تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     04-11-2021

حرف ِشوق

دائیں ہاتھ سے کتاب کھولی۔ دائیں ہاتھ ہی کی ہتھیلی سے دبیز آفسٹ کاغذ کو قابو کیا۔ انگلیوں کے اہلکاروں سے آمنے سامنے صفحات پر اس قبضے میں مدد لی۔ بایاں ہاتھ یا دھواں اُڑانے کیلئے فارغ رکھا یا اس سے بھی کتاب سے پنجہ لڑا لیا۔ کرسی پیچھے جھکا کر پیر سامنے میز پر رکھ لیے۔ کسی مزیدار جملے یا شعر پر نظریں سفید برّاق کاغذ سے ہٹالیں تاکہ سوچنے اور لطف اندوز ہونے کے عمل میں مداخلت نہ ہو۔ بہت عمدہ پیراگراف یا غزل پر کتاب کچھ دیر کے لیے بند کرکے اٹھ کھڑے ہوئے اور بے مقصد دفتر، گھر یا لان کا چکر لگایا تاکہ اس فاصلے سے کہیں زیادہ مسافت ذہن طے کر سکے۔ اتنی دیر خیالوں میں جملوں یا شعروں کا مزا لیا۔ واپس آئے۔ کافی یا چائے کا گھونٹ بھرا اور کتاب دوبارہ کھول لی۔ کتاب کی عادت ایک مزاج ہے اور یہ مزاج سالہا سال میں کتاب پڑھنے کے کئی انداز سیکھ لیتا ہے۔ جو اوپر لکھا وہ تو کرسی یا صوفے پر بیٹھ کر پڑھنے کا آسن ہوا۔ ''فراغتے و کتابے و گوشۂ چمنے‘‘ والی صورت کچھ اور ہے۔ نیم دراز یا مکمل دراز حالتِ مطالعہ ذرا اور طرح کی ہیں۔ دراز قامتی صرف عمودی نہیں افقی بھی ہوسکتی ہے۔ پپوٹے نیند سے بھاری ہوکر جھکنے لگیں، قرآنی الفاظ میں کان تھپک دئیے جائیں تو کتاب بھی سینے پر سر رکھ کر سو جاتی ہے۔ صبح اٹھیں گے تو کتاب بھی جاگ اٹھے گی۔
مختار مسعود کی تازہ کتاب ''حرفِ شوق‘‘ کچھ دنوں سے پھر میرے ساتھ ساتھ ہے۔ مختار مسعود میرے پسندیدہ ترین مصنفین میں ہیں۔ ''آوازِ دوست، سفر نصیب، لوح ایام‘‘ وہ کتابیں ہیں جن سے لکھنا، پڑھنا اور زندگی کرنا سیکھا جاتا ہے۔ ''حرفِ شوق‘‘ مختار مسعود مرحوم کی اسی سلسلے کی چوتھی کتاب ہے۔ 15 اپریل 2017 کو جب اس نادرآدمی کا انتقال ہوا تو اس کے بے شمار مدّاحوں میں ایک مدّاح سعود عثمانی نے ''کتابوں کا منتخب کردہ مصنف‘‘ کے عنوان سے کالم لکھا‘ جس میں یہ جملہ بھی تھا ''مصنف اپنے لیے کتابیں اور موضوع منتخب کرتے ہیں لیکن آوازِ دوست، سفر نصیب اور لوحِ ایام نے اپنے لیے مصنف منتخب کیا تھا۔ مختار مسعود کے علاوہ اورکوئی انتخاب ہو بھی کیا سکتا تھا۔‘‘
اپنے پسندیدہ مصنف، صاحب اسلوب نثرنگار اور خاص طور پر اپنے والدِ مرحوم کے دوست کے بارے میں کیا کہا جائے۔ مختار مسعود کا اسلوبِ نگارش ایک منفرد عمارت کی طرح ہے۔ ان کے ہاں ایک عظیم روایت کے اندر بے شمار حسین روایتیں مدغم ہیں‘ جیسے ایک برّاق، بے داغ سفید سنگِ مرمر کی عمارت میں یاقوتی، زمردی، لاجوردی اور زعفرانی پتھروں کی جڑائی کی گئی ہو۔ ذخیرۂ الفاظ وسیع اور منتخب۔ گھٹیا پن نہ فکر میں نہ الفاظ میں۔ اظہار ایک بلند کرسی کی عمارت پر استوار جس کی پہلی دہلیز تک رسا ہونے کیلئے ایک پوری عمارت کی بلندی چڑھنا پڑتی ہے۔
آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ''حرفِ شوق‘‘ ہاتھ میں آئی ہوگی تو اس کا ایک ایک حرف کس شوق سے پڑھا گیا ہوگا۔ یہ کتاب مختار مسعود صاحب کی باقی کتابوں سے قدرے مختلف لگی۔ ممکن ہے میرا تاثر غلط ہو‘ لیکن جابجا اس میں ایک اجنبی مصنف سے بھی ملاقات ہوتی ہے اور مختار مسعود سے بھی۔ اگرچہ وہ جملہ اس پر بھی راست آتا ہے کہ یہ تحریریں مختار مسعود ہی لکھ سکتے تھے‘ لیکن اس بار اپنے اسلوب کے اعتبار سے کم، اپنے موضوعات کے اعتبار سے زیادہ۔ شاید وہ یہ یادداشتیں اور یہ تحریریں اپنے آپ پر قرض سمجھتے تھے اور قرض اتارنے میں انسان عجلت ہی کرتا ہے۔ شاید وہ کتاب کی تکمیل کے بعد ایسے آسودہ ہوئے کہ اشاعت کا انتظار کیے بغیر آسودگانِ خاک سے جا ملے۔
حرفِ شوق چار مضامین پر مشتمل ہے۔ ان لوگوں کے لیے تو ایک مرقّع جو خود علی گڑھ سے وابستہ رہے ہیں‘ اور ان لوگوں کے لیے ایک دستاویز جو اس بارے میں جاننے کے خواہشمند ہیں‘ لیکن مجھے الجھن ہوئی کہ پانچ سو باسٹھ صفحات کی یہ پوری کتاب علی گڑھ کے گرد گھومتی ہے اور بات ادھر ادھر نکل بھی جائے تو قدم دائرے سے باہر پھر بھی نہیں پڑتا۔ کیا یہ اس شخص کی ریٹائرمنٹ کے بعد یادش بخیریا کی ایک کیفیت تھی جو خود یہ جانتا تھاکہ اب اس عہد، ان لوگوں اور ان عمارات سے غیر متعلق لوگوں کو کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوسکتی۔
لیکن مجھے اس کے دو جواب ملے۔ ایک جواب تو میرے دل نے دیا اور وہ یہ کہ اپنی اس مادر علمی، اور تحریکِ پاکستان میں اس کے کردار سے جو تعلق بلکہ عشق مختار مسعود کو تھا اس کے تحت وہ اپنے اوپر اس کا حق اور قرض سمجھتے تھے۔ نیز کئی ایک پھیلی ہوئی غلط فہمیوں، گمنام ہوجانے والے ناموروں اور فراموش کردئیے جانے والے زمانوں کا دکھ جس طرح وہ محسوس کرتے تھے کسی اور کے بس کا نہیں تھا۔ سو انہیں اجاگر کردینے کا حق ان کے سوا کوئی ادا بھی نہیں کرسکتا تھا۔ سچ یہ ہے کہ حرف شوق میں مؤلف نے‘ جو اکثر جگہ مؤرخ ہے‘ نہایت اہم سوالوں کے جواب بھی دئیے ہیں۔
میں جناب مختار مسعود کے مداحوں میں بلکہ اسیروں میں ہوں؛ تاہم خوگرِ مدح اگر کبھی گلہ گزار ہو تو اس بڑی بات کو کہنے والے کا چھوٹا منہ دیکھ کر نظر انداز کردینا چاہیے۔ حرفِ شوق میں ایک علیگ سے مسلسل ملاقات ہوتی ہے‘ ایک مؤرخ سے اکثروبیشتر‘ایک اعلیٰ افسر سے گاہے گاہے اور ایک پسندیدہ مصنف سے کم کم۔ ہمارا واسطہ تو اسی کم کم مصنف سے تھا جو اپنی باقی تصانیف کی نسبت اس میں کم کم پکڑائی دیتا ہے۔ اس مصنف سے یہ ملاقات جہاں بھی ہوئی اس نے سیراب کیا‘ لیکن سیراب ہونے کیلئے پانی کی سطح پر اترنا اس پرانے تجربے سے الگ تھا‘ جہاں پانی بلند ہوکر پیاسے ہونٹوں تک رسا ہوجاتا تھا۔ ممکن ہے یہ عجلت میں قائم کی گئی رائے ہو‘ اور بارِ دگر مطالعے پر کتاب کے بارے میں رائے بدل جائے۔ ویسے بھی تاریخی غلط فہمیوں کے ازالے، الجھے ہوئے معاصرانہ گنجل سلجھانے اور اڑتی دھول پر چھڑکاؤ کرنے میں ادبی گنجائشیں کم ملتی ہیں۔ خاص طور پر جب لمبی علالت جسم‘ طبیعت پر چیل کی طرح پنجے گاڑ کر بیٹھ گئی ہو۔
حرف شوق میں مختار مسعود نے اورنگ زیب عالمگیر کے بارے میں بھی چند صفحات مختص کیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ بہت جرأت مندانہ سچ کہا ہے اور بہت سے دلوں کی نمائندگی کی ہے۔ جہاں تاریخِ جہاں، تاریخ ہند اور شخصیات پر انہوں نے گفتگو کی ہے وہ بھی نہایت جچی تلی ہے۔ بہت سی انگریزی مروّجہ اصطلاحات ہیں جن کے اردو متبادل مختار مسعود صاحب نے کتاب میں شامل کیے ہیں۔ ان میں بہت سے ایسے ہیں جن سے تادیر لطف لیا جاسکتا ہے۔ جائیدادِ دانش (intellectual property)، سادہ سازی (simplification)، سرمایۂ کفالت (provident fund)، بساط سودا بازی (Bargaining counter)، گزارش گر (reporter)، ورزشیات (Atheletics) وغیرہ۔ یہ بات بھی حق ہے کہ ایک مختصر تحریر حرفِ شوق کا ٹھیک سے حق ادا نہیں کرسکتی۔ اس کے بے شمار جملے بار بار سنائے جانے اور نقل کیے جانے کے حق دار ہیں۔
''آج کا بچہ آنے والے کل کا والی یا والد ہوتا ہے۔ جب بچے جوان ہو جائیں تو اسے مستقبل کہتے ہیں۔ جب وہ بوڑھے ہو جائیں تو اسے ماضی کہتے ہیں‘‘۔
''اچھی نثر کی اصل پہچان یہ ہے کہ اس میں حسن، زرخیزی اور خیر ہو، حسن عبارت کا، زرخیزی فکر کی اور خیر جو ان دونوں کا حاصل ہے۔ اچھی نثر کا فیضان یہ ہے کہ وہ لکھنے والے کے لیے نعمت اور نیکی ہوتی ہے{ اور پڑھنے والے کے لیے انعام اور اکرام۔‘‘
حسن، زر خیزی، خیر۔ مختار مسعود کے اپنے الفاظ سے بہتر ان کی اپنی تحریر کے لیے کیا لفظ ہوں گے۔ ایک صاحبِ طرز نثرنگار کے لیے یہی نذرانہ بہترین سمجھ کر پیش کرتا ہوں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved