''پاکستان میں ہمسایہ ملکوں کے نسبت غربت اور مہنگائی کم ہے، تیل بھی سستا ہے۔ ہم علاقائی ممالک سے مہنگائی کا تقابل کرتے ہیں۔ پاکستان میں اشیا اب بھی علاقائی ممالک سے سستی ہیں۔ پٹرول کی قیمت بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں کم ہے‘ پاکستان میں تیل خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں سستا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری آئندہ مہنگائی کے حوالے سے جلوس نکالیں تو وزیر اعلیٰ سندھ کے دفتر کے سامنے احتجاج کریں تاکہ انہیں پتہ چلے کہ مہنگائی کا ذمہ دار کون ہے... پنجاب اور سندھ میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں کافی فرق ہے۔ پنجاب میں چینی 90 روپے جبکہ کراچی میں 120 روپے کلو ہے۔ سندھ حکومت سے قیمتیں کنٹرول نہیں ہورہیں‘‘۔ ان خیالات کا اظہار وفاقی وزیر اطلاعا ت و نشریات فواد چودھری نے منگل کی شام میڈیا بریفنگ میں کیا۔
یہ میڈیا بریفنگ دیکھ اور سن رہا تھا تو مجھے یہ احساس ہونے لگاکہ ہم بھی کتنے نالائق، کم ظرف اور کم عقل لوگ ہیں کہ حکومت کی ان انتھک کوششوں اوررات دن کی کاوشوں کی قدرہی نہیں کررہے‘ جن کے ذریعے سے تبدیلی حکومت 22 کروڑ عوام کی زندگیوں کو آسان بنانے اور ان کی مشکلات دور کرنے کیلئے مصروف عمل ہے۔ وزیراعظم عوام کو ''اسی ظالم مہنگائی‘‘ کو ختم کرنے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے نہ چاہتے ہوئے بھی پہلے آئی ایم ایف کے پاس گئے، پھر ورلڈ بینک کا دروازہ کھٹکھٹایا، یہی نہیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، ترکی اور چین سمیت تمام دوست ممالک سے بھی مدد مانگی، اور تو اورآدھی درجن کے قریب وزیر اور مشیرخزانہ کو بھی تبدیل کیا‘ لیکن کیا کریں‘ عوام ان تمام حکومتی اقدامات کی افادیت کو سمجھتے ہی نہیں۔ یہ صرف عوام کا ہی درد تھا جس کی بنا پرگورنر سٹیٹ بینک کو بھی آئی ایم ایف کی فرمائش پر ہی رکھا گیا تاکہ آئی ایم کی پالیسی پر عمل کرانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ یہ عوام کا ہی درد تھا جس کے باعث چیئرمین ایف بی آر بھی کئی بار تبدیل کیا گیا۔
میں نے جب ان خطوط پر سوچنا شروع کیا تو بڑی شدت کے ساتھ یہ احساس ہوا کہ وزیراعظم اور ان کی انتہائی قابل، مخلص اور پروفیشنل ٹیم کا واسطہ ایک ایسی قوم سے پڑا ہے جس کو نہ تو اپنے برے بھلے کی سمجھ ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت کے دور میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی فضیلت اور افادیت کا علم ہے۔ میں نے سوچا‘ کیوں نہ آج آپ کے ساتھ اس کالم میں اس حوالے سے بات کی جائے اور اپنے سمیت آپ لوگوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کروں کہ یہ مہنگائی کا سونامی دراصل عوام دوست حکومت کی طرف سے اپنے عوام کے فائدے کیلئے ہے۔ سب سے پہلے پٹرول کی بات کر لیتے ہیں۔ آپ کیا سمجھتے ہیں‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بار بار بڑھا کر حکومت اپنا خزانہ بھرنا چاہتی ہے؟ ایسا سوچنے والوں کے بارے میں کیا کہوں‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھاکر حکومت دراصل عوام کی صحت ٹھیک کرنا چاہتی ہے۔ جتنا پٹرول مہنگا ہو گا اتنا ہی لوگ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا استعمال کم کریں گے۔ جب یہ استعمال کم ہوگا تو پیدل سفر کیا جائے گا اور جب میں اور آپ پیدل چلنا شروع کر دیں گے تو یقینی طورپر اس کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہوں گے۔ ہماری صحت اچھی ہو جائے گی، ہم شوگر، بلڈ پریشر، کولیسٹرول اور موٹاپے سمیت کئی بیماریوں سے نہ صرف بچ جائیں گے بلکہ بیمار ہونے کی صورت میں ادویات پرخرچ ہونے والے روپے بھی کسی اور اچھے مصرف میں لے آئیں گے۔ اسی طرح جب بڑھتی ہوئی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کے باعث سڑکوں پر ٹرک اور بسیں وغیرہ کم چلیں گی تو یقینی طور پر ماحول میں بہتری آئے گی اور وزیر اعظم کا موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے اصلاحات کا نہ صرف خواب پورا ہوگا بلکہ عوام کو آلودگی اور خاص طور پر موجودہ موسم میں سموگ جیسی مشکلات سے بھی چھٹکارا ملے گا۔ نتیجہ پھر وہی کہ ان سب سے بھی عوام کی صحت میں بہتری آئے گی۔
اب تھوڑا سا ذکر کر لیتے ہیں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا۔ میں آج اپنے معصوم اور بھولے عوام کو حکومت کے اس احسان سے بھی آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو وہ بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرکے ہم پر کر رہی ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے پیچھے منطق یہ ہے کہ جب بجلی مہنگی ہوگی تو عوام گھروں میں بجلی سے چلنے والی اشیا مثلاً ایئر کنڈیشنرز، فریج، واشنگ مشین وغیرہ کا استعمال کم کریں گے۔ اس سے بجلی کے بل میں تو کمی آئے گی ہی معاملہ پھر عوام کی صحت پر چلا جائے گا۔ لوگوں کو ایک بار پھر اپنے ہاتھوں سے کام کرنے کی عادت پڑے گی۔ اس کا نتیجہ ایک صحت مند گھرانے کی صورت میں نکلے گا۔ اب تھوڑی سی بات کر لیتے ہیں بجلی کی بڑھتی قیمت اور ملکی انڈسٹری پر اس کے اثرات کی۔ ہمارے عوام کو گلہ رہتا ہے کہ ملک عزیز میں بننے والی اشیا کی سپیریئر کوالٹی دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کر دی جاتی ہے اور ان کے حصے میں صرف ''لیفٹ اوور مال‘‘ ہی آتا ہے۔ جب بجلی کی قیمتیں اتنی بڑھ جائیں گی کہ ہم عالمی منڈیوں میں دوسرے ممالک کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہیں رہیں گے تو پھر ہر طرح کی کوالٹی یہیں پاکستان میں بکے گی۔ اس عمل سے جو انڈسٹری بند ہو جائے گی وہ بھی ملک میں آلودگی ختم کرنے کا ایک ذریعہ بنے گی۔
اب کچھ بات کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے بھی کر لیتے ہیں۔ گوشت مہنگا ہو گا تو لوگ اس کا استعمال کم کریں گے۔ جب گوشت کا استعمال کم ہوگا تو یقینی طور پر کولیسٹرول، یورک ایسڈ اور دل کی بیماریوں سمیت کئی امراض سے جان چھوٹے گی۔ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتیں حکومت اس لیے کنٹرول نہیں کرتی کہ مہنگائی کے باعث یہ خود ہی عوام کی پہنچ سے دور ہو جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اس وقت مہنگائی خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اتنی مہنگائی کی وجہ اگر بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتوں کا اضافہ ہوتا تو آج چین، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اتنی ہی مہنگائی ہوتی۔ پاکستان میں مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ بدانتظامی ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں مہنگائی کی شرح گزشتہ 5 ماہ سے گر رہی ہے۔ وہاں مہنگائی کی شرح 4.3 فیصد ہے، بنگلہ دیش میں 5.5 فیصد، سری لنکا میں 5.7 فیصد ہے اور ہماری ہفتہ وار شرح 14.48 فیصد جبکہ ماہانہ شرح 9 فیصد پر کھڑی ہے۔ عالمی سطح پر چیزوں کی قیمتوں نے اگر 20 سے 25 فیصد اضافہ ہوا ہے تو پاکستان میں اس اضافے کا اثر دگنا ہوا اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں 60 سے 70 فیصد بڑھ گئیں۔ موجودہ دور حکومت میں بجلی کا ایک یونٹ 23 روپے تک پہنچ گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں 8 مرتبہ اضافہ کیا گیا۔ ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز اس کے علاوہ ہیں۔ گیس کی قیمتوں میں 167 فیصد تک اضافہ کیا جا چکا ہے۔ 3 سال میں گردشی قرضہ دُگنا سے زیادہ سے ہو چکا ہے۔ 3 سال میں آٹے کی قیمت میں 65 فیصد اضافہ ہوگیا لیکن عوام کی آمدن میں ایک فیصد اضافہ بھی نہیں ہوا۔ گزشتہ 3 سال میں روپیہ اپنی قدر 40 فیصد کھو بیٹھا اور ہمارے دوست اور انتہائی محترم جناب فوادچودھری فرماتے ہیں ''پاکستان میں ہمسایہ ملکوں کے نسبت غربت اور مہنگائی کم ہے، تیل بھی سستا ہے‘‘۔