3)

ہندو مت کی ساری عمارت حقائق یا تاریخ کے بجائے مافوق الفطرت قصوں، اساطیری کرداروں اور دیومالائی کہانیوں پر کھڑی ہوئی ہے۔ رامائن اور مہا بھارت‘ دونوں مہاکاوی یعنی رزمیہ نظمیں ہیں۔ انگریزی میں انہیں Epic poems کہتے ہیں۔ ہومر کی اوڈیسی کے بعد مہا بھارت کو ایک عظیم رزمیہ کی حیثیت حاصل ہے۔ مہا بھارت ایک لاکھ سے زیادہ اشعار یا دو لاکھ سطروں پر مشتمل دنیا کی طویل ترین رزمیہ نظم ہے۔ مہابھارت کوروکشیتر کی جنگ‘ جو کوروئوں اور پانڈوؤں کے درمیان لڑی گئی تھی‘ پر مشتمل رزمیہ ہے۔ اسی طرح ہندو دھرم کی مقدس کتابیں دیوی دیوتائوں کے قصوں، دیومالائی اور افسانوی کرداروں سے بھری ہوئی ہیں۔ ہندو رسومات پر بھی ان دیومالائی قصوں اور افسانوی کرداروں کا اثر واضح نظرآتا ہے۔ ملتان کا اسور حکمران ہیرانیاکاشیپو (Hiranyakashipu) اور اس کی آگ سے محفوظ بہن ہولیکا (Holika) بھی اسی قسم کے کردار ہیں؛ تاہم میرا مقصد پرہلاد مندر کی قدامت اور اس سے جڑی ہوئی دیومالائی کہانی کی تاریخ بیان کرنا ہے۔
پہلے لکڑیوں کا ڈھیر لگایا گیا اور آگ سے محفوظ پرہلاد (Prahlad) کی پھوپھی ہولیکا نے پرہلاد کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور اس الائو کو دھکایا گیا۔ قبل اس کے کہ آگ کی لپٹیں بلند ہو کر پرہلاد کو جلاتیں ہولیکا کا لباس اڑ کر پرہلاد کے اوپر آ گیا۔ پرہلاد بچ گیا اور ہولیکا اس آتشی الائو میں جل کر خاک ہو گئی۔ پھر ایک لوہے کا ستون دھکایا گیا اور پھر پرہلاد کو کہا گیا کہ اگر وہ وشنو کا سچا پیروکار ہے تو اس ستون کو اپنے سینے سے لپٹا لے ۔ کہانی بتاتی ہے کہ جب پرہلاد اس ستون کے قریب گیا تو اس کی تپش نے ایک لمحے کے لئے اس کا یقین متزلزل کر دیا۔ عین اسی لمحے اس نے دیکھا کہ ایک چیونٹی اس دہکتے ہوئے سرخ لوہے کے ستون پر بڑے مزے سے چل رہی ہے۔ یہ پرہلاد کے لئے غیبی اشارہ تھا جس نے اس کے یقین کو پختہ کر دیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس دہکتے ہوئے لوہے کے ستون کو گلے لگا لیا۔ ستون نے پرہلاد کو رتی برابر نقصان نہ پہنچایا۔ تب ستون پھٹا اور اس میں سے پرہلاد کا دیوتا وشنو‘ جس کا سر شیر کا اور جسم انسان کا تھا‘ نکلا اور ہیرانیاکاشیپو کو حاصل پانچ طاقتوں کا توڑ کرتے ہوئے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
یہ ساری کہانی سنانے کا مقصد یہ تھا کہ جب میں نے آخری بار پرہلاد مندر کو اندر سے دیکھا تو سب سے اوپر والی منزل پر واقع مندر کے مرکزی کلس کے نیچے والے چھوٹے سے کمرے میں سامنے والی دیوار پر ایک ستون بنا ہوا تھا‘ جو درمیان میں سے پھٹا ہوا تھا۔ پتھر سے بنا ہوا یہ ستون اسی واقعے کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے بنایا گیا تھا جو اس مندر سے وابستہ تھا۔ اس کمرے میں پرہلاد کی ایک بڑی مورتی تھی جس کا سر اور دیواروں پر بنی ہوئی دیوتائوں کی اشکال بھی ٹوٹی ہوئی تھیں مگر باقی مندر خستہ حالت میں موجود تھا۔ یہ مندر حضرت بہاء الدین زکریا کے مزار سے متصل ہے۔ 1810 میں جب اس کی نئی عمارت تعمیر ہوئی تو مسئلہ اس کی بلندی پر آن اٹکا۔ مسلمانوں کا موقف تھا کہ مندر کی بلندی بہاء الدین زکریا کے مزار کی بلندی سے زیادہ نہ ہو۔ باہمی رضا مندی سے یہ بلندی طے پا گئی۔1876 میں مندر کے بڑے مہنت بابا رام داس نے ہندوئوں کی مدد سے 11000 روپے اکٹھے کئے اور مندر کی تعمیر نو شروع کی اور دوبارہ اونچائی کا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ وہ اس کی بلندی چوالیس فٹ تک لے جانا چاہتا تھا مگر مقامی مسلمانوں نے اس تعمیر کو رُکوا دیا۔ ان کا موقف تھا کہ مندر کی بلندی کے 1856 کے معاہدے کے مطابق اس کی بلندی 33 فٹ کی جائے۔ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو گیا مگر 1880 میں مندر کے مہنت نے مقامی سول اور فوجی حکام سے مل کر دوبارہ اسے 44 فٹ تک لے جانے کے لیے تعمیرات شروع کر دیں۔ اسی دوران بہاء الدین زکریا کے گدی نشین مخدوم بہاول بخش نے کمشنر ملتان کو اس فیصلے کے خلاف اپیل کر دی۔ بعد از تحقیق پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر ایجرٹن نے فیصلہ دیا کہ بلندی 33 فٹ ہو گی۔ ہندوئوں نے اس فیصلے کے خلاف ہندوستان کے وائسرائے رپن کو اپیل کر دی۔ بعد ازاں دربار کے مخدوم نے مندر سے ملحقہ کنویں اور زمین کی مکمل ملکیت کے عوض چوالیس فٹ کی بلندی قبول کر لی۔ 2019 میں مندر منہدم کر دیا گیا۔ اس کی تعمیر نو میں دیگر رکاوٹوں کے علاوہ شنید ہے کہ مسئلہ اس مندر کی زمین کا بھی ہے اور اس کے پیچھے بھی مخدوم ہیں جو مندر کی زمین کو دربار میں شامل کروانا چاہتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ملتان جیسے قدیم شہر کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کی تاریخ، تہذیب و تمدن، آثار قدیمہ اور تاریخی عمارات ماسوائے چند مزارات کے تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ نہ کوئی عجائب گھر ہے اور نہ ہی تاریخی ورثے کا وارث کوئی محکمہ جو اپنا کام سرانجام دے رہا ہو۔ بارہا عجائب گھر کا منصوبہ بنا اور پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں عجائب گھر قائم کرنا ایک فن ہے اور ہم اس فن سے نابلد ہیں۔ کسی کو یہ تک پتا نہیں کہ عجائب گھر کیلئے کس قسم کی عمارت درکار ہوتی ہے۔ پہلے پہل تو ملتان کے 136 سالہ قدیم گھنٹہ گھر میں عجائب گھر بنانے کا اعلان کر دیا گیا۔ ایک سال تک اسی خوش فہمی میں وقت گزار دیا گیا کہ ملتان میں عجائب گھر کیلئے عمارت مل گئی ہے بس اب اس میں ادھر اُدھر سے پکڑ کر چیزیں جمع کرنی ہیں۔ سال کے بعد اچانک علم ہوا کہ یہ عمارت عجائب گھر کے لئے موزوں نہیں اور اس کا سٹرکچر عوام کا دبائو برداشت نہیں کر سکتا۔ پھر یہاں اٹلی کے تعاون سے اندرون شہر کی تزئین نو اور اصل شکل کی بحالی کے پروجیکٹ کا دفتر بنا دیا گیا۔ آج کل یہ تاریخی عمارت‘ جس کا ایک سو پچیس سالہ قدیم کلاک اس صفائی سے چوری کر لیا گیا کہ ابھی تک اس کا کوئی سرا نہیں مل سکا‘ برسراقتدار سیاسی قائدین کے پینافلیکس لگانے کے کام آ رہی ہے۔
پورے شہر میں ایک یہ قدیم گھنٹہ گھر کی عمارت ہے یا پھر قلعہ کہنہ پر موجود ساڑھے سات اور سات سو سال پرانے دو عدد مزارات یعنی بہاء الدین زکریا کا مزار اور رکن الدین عالم کا مقبرہ۔ رکن الدین عالم کا مقبرہ اپنی مثال آپ ہے اور اپنی تعمیری خوبصورتی کے حوالے سے دنیا بھر میں ثانی نہیں رکھتا۔ اپنی بنیاد سے اتنی اونچائی پر اینٹ کی ڈاٹ سے بنا ہوا دنیا کا سب سے بڑا گنبد ہے جسے نیلی ٹائل کے کام نے لافانی حسن عطا کیا ہے۔ میں فن تعمیرات سے نابلد ہوں لیکن اس عمارت کے حسن سے حد درجہ مرعوب ہوں اور جب بھی اسے دیکھتا ہوں مبہوت ہوکر رہ جاتا ہوں۔ 1324 کو تعمیر ہونے والا یہ ہشت پہلو مقبرہ دیپال پور کے گورنر غیاث الدین تغلق نے اپنے لیے بنایا تھا مگر وہ دہلی میں دفن ہوا۔ بعد ازاں محمد تغلق نے یہ عمارت رکن الدین عالم کی تدفین کے لیے تحفہ کردی۔ قلعہ کہنہ پر پرانی عمارات میں پرہلاد مندر شامل تھا اور سرخ پتھر کی اینٹوں کا پچاس فٹ اونچا ایک مینار ہے جو 1848 میں مارے جانے والے دو انگریزوں پیٹرک الیگزینڈر وانزایگینو اور ولیم اینڈرسن کی یاد کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved